آج ایک انتہائی پریشان کن حقیقت یہ ہے کہ تقریباً ہر شعبے میں اِتنی پیش رفت ہوچکی ہے کہ کچھ نیا کرنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ جب نئی نسل کسی شعبے کی طرف دیکھتی ہے تو اُس کا دل بیٹھنے لگتا ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ وہ اپنی پسند کے شعبے میں کسی طور کوئی گنجائش نہیں پاتی۔ بعض شعبوں میں کچھ نیا تو کیا، پرانا بھی کر دکھانے کی گنجائش نہیں رہی۔ پہلے ہی اتنا ہوچکا ہے کہ نئے آنے والے مکھی پر مکھی بٹھانے سے زیادہ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ یہ صورتِ حال خاصی پیچیدہ ہے اور انسان کو مزید الجھارہی ہے۔ اس وقت دنیا کی آبادی بھی بہت بڑھ چکی ہے اور کام کرنے والوں کی تعداد بھی اِتنی ہے کہ نئے آنے والوں کے لیے گنجائش گھٹ رہی ہے۔ بیشتر شعبوں میں افرادی قوت کی گنجائش اِتنی تیزی سے گھٹ رہی ہے کہ نئی نسل کو اُس طرف آنے سے پہلے دس بار سوچنا چاہیے۔ بعض شعبوں میں افرادی قوت کی گنجائش اب بھی موجود ہے مگر کب تک رہے گی‘ یہ بات پورے یقین سے کوئی بھی نہیں کہہ سکتا۔ سو‘ ڈیڑھ سو سال پہلے یہ کیفیت نہیں تھی۔ تب بہت کچھ ایجاد ہوا تھا نہ اختراعات کا بازار ہی گرم تھا۔ جب زندگی میں ٹھہراؤ تھا تب کسی کے لیے نام بنانا آسان نہ تھا۔ بہت محنت کرنا پڑتی تھی۔ سوچنا بھی بہت پڑتا تھا۔ اپنے آپ کو منوانے میں لوگ ایک عمر کھپادیا کرتے تھے۔ یہ ناگزیر تھا۔ زندگی کی رفتار خاصی کم تھی۔ یہی حال تحقیق و ترقی کے شعبے کا بھی تھا۔ کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنے کے لیے جو کچھ درکار ہوا کرتا تھا وہ لوگوں کو آسانی سے نہیں ملتا تھا۔ تکنیکی ذہن رکھنے والوں کو خاص طور پر الجھنوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ علم و فن کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا۔ مطالعہ آسان نہ تھا کیونکہ کتابیں آسانی سے مل نہیں پاتی تھیں۔ کتب خانے کم تھے۔ کتب فروش بھی معدودے چند تھے۔ کسی کو اگر کسی کتاب کی ضرورت پڑتی تو طویل فاصلہ طے کرکے اُس کتاب تک پہنچنا پڑتا تھا۔
جب اتنی مشکلات تھیں تب کچھ نیا کر دکھانا واقعی دانتوں تلے پسینہ لانے والا معاملہ تھا۔ پھر بھی ایک بات کا اطمینان ضرور تھا‘ یہ کہ ذہنی استحکام سلامت تھا۔ لوگ مشکلات کا سامنا کرنے سے گھبراتے نہیں تھے کیونکہ دل و دماغ قابو میں رہتے تھے۔ کسی بھی شعبے میں پریشانی یا مشکلات کا سامنا کرنے پر لوگ مطمئن رہتے تھے کہ یہ سب کچھ سب کے لیے تھا یعنی آسانی کسی کے لیے نہ تھی۔ جو اپنا آپ منوانا چاہتا تھا اسے جاں گُسل نوعیت کی محنت کرنا پڑتی تھی۔ اس بات کا بھی اطمینان رہتا تھا کہ کسی بھی شعبے میں کچھ نیا کرنا واقعی نیا کرنا تھا۔ جب کچھ ایجاد ہوتا تھا تو دھوم مچ جاتی تھی۔ ایجاد و اختراع سے جڑے ہوئے لوگ حقیقی احترام پاتے تھے۔ لوگ اُنہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے۔ آج معاملہ بہت مختلف ہے۔ ایک بڑی مصیبت تو یہ ہے کہ اتنا کچھ ایجاد ہوچکا ہے کہ اب کچھ نیا میدان میں لانا حقیقی دردِ سر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ لوگ بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر کر نہیں پاتے۔ راہ نہیں ملتی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ جو کچھ کرنا ہے وہ کیسے کیا جائے۔ ہر شعبے میں ایجادات اور اختراعات کی بھرمار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب ایجاد کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ صرف ندرت اور جدت کا بازار گرم ہے۔ یہ بازار بھی انسان کو نچوڑ لیتا ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ مقابلہ بہت سخت ہے۔ عمومی نوعیت کے کام تو کوئی بھی کرلیتا ہے۔ اگر کچھ خصوصی طور پر کرنا ہو تو انسان کو بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ منصوبہ سازی کے مرحلے سے بھی گزرنا پڑتا ہے اور لائحۂ عمل بھی سوچ سمجھ کر طے کرنا پڑتا ہے۔
انیسویں صدی کے اواخر تک ایجادات و اختراعات کی گرم بازاری نہ تھی۔ بیسویں صدی کے آتے آتے بہت کچھ تیزی سے ایجاد ہونے لگا۔ تکنیکی ترقی میں غیر معمولی پیش رفت کی راہ ہموار ہوئی۔ ایجادات و اختراعات نے ایک دوسرے کے لیے راہ ہموار کرنا شروع کی۔ عصری علوم و فنون نے جب تیز رفتار پیش رفت پائی تو بہت کچھ تیزی سے تبدیل ہونے لگا۔ ہر شعبے کو تجارت یا معاش سے جوڑ دیا گیا۔ نت نئی ٹیکنالوجی کی راہ ہموار ہوئی۔ ٹیکنالوجیز کی مدد سے ایسی اشیا تیار کی جانے لگیں جو بازاروں میں تیزی سے فروخت ہوتی تھیں کیونکہ اُن کے ذریعے زندگی کو آسان بنانا ممکن ہو جاتا تھا۔ ہر چیز کا تجارتی پہلو دیگر تمام معاملات پر حاوی ہوگیا۔ ٹیکنالوجیز نے جب مارکیٹ کو بھرنا شروع کیا تب نئی افرادی قوت کی بھی گنجائش پیدا ہوئی۔ نئی نسل بہت تیزی سے عصری علوم و فنون کی طرف آنے لگی۔ ادب و ثقافت میں دلچسپی گھٹنے لگی۔ خالص مادّہ پرست ذہنیت تیزی سے پنپنے لگی۔ اس کے نتیجے میں نئی نسل کی پوری توجہ عصری علوم و فنون پر مرتکز ہوگئی۔ زندگی کا غیر معاشی یعنی اخلاقی و ثقافتی پہلو پس منظر میں چلا گیا۔ یہ ایسی تبدیلی تھی جسے آگے چل کر بہت بھیانک ثابت ہونا تھا۔
آج ہم اُس مقام پر کھڑے ہیں جہاں سبھی کچھ خالص مادّہ پرستی کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہے۔ انسان صرف اور صرف ہوسِ زر کا غلام ہے۔ وہ ہر معاملے میں محض یافت دیکھتا ہے یعنی اُس کی نظر میں صرف اس بات کی اہمیت ہے کہ کچھ ملنا چاہیے، جیب میں کچھ آنا چاہیے۔ زندگی صرف زر اور ہوسِ زر کا نام نہیں مگر آج کے انسان کو یہ بات سمجھانا بہت مشکل ہے۔ اب ہر معاملہ گھوم پھر کر مال و زر کے دروازے تک پہنچ جاتا ہے۔ آج کم و بیش تمام محفلوں کا موضوعِ گفتگو یہی ہے کہ کتنا کمایا جائے اور کس طرح کمایا جائے۔ اب مشکل یہ آن پڑی ہے کہ انسان کرے کیا۔ کرنے کے لیے کچھ خاص بچا ہی نہیں۔ ہر شعبے میں محض نقّالی چل رہی ہے یا پھر خانہ پُری کے انداز سے کام ہو رہا ہے۔ لوگ محنت سے جی چرا رہے ہیں اور جدت پسندی سے بھی۔ کچھ نیا سوچنے سے گھبرانے اور کترانے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اداروں کے ادارے بے یقینی اور بے دِلی کا شکار ہیں۔ کوئی اگر کچھ نیا کرنا بھی چاہتا ہے تو اُس کی راہ میں مزاحم ہونے والے واضح اکثریت میں ہوتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں کچھ نیا ہو ہی نہیں پاتا۔ نیا اور زیادہ سوچنے والوں کو بالکل پسند نہیں کیا جاتا۔ آج کی دنیا میں کچھ نیا کرنے کی گنجائش برائے نام رہ گئی ہے۔ ہر شعبے میں کام کرنے والوں اور غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ نئی نسل دور ہی سے یہ منظر دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتی ہے، دل بیٹھنے لگتا ہے۔ ایسے میں گنجائش کیونکر تلاش کی جائے؟ یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ گنجائش تلاش نہیں کی جاتی‘ پیدا کی جاتی ہے۔ کسی کے لیے کہیں بھی گنجائش ہوتی نہیں، نکالنا اور پیدا کرنا پڑتی ہے۔ اگر کسی کو کسی شعبے میں آگے بڑھنا ہے تو بہت پڑھنا اور سوچنا پڑے گا۔ تحقیق و ترقی کے شعبے سے وابستہ ہوئے بغیر کچھ نیا نہیں سوچا جاسکتا۔ بعض شعبوں میں تحقیق و ترقی کا بازار ہمیشہ گرم رہتا ہے کیونکہ متعلقین دن رات کچھ نہ کچھ نیا سوچنے اور کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ٹیکنالوجیز آتی ہیں اور غیر متعلق ہوتی جاتی ہیں۔ بعض ٹیکنالوجی کی آمد سے کئی دیگر ٹیکنالوجیز کی تجارتی اہمیت اِتنی گھٹ جاتی ہے کہ لوگ اُن کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔
اب نئی نسل کو بہتر اور زیادہ بارآور زندگی کے لیے تیار کرنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ انہیں سمجھایا جانا چاہیے کہ بھرپور انداز سے جینا ہے، حقیقی مسرت سے ہم کنار ہونا ہے تو لازم ہے کہ سوچا جائے، تحقیق سے مدد لی جائے، مشاورت کے ذریعے کیریئر کا سوچ سمجھ کر انتخاب کیا جائے۔ کسی بھی شعبے میں اپنے لیے گنجائش پیدا کرنا اب واقعی دردِ سر ہے مگر جب انسان کامیابی سے ہم کنار ہوتا ہے دل و دماغ کا اطمینان بھی قابلِ دید و قابلِ رشک ہوتا ہے۔ نئی نسل کے لیے آج کی زندگی ہر اعتبار سے ایک بڑا چیلنج ہے۔ کامیابی یقینی بنانے کے لیے دن رات ایک کرنا لازم ہے۔ اِسی صورت کچھ نیا ہو پاتا ہے اور کسی مقام تک پہنچنے کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ اب کسی بھی شعبے میں نام کمانے کے لیے جاں گُسل نوعیت کی جدوجہد لازم ہے۔ اور یہ اطمینان بھی ہونا چاہیے کہ یہ جدوجہد ہی آپ اپنا معاوضہ ہے۔