"MIK" (space) message & send to 7575

گفتگو کے فن کو کیا ہوا؟

ہم سب بولنا چاہتے ہیں اور بول بھی رہے ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ گفتگو کہیں بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ کیوں؟ کم ہی لوگ جانتے ہیں۔ غور کریں تو جان بھی پائیں۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ اُنہیں یہ احساس بھی نہیں کہ گفتگو کا فن کھو سا گیا ہے۔ سب اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ جو کچھ اُن کے منہ سے نکلتا ہے وہ گفتگو ہے۔ ایسا نہیں ہے! گفتگو محض بولنے کا نام نہیں۔ کوئی بولتا ہی چلا جائے تو اُسے گفتگو نہیں، خود کلامی کہا جاتا ہے۔ گفتگو کے لیے انگریزی میں لفظ dialogue ہے جبکہ خود کلامی یعنی اپنے طور پر بولتے چلے جانے کو monologue کہا جاتا ہے۔
لفظ ''ڈائیلاگ‘‘ فلموں کے حوالے سے زیادہ معروف و مقبول ہے۔ فلموں میں کرداروں کے درمیان ہونے والی بات چیت کو ڈائیلاگ کہا جاتا ہے جبکہ بعض اداکار ڈائیلاگ سے زیادہ مونو لاگ پر یقین رکھتے ہیں۔ اُن کے نزدیک زیادہ اہمیت اُس بات کی ہے جو اُن کے منہ سے نکلے۔ کامیاب فلمیں وہ ہیں جن میں کرداروں کے درمیان تند و تیز گفتگو ہوتی ہے یعنی کہانی کے موڑ کی مناسبت سے دلچسپ اور جاندار جملوں کا تبادلہ ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو زیادہ اہم گرداننے والے اداکار چاہتے ہیں کہ صرف وہ بولتے رہیں اور فریقِ ثانی سنتا رہے۔ اِس کے نتیجے میں فلم کا پورا ڈھانچا زمین پر آ رہتا ہے۔ دلیپ کمار کی آخرِ عمر کی کئی فلمیں اُن کی خود کلامی اور لیکچر بازی کے باعث ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ اپنی بات کہنے بلکہ کہتے چلے جانے کا رجحان عملی زندگی میں بھی پوری آب و تاب کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ آج کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ گفتگو سے گریز کرنے لگے ہیں۔ کوشش صرف یہ ہوتی ہے کہ کچھ نہ کچھ بول کر پوائنٹ سکورنگ کی جائے اور کسی نہ کسی طور بحث میں فتح یقینی بنائی جائے؛ یعنی اب گفتگو کوئی کام کی بات پانے کے لیے نہیں بلکہ محض اپنی فتح یقینی بنانے کے لیے کی جاتی ہے۔
ایک دور وہ بھی تھا جب اجنبی بھی ملتے تھے تو بات کرتے تھے، خیالات کے تبادلے کے ذریعے ایک دوسرے کو جاننے میں دلچسپی لیا کرتے تھے۔ کوشش ہوتی تھی کہ ذہن میں کوئی ابہام باقی نہ رہے اور ایک دوسرے کو اس طور جان لیا جائے کہ جاننے کا حق ادا کرنے کی راہ ہموار ہو۔ امریکی مصنفہ اور ڈیریگزل یونیورسٹی میں انگریزی کی پروفیسر پاؤلا میرینٹز کوہن (Paula Marantz Cohen) کہتی ہیں کہ جب سمارٹ فون، میسج بورڈز اور آن لائن فورمز نہیں تھے تب لوگوں کے پاس بیان کرنے کو بہت کچھ تھا۔ زندگی کی رفتار آج کی سی ہنگامہ خیز و ہنگامہ پرور نہ تھی۔ تب کہنے ہی کو بہت کچھ نہ تھا بلکہ سننے کا ظرف بھی بلندی پر تھا۔ ایسے لوگ برائے نام تھے جنہیں صرف اپنی بات کہنے کا ہَوکا ہوتا تھا۔ لوگ کچھ کہنے سے پہلے فریقِ ثانی کو سننا پسند کرتے تھے تاکہ جواب میں ڈھنگ سے کچھ کہہ سکیں۔ تب گفتگو میں انسانوں کو انسانیت دکھانے اور ثابت کرنے کا موقع ملتا تھا۔ لوگ اس خوف کے بغیر گفتگو کیا کرتے تھے کہ کہیں سیاسی اختلافِ رائے کی بنیاد پر اُن کے خیالات مسترد نہ کردیے جائیں۔
گفتگو کیا کردار ادا کرتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ ہر انسان کو زندگی بھر گفتگو کرنا پڑتی ہے۔ ہم یومیہ بنیاد پر بہت سے لوگوں سے کچھ نہ کچھ کہتے ہیں اور اُس کے جواب میں کچھ نہ کچھ سنتے ہیں۔ گفتگو کا فن انسان کو بیشتر معاملات میں بلندی عطا کرتا ہے۔ گفتگو میں مہارت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی بات پورے اعتماد کے ساتھ بیان کرنے کے قابل ہو پاتا ہے اور ٹھوس انداز سے سوچنے کی طرف بھی مائل ہوتا ہے۔ اب ہم اُن زمانوں کو یاد کرکے صرف رو سکتے ہیں جب گفتگو واقعی خیالات کے تبادلے کا ذریعہ ہوا کرتی تھی۔ اچھے گھرانوں میں بچوں کو خاصی توجہ کے ساتھ سکھایا جاتا تھا کہ گفتگو کے دوران فریقِ ثانی کی بات توجہ سے سننے کو اہمیت دیں۔ جواب میں جو کچھ کہا جائے وہ معقول اور متوازن ہونا چاہیے تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ گفتگو کو معاملات کی تفہیم کے ذریعے کے طور پر بروئے کار لانے کا فن قرار دے کر خاصی توجہ اور جاں فشانی سے سکھایا جاتا تھا۔ اس بات کو بالکل پسند نہیں کیا جاتا تھا کہ ضرورت کے بغیر صرف بول بول کر دوسروں کا ناک میں دم کیا جائے۔
زندگی میں سارا تنوع اختلاف سے ہے۔ اگر لوگ ایک دوسرے سے مختلف نہ ہوں تو زندگی یکسانیت کے دائرے میں مقید ہوکر رہ جائے۔ پاؤلا میرینٹز کوہن نے گفتگوکے فن پر خاصی تحقیق کی ہے۔ وہ ''Talking Cure: An Essay on the Civilizing Power of Conversation‘‘ کی مصنفہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج ہم میں سے بیشتر صرف اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ کوئی ہماری بات سنے اور مکمل اتفاق کرے۔ گزرے ہوئے زمانوں میں یہ رجحان نہیں تھا۔ لوگ اختلافِ رائے کو پسند کرتے تھے اور کسی کی بالکل مختلف رائے سن کر بھی متاثر ہوتے تھے اور فریقِ ثانی کو سراہتے بھی تھے۔ اختلافِ رائے کو محض تسلیم نہیں بلکہ قبول بھی کیا جاتا تھا۔ یہ بھی انسان دوستی کے اظہار کا ایک موثر طریقہ تھا۔ ویسی انسانیت آج کی بنیادی ضرورت ہے مگر خال خال دکھائی دیتی ہے۔
آج مجموعی مزاج یہ ہے کہ بات جیسے تیسے بیان کردی جائے اور سننے والے قبول بھی کریں۔ دنیا الجھی ہوئی ہے۔ ذہنوں میں گرہیں پڑی ہوئی ہیں۔ ایسے میں اختلافِ رائے کا پایا جانا فطری امر ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ اختلافِ رائے کو ایک اٹل حقیقت گرداننے والے بھی اِسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ آج کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ لوگ گفتگو کے ذریعے معاملات کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھاتے ہیں۔ اب صرف وہی باتیں اچھی لگتی ہیں جو ہمارے حق میں یا مفاد میں ہوں۔ ایسے میں گفتگو کے دوران تعقل اور دانش کی گنجائش برائے نام رہ گئی ہے۔ گفتگو کے فن کو پہنچنے والے اس بڑے نقصان کے ازالے کی ضرورت ہے۔ لازم ہوچکا ہے کہ گفتگو کے فن کو نئی زندگی دینے کی بھرپور کوشش کی جائے، بچوں کو سکھایا جائے کہ بات چیت کے نام پر محض اپنا ''منجن‘‘ بیچنے سے غرض نہیں ہونی چاہیے بلکہ فریقِ ثانی کی بات بھی پوری توجہ سے سننی چاہیے تاکہ معقول ترین جواب دینا ممکن ہو۔ پاؤلا کوہن کہتی ہیں کہ جس طور ہم اپنی کہانیاں دوسروں کو سُناکر اپنے اعتماد کا گراف بلند کرتے ہیں بلکہ اُسی طور دوسروں کی بات پوری توجہ سے سننا بھی ہمیں بہت کچھ دیتا ہے۔ دوسروں کی کہانیاں بھی ہماری بصیرت میں اضافہ کرتی ہیں، شعور کی سطح بلند ہوتی ہے اور ہم زیادہ اعتماد کے ساتھ اپنی بات کہنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ جب ہم گفتگو کے ذریعے کچھ کشید کرنے کی کوشش کرتے ہیں تب ہمارے خیالات اور عقائد میں پختگی آتی ہے اور ہم زیادہ انہماک کے ساتھ کام کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔
گفتگو کا فن اگر ڈھنگ سے سیکھا جائے تو ہمارے ذہن تبدیل ہوتے ہیں اور روح شاداں و فرحاں رہتی ہے۔ 2018ء میں کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جو لوگ ٹھوس، معقول اور متوازن گفتگو کے عادی ہوتے ہیں وہ بالعموم اپنی زندگی سے بہت مطمئن اور خوش رہتے ہیں۔ جو لوگ معقول انداز سے گفتگو کرتے ہیں یعنی اپنی بات ڈھنگ سے بیان کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی خاطر خواہ توجہ سے سنتے ہیں وہ زندگی کا ساتھ نبھانے پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ اچھی گفتگو انسان کو خوش رکھتی ہے۔ کسی سے معقول انداز سے کی جانے والی گفتگو انسان کو بہت کچھ دیتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اعتماد کا گراف بلند ہوتا ہے۔ اچھی اور ٹھوس گفتگو انسان پر کچھ نیا سیکھنے کے لیے دباؤ بھی بڑھاتی ہے۔ اگر انسان کسی ایسی محفل میں بیٹھتا ہو جہاں مدلل اور متوازن گفتگو ہوتی ہو تو وہ خود بھی بہت کچھ پڑھنے اور سیکھنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ جب کچھ کہنے کا موقع ملے تو ڈھنگ سے بولنا ممکن ہو۔ آج کا پاکستانی معاشرہ مدلل گفتگو سے بہت دور ہوچکا ہے۔ لوگ صرف کہنا چاہتے ہیں، سننے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ خواہش اور کوشش صرف یہ ہے کہ کسی نہ کسی طور فریقِ ثانی پر ''دلائل‘‘ کی دھاک بٹھادی جائے۔ یہ سب تج کر خالص، بارآور گفتگو کو آپشن اپنانے کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں