سنا تو آپ نے بھی ہوگا کہ جلدی کا کام شیطان کا مگر جناب! شیطان تو مفت میں بدنام ہے۔ اُس سے کہیں زیادہ جلد باز اور بے صبرے تو ہم انسان ہیں۔ فی زمانہ ہم سے برائے نام بھی صبر نہیں ہو پاتا۔ سبھی ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے متمنی ہیں۔ عمومی سطح پر خواہش یہ ہے کہ اِدھر بیج ڈالیں اور اُدھر پودا اُگ آئے اور پھر یہی پودا دیکھتے ہی دیکھتے درخت بھی بن جائے۔ پتیلی چولھے پر دھرتے ہی ہم چاہتے ہیں کہ کھانا پک جائے۔ یہ جلد بازی معاملات کو ایسا بگاڑتی ہے کہ پھر وہ سنورنے کا نام نہیں لیتے۔ چھوٹی موٹی باتوں میں برتی جانے والی جلد بازی پوری زندگی کو داؤ پر لگادیتی ہے۔ ہر شعبے میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ کسی میں غیر معمولی صلاحیت تھی مگر وہ طویل اننگز کھیلنے پر راضی نہ ہوا، ہر معاملے میں جلد بازی کو شعار بنائے رکھنے کو ترجیح دی اور پھر اِس کا نتیجہ بھی بھگتا یعنی کہیں کا نہ رہا۔ کھیل، شوبز، کاروبار، علم و ادب‘ غرض ہر شعبے میں ایسے لوگ ملیں گے جن میں بہت کچھ بننے کی بھرپور صلاحیت تھی مگر اُنہوں نے سنجیدگی اختیار نہیں کی، جلد بازی ترک نہیں کی اور راتوں رات بہت کچھ پانے کی تمنا کے ہاتھوں یا پھر تن آسانی کے نتیجے میں اپنا کیریئر ہی ختم کر بیٹھے۔
اداکاری کی مثال لیجیے۔ کسی بھی اداکار کو طویل اننگز کھیلنی ہو تو بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے۔ اداکاری مشاہدے کو فن میں تبدیل کرنے کا نام ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اداکار اپنے ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر عمیق نظر رکھتے تھے اور جو کچھ بھی دلچسپ یا انوکھا دکھائی دیتا تھا اُسے اپنانے کی کوشش کرتے تھے تاکہ اداکاری میں جان پڑے، انفرادیت کا سامان ہو۔ کئی اداکار محض اس لیے کامیاب ہو پائے کہ اُنہوں نے مشاہدے کی عادت ترک نہیں کی۔ ساتھ ہی ساتھ مطالعہ بھی جاری رکھا۔ وہ اپنے سینئرز سے بھی بہت کچھ سیکھتے تھے۔ انسان نے بہت کچھ سیکھا ہو تو اُس کے اثرات جلوہ گر ہوکر رہتے ہیں۔ کرکٹ میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے بیٹرز صرف چوکے، چھکے مارنے پر یقین رکھتے ہیں۔ دھواں دھار نوعیت کی بیٹنگ کی بدولت وہ بہت تیزی سے مقبولیت کی بلندی کو چھولیتے ہیں مگر اُن کے کیریئر کی اننگز زیادہ طویل یا لمبی نہیں ہوتی۔ جاوید میاں داد، سنیل گواسکر، سچن ٹنڈولکر اور اِسی قبیل کے دیگر کرکٹرز سے بخوبی سیکھا جاسکتا ہے کہ کس طور کیریئر کو دھیرے دھیرے آگے بڑھاکر قابلِ رشک حد تک مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔ ہم نے چند برس میں ایسے کئی کرکٹرز دیکھے ہیں جو افق پر اچانک ستاروں کی طرح ابھرے اور تیزی سے چمک کر غائب ہوگئے۔ اُن کی عجلت پسندی اُنہیں لے ڈوبی۔ کیریئر کی طویل اننگز کھیلنے کے لیے بہت صبر کرنا پڑتا ہے۔ منصوبہ سازی بھی لازم ہے۔ طویل اننگز یقینی بنانے کے لیے بہت سنبھل کر کھیلنا پڑتا ہے۔ لازم نہیں کہ جب بھی طبیعت کچھ زیادہ کر گزرنے کو للچائے‘ تب ایسا کیا بھی جائے۔ جس بیٹر کے کاندھوں پر ٹیم کی ذمہ داری ہوتی ہے وہ ہر گیند کا بہت سوچ سمجھ کر سامنا کرتا ہے اور کرنا ہی چاہیے۔
پاکستان کی شوبز انڈسٹری میں ایسے کئی فنکار آئے جو غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل تھے اور اپنے آپ کو منوانے میں ایک حد تک کامیاب بھی رہے۔ جی ہاں‘ ایک حد تک! اِس حد سے آگے جانا اُن کے لیے ممکن نہ ہوسکا۔ اور یہ بھی کہ یہ اُن کی اپنی کرنی کا پھل تھا۔ 1980ء کے عشرے کے اوائل میں مقبولیت کی قابلِ رشک بلندیوں کو چھونے والے پروگرام ''ففٹی ففٹی‘‘ کی مثال بہت نمایاں ہے۔ اس پروگرام سے ہماری شوبز انڈسٹری کو اسماعیل تارا، ماجد جہانگیر، زیبا شہناز، اسما عباس، لطیف کپاڈیا، اشرف خان اور کئی دوسرے باصلاحیت اور مقبول فنکار ملے۔ اِن سب کی شاندار کارکردگی نے ففٹی ففٹی کو ایسی مقبولیت بخشی جو آج بھی برقرار ہے۔ مزاحیہ خاکوں کا یہ پروگرام معاشرے اور انتظامی مشینری میں پائی جانے والی خامیوں اور خرابیوں پر بھرپور طنز تھا۔ ماجد جہانگیر اور اسماعیل تارا اس پروگرام کے روحِ رواں تھے۔ دونوں کی صلاحیتیں اس پروگرام کے ذریعے ایسی نکھر کر سامنے آئیں کہ دنیا حیران رہ گئی۔ یہ دونوں فنکار جس بھیس میں بھی ہوتے‘ رنگ جما دیتے تھے۔ ماجد جہانگیر کو ہم نے قوّال، قصاب، خاکروب، قلی، ویٹر، پھل فروش، پولیس مین، پرائمری سکول ٹیچر، طالب علم، ٹیکسی ڈرائیور، ریلوے ٹکٹ چیکر، کھلاڑی اور گداگر‘ غرض ہر روپ میں دیکھا۔ وہ ہر رنگ میں جچتے تھے۔ علاقائی لہجوں پر بھی قابلِ رشک حد تک عبور حاصل تھا۔ یہی حال اسماعیل تارا کا تھا۔ آج یہ دونوں فنکار اِس دنیا میں نہیں مگر اِن کا فن زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ دُکھ اگر ہے تو بس اس بات کا کہ یہ دونوں لمبی ریس کے گھوڑے ثابت نہ ہوسکے۔ لمبی ریس کے گھوڑے؟ جی ہاں! باضابطہ اور بھرپور اداکاری اِن سے نہ ہو پائی۔ اسماعیل تارا نے تو چند فلموں کے علاوہ آخرِ عمر میں کچھ ڈراموں اور سیریلز میں بھی کام کیا؛ تاہم ماجد جہانگیر سے یہ بھی نہ ہو پایا۔ سٹیج پر بھی دونوں زیادہ کامیاب نہ ہوسکے۔
کیا سبب تھا کہ ماجد جہانگیر اور اسماعیل تارا اداکاری کی دنیا میں طویل اننگز نہ کھیل پائے؟ بات اِتنی مشکل نہیں کہ سمجھ میں نہ آئے۔ جس طور بعض کرکٹرز دھواں دار بیٹنگ کے چکر میں صرف چوکے باز یا چھکے باز رہ جاتے ہیں اور وکٹ پر زیادہ دیر ٹھہر کر بیٹنگ کرنے کے قابل نہیں رہتے بالکل اُسی طرح یہ دونوں فنکار بھی چند منٹ کے خاکوں کی نفسیات میں پھنس کر رہ گئے۔ خاکے کی حد تک یہ لاجواب فنکار تھے۔ آج بھی خاکوں کے فن میں کوئی اِنہیں چھو بھی نہیں سکتا۔ ففٹی ففٹی میں لطیف کپاڈیا، اشرف خان اور دیگر فنکاروں کا فن ایک خاص حد تک تھا۔ ماجد جہانگیر اور اسماعیل تارا کے فن میں شاندار اور قابلِ رشک گہرائی و گیرائی تھی۔ چھوٹے چھوٹے خاکوں نے اِنہیں مثالی مقبولیت بخشی مگر پھر یہی چیز اِن کی راہ میں دیوار بھی بن گئی۔ اِن کا فنی مزاج چھوٹے چھوٹے خاکوں کے پنجرے میں مقید ہوکر رہ گیا۔ وہ کبھی اِس پنجرے سے باہر نہ آسکے۔ کسی کو اگر ''فُل سپیکٹرم‘‘ اداکاری کرنی ہو تو بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے، مشق کرنا پڑتی ہے، ٹمپرامنٹ پیدا کرنا پڑتا ہے۔ اداکاری تو خاکوں میں بھی ہوتی ہے مگر وہ خاصی محدود ہوتی ہے۔ ماجد جہانگیر اور اسماعیل تارا کو اِس بات کا کریڈٹ بہرحال دینا پڑیگا کہ اُنہوں نے خاکوں کے فن کو ایک باضابطہ شعبے کی حیثیت سے منوایا۔
بہت سوں کو آپ نے دیکھا ہوگا مگر توجہ شاید نہ دی ہو کہ وہ اچھی خاصی صلاحیتوں کے حامل ہونے پر بھی لمبی ریس کے گھوڑے ثابت نہ ہوسکے۔ بڑی اننگز وہی کھیل سکتا ہو جو صبر و تحمل کے معاملے میں تربیت یافتہ ہو، مزاج میں ٹھنڈک کی اہمیت سمجھتا ہو، ٹھہراؤ کے اثرات کے بارے میں جانتا ہو۔ شوبز میں بہت سوں کو آپ راتوں رات ابھرتے، مقبولیت پاتے اور پھر اچانک منظر سے غائب ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔ جب منصوبہ سازی نہ کی جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ فی زمانہ شہرت جتنی تیزی سے آتی ہے اُتنی ہی تیزی سے چلی بھی جاتی ہے۔ سوال شہرت کے حصول کا نہیں‘ اُسے برقرار رکھنے کا ہے۔ فطری رفتار سے چلنے والے زیادہ کامیاب رہتے ہیں۔ بہت تیزی انسان کو آگے تو لے جاتی ہے مگر وہاں زیادہ دیر ٹکنے نہیں دیتی۔
حقیقی اور دیرپا کامیابی اُنہیں ملتی ہے جو پوری توجہ سے اور نیت کے اخلاص کے ساتھ اپنے حصے کا کام کرتے چلے جاتے ہیں اور نتیجہ اللہ تعالیٰ کی رحمت پر چھوڑ دیتے ہیں۔ طویل اننگز کھیلنے یا لمبی ریس کا گھوڑا ثابت ہونے کے لیے غیر معمولی ٹمپرامنٹ درکار ہوتا ہے۔ عجلت پسندی کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہر اچھا کام ایک خاص رفتار اور وقت چاہتا ہے۔ اب مسابقت بھی زیادہ ہے اور ساری محنت راتوں رات زائل ہو جانے کا خطرہ بھی کم نہیں۔ کوئی خود کو واقعی منوانا چاہتا ہے تو عجلت پسندی ترک کرے، پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اترے اور دھیرے دھیرے کیریئر مستحکم کرتا جائے۔ لمبی ریس جیتنے کے لیے گھوڑے میں توانائی کا برقرار رہنا لازم ہے۔ جذباتی ہوکر چند زقندوں ہی میں پوری توانائی کو استعمال کرنا اُسے ضائع کرنے کے مترادف ہے۔