غم کس کے مقدر میں نہیں ہوتے؟ کون ہے جسے مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا؟ ہر انسان کو زندگی بھر اچھے خاصے تواتر سے پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دنیا کا نظام اِسی طور چلتا ہے۔ سب کے حصے میں آسانیاں اور مشکلات‘ دونوں آتی ہیں۔ جو صورتحال درپیش ہو اُس سے مطابقت رکھنے والی طرزِ فکر و عمل اپنانا پڑتی ہے۔ یہ کم و بیش ہر انسان کا معاملہ ہے کہ شدید مشکل وقت کا سامنا خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی پوچھتا نہیں مگر پوچھنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ کوئی کہاں تک خبر گیری کرے؟ سب کے اپنے مسائل ہیں۔ کون ہے جسے مسائل نے گھیر نہیں رکھا؟ کسی سے متوجہ نہ ہونے کا شکوہ فضول ہے کیونکہ ہماری طرح دوسروں کے بھی مسائل ہیں، الجھنیں ہیں۔ اگر کوئی ہم پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے رہا تو سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم کسی پر خاطر خواہ توجہ دے رہے ہیں۔ اگر نہیں تو پھر شکوہ بنتا نہیں۔ اِسی کا نام حقیقت پسندی ہے۔ جب بھی کسی کو مشکل صورتِ حال کا سامنا ہوتا ہے تب اُس کے ذہن کے پردے پر سب سے پہلے یہ خیال ابھرتا ہے کہ سب نے آنکھیں پھیر لی ہیں‘ تنہا چھوڑ دیا ہے۔ کسی بھی مشکل گھڑی میں انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ اُس کا کوئی بھی نہیں‘ سبھی منہ پھیرے ہوئے ہیں۔ ایسا احساس اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ ہر مشکل صورتِ حال میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سب سے پہلے متاثر ہوتی ہے۔ حواس ٹھکانے پر نہیں رہتے۔ ایسے میں انسان تعقل کا مظاہرہ کرنے کے بجائے بے حواس ہوکر خود کو بے سہارا محسوس کرنے لگتا ہے۔
ایک بڑی مصیبت یہ بھی ہے کہ مجموعی ماحول ہمیں کسی بھی مشکل گھڑی میں زیادہ تنہا محسوس کرنے پر اُکساتا ہے۔ ہم جس خطے میں اور جس زبان و ثقافت کے زیرِ اثر جی رہے ہیں‘ اُس کا مجموعی مزاج ہی کچھ ایسا ہے کہ ہر غم زدہ انسان خود کو دنیا کا سب سے بدنصیب اور دُکھی انسان تصور کرتا ہے۔ ہمارے خطے کی شعری اور ادبی روایات میں اَلم پسندی ایک انتہائی بنیادی جُز کے طور پر موجود رہی ہے۔ شعرا اَلم پسندی کے رجحان کو پسند کرتے ہیں اور فکشن یا نان فکشن لکھنے والے بھی ایسی چیزیں لکھنے کو ترجیح دیتے ہیں جن کی مدد سے پڑھنے والوں کے جذبات کو آسانی سے کیش کرایا جاسکے۔ الم پسندی چونکہ عمومی مزاج کا حصہ ہے اس لیے آج بھی المیہ شاعری بہت چلتی ہے اور ایسے افسانوں، ناولوں کی طلب زیادہ ہے جن کا انجام المیہ ہو یعنی ہیرو یا ہیروئن کو محبت میں مکمل ناکامی سے دوچار ہونے کے بعد شدید رنج و غم میں ڈوبا ہوا دکھایا جائے۔ اِس رجحان کے تحت جو ادب معرضِ وجود میں آیا اُس میں ایسے اجزا زیادہ ہیں جو انسان کو پژمردگی، قنوطیت پسندی اور منفی سوچ کی طرف دھکیلتے ہیں۔
کسی بھی مسئلے کا سامنا ہونے پر کچھ لمحات کے لیے بے حواس ہو جانا کسی بھی درجے میں حیرت انگیز بات نہیں۔ سوال سنبھلنے اور سوچ سمجھ کر چلنے کا ہے۔ ہر انسان کو اپنے مسائل خود حل کرنا پڑتے ہیں۔ کسی بھی نوجوان بیٹر کو بیٹنگ کی اچھی تربیت دی جاسکتی ہے، ذہن تیار کیا جاسکتا ہے مگر بالآخر میدان میں جاکر کھیلنا تو اُسی کو ہے۔ وکٹ پر اُسی کو کھڑا ہونا ہے۔ تربیت انسان کی صلاحیتوں کو سنوارتی ہے اور اُس میں اعتماد کا گراف بلند کرتی ہے؛ تاہم حتمی تجزیے میں تو جو کچھ بھی کرنا ہے اُسی کو کرنا ہے۔ آپ کا بوجھ اول و آخر آپ ہی کو اٹھانا ہے۔ کوئی ساتھ دے گا بھی تو ایک خاص حد تک اور اِس کے لیے اُسے موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
عام آدمی کی نفسیاتی ساخت کا ایک اہم جُز یہ ہے کہ وہ کسی بھی پریشان کن صورتِ حال میں بہت تیزی سے ہمت ہارنے لگتا ہے۔ کوئی بھی پریشان کن کیفیت اس لیے نہیں ہوتی کہ آپ کو ہڑپ کرلے بلکہ اُس کا بنیادی مقصد آپ کی صلاحیتوں کو جِلا بخشنا ہوتا ہے۔ کسی بھی پریشانی کا سامنا کرتے وقت اپنے آپ کو موردِ الزام ٹھہرانے، کوسنے یا پھر خود کو بے سہارا محسوس کرنے کے بجائے یہ سوچیے کہ اگر یہ مشکلات نہ ہوں تو آپ کی آزمائش کیونکر ہو اور لوگوں کو آپ کی صلاحیت و سکت کا اندازہ کیسے ہو۔ کسی بھی انسان میں کتنا دم خم ہے اِس کا اندازہ ہمیں اُسی وقت ہو پاتا ہے جب ہم اُسے مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اگر ذرا سی مشکل سے وہ ہمت ہار بیٹھے تو افسوس ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو عمل کی کسوٹی پر پرکھنے کے بجائے اُس نے میدان چھوڑنے کو ترجیح دی۔ سراج الدین ظفرؔ کہتے ہیں ؎
آدمی کا ہجومِ غم میں ظفرؔ!
کوئی اپنے سوا نہیں ہوتا
یہی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ ہر انسان منفرد ہے اور انفرادیت محض یہ نہیں ہے کہ اُس جیسا کوئی اور نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ اپنے حصے کی زندگی اُسی کو بسر کرنی ہے۔ اُس کی طرف سے کوئی اور جی نہیں سکتا۔ یہی معاملہ عمل کا بھی ہے۔ ہر انسان کو اپنے حصے کے اعمال انجام تک پہنچانا پڑتے ہیں۔ وہ کسی اور سے یہ توقع نہیں کرسکتا کہ اُس کی طرف سے کچھ کرے، اُس کے معاملات درست کرتا پھرے۔ ہمیں ہر طرح کی ناموافق صورتِ حال میں ہمدردی بھی ملتی ہے اور مدد بھی۔ دنیا کا نظام اِسی طور چلتا ہے مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ سب اپنی اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہمیں بھی اپنی ہی زندگی بسر کرنی ہے۔ جب زندگی اپنی ہے تو اُس سے وابستہ آسانیاں اور دُشواریاں بھی اپنی ہی ہیں۔ آپ اپنی آسانیوں میں سے کسی کو کیا اور کتنا دیتے ہیں؟ ایک خاص حد تک! اگر دل بڑا بھی ہو تو اُس کے بڑپّن کی بہرحال ایک حد تو ہوتی ہی ہے۔ کوئی آپ سے ہر وقت ہمدردی اور مدد کی امید رکھے تو؟ ایسے میں وہ وقت آنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی جب آپ اُکتا جاتے ہیں اور جان چھڑانے پر متوجہ ہوتے ہیں۔ یہی معاملہ دوسروں کا ہے۔ اُن کے حصے میں آسانیوں کے ساتھ ساتھ مشکلات بھی ہیں۔ وہ بھی اپنی جگہ حالات سے لڑ رہے ہوتے ہیں۔ جس نے یہ حقیقت جان لی، سمجھ لی وہ تیزی سے کامیاب ہوا اور کامیابی کو برقرار رکھنے میں بھی کامیاب ہوا۔
کسی نے خوب کہا ہے کہ دنیا والے حال صرف اُس سے حال پوچھتے ہیں جس کے حالات اچھے ہوں۔ جن کے حالات خراب ہوں اُنہیں حال پوچھنے والوں کی تلاش میں آئینے کے سامنے کھڑا ہونا پڑتا ہے! جی ہاں، آئینے میں صرف آپ ہوتے ہیں۔ کسی بھی صورتِ حال میں کسی اور کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے وجود کا جائزہ لیجیے۔ کوئی اور آپ کا ہو نہ ہو، آپ کا وجود تو آپ ہی کا ہے ؎
آئینے میں کوئی تو ہے اپنا
یہ شناسائی بھی غنیمت ہے!
سہارے تلاش کرنے کی عادت انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتی۔ آپ اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھتے (اور شاید بھگتتے بھی ہیں) جو قدم قدم پر اپنی مشکلات کے تدارک کے لیے اِدھر اُدھر دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ یہ عادت اُنہیں اندر ہی اندر کمزور کرتی رہتی اور ناپسندیدہ بناتی ہے۔ مشکل صورتِ حال کا سامنا کرنے اور اُس کے تدارک کے لیے فکر و عمل کی راہ پر گامزن ہونے کے بجائے اپنا بوجھ دوسروں پر ڈالنے کے عادی افراد بالآخر عمل کی کسوٹی پر انتہائی کمزور ثابت ہوتے ہیں۔ کسی بھی ناموافق صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے انسان کو صرف اپنی ذات پر بھروسا کرنا چاہیے۔ ایک اٹل، دلچسپ اور حوصلہ افزا حقیقت یہ بھی ہے کہ جب کوئی اپنے مسائل حل کرنے میں غیر معمولی دلچسپی لیتا ہے اور پوری سنجیدگی کے ساتھ فکر و عمل کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تب دوسروں کو بھی خیال آتا ہے کہ آگے بڑھ کر اُس کی مدد کی جائے۔ اقبالؔ کا پیغام ہے کہ جو اپنے من میں ڈوبتے ہیں اُنہی کو زندگی کا سُراغ ملتا ہے۔ یہی اِس دنیا کی سب سے بڑی اور اٹل انفرادی حقیقت ہے۔ اپنے بوجھ کیلئے دوسروں کے کاندھوں کو بلا جواز تکلیف نہ دینے ہی میں عظمت پوشیدہ ہے۔