جب تک سانسوں کا تسلسل برقرار ہے تب تک ہم سب کی زندگی میں مسائل رہیں گے۔ یہ دنیا مسائل کی آماجگاہ کا درجہ رکھتی ہے مگر اِسے منفی نقطۂ نظر سے مت دیکھیے۔ مسائل اِس لیے نہیں ہوتے کہ مایوس یا بددل ہوکر اُن کے آگے ہتھیار ڈال دیے جائیں۔ یہ تو سراسر بزدلی ہوئی۔ مسائل اصلاً اِس لیے ہوتے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو عمل کی کسوٹی پر پرکھیں، حل تلاش کریں اور یوں اپنی زندگی کا معیار بلند کریں۔ مسائل کا ہونا اِس بات کی دلیل ہے کہ کائنات کا خالق چاہتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو جہدِ مسلسل کی راہ پر گامزن رکھیں، اپنے مقصدِ تخلیق کی تکمیل کے لیے کوشاں رہیں۔
مشکلات اور مسائل کے ہاتھوں شدید ذہنی الجھن کا وجود اپنی جگہ اور تسلیم شدہ سہی مگر یہ بھی دیکھیے کہ مسائل اور مشکلات ہی کے دم سے زندگی کے میلے کی رونق ہے۔ یکسانیت کی زندگی کسی کام کی نہیں ہوتی۔ جب بظاہر کوئی مشکل راہ میں حائل نہ ہو تو انسان سہل پسند ہو جاتا ہے اور تب وہ اپنے آپ کو آزمانے کی ذہنیت سے بھی دامن چھڑاتا دکھائی دیتا ہے۔ مسائل نہ ہوں تو پیش رفت رک جائے۔ جب کسی بھی معاملے میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے تب ذہن کو کام پر لگانے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ جن لوگوں کی زندگی میں مسائل نہیں ہوتے اُن کی زندگی میں ہلچل بھی نہیں ہوتی اور یوں وہ کچھ نیا کرنے کا ذہن بھی نہیں بنا پاتے۔ اِس کا مشاہدہ کچھ خاص مشکل نہیں۔ جنہیں باپ دادا سے ترکے میں غیر معمولی دولت ملی ہو وہ بالعموم اپنے آپ کو زیادہ آزمائش میں ڈالنا پسند نہیں کرتے اور پُرسکون زندگی بسر کرتے رہنے کو ترجیح دیتے رہتے ہیں۔ کیا مسائل کے معاملے میں زیرو پوائنٹ ممکن ہے؟ ایسا ممکن تو نہیں مگر کچھ لوگ ممکن بنانے کی کوشش ضرور کرتے رہتے ہیں۔ اِس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔ انتہائی مالدار اور اثر و رسوخ رکھنے والے طبقے کے لوگ بظاہر کسی بڑی مشکل یا مسئلے کے بغیر زندگی بسر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ایسا ہوتا نہیں۔ ساحرؔ لدھیانوی نے خوب کہا ہے ؎
دیکھا ہے زندگی کو کچھ اِتنا قریب سے
چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے
جن کی زندگی میں ہمیں مکمل ٹھہراؤ اور سکون دکھائی دیتا ہے اُنہیں قریب جاکر دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسائل اور الجھنوں سے استثنیٰ تو انہیں بھی نہیں مل سکا۔ مسائل کسی کی بھی زندگی میں صفر کے مقام پر نہیں پہنچتے۔ کسی بھی معاملے میں زیرو پوائنٹ کا مطلب ہے ٹھہراؤ۔ حقیقی زیرو پوائنٹ تو صرف موت ہے۔ موت کی آمد تمام معاملات کے محض تعطل کا نہیں بلکہ خاتمے کا اعلان کرتی ہے۔ موت سے قبل تک ہی زندگی ہے اور جب تک زندگی ہے تب تک مسائل رہیں گے، مشکلات کا سامنا رہے گا۔ اِس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مرتے دم تک محوِ فکر و عمل بھی رہنا ہے۔ مشاہدہ اچھا ہوتو آپ دیکھیں گے کہ وہی لوگ بھرپور زندگی بسر کرتے ہیں جو آخری دم تک زندگی کو اُس کے تمام حسن اور تمام قباحتوں کے ساتھ قبول کرتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ سوچنے پر بھی یقین رکھتے ہیں اور عمل پر بھی۔ اِن کے اعمال فکر کی گہرائی کے بغیر نہیں ہوتے اور اِن کا تفکر کبھی عمل سے محروم نہیں رہتا۔ مسائل کے حوالے سے زیرو پوائنٹ پر پہنچنے کی آسان ترین صورت وہ ہے جو ہمارے ہاں بیشتر نے اپنا رکھی ہے یعنی مسائل پر متوجہ ہونے سے گریز کیجیے، اُنہیں درخورِ اعتنا ہی نہ سمجھیے، نظر انداز کرتے رہیے۔ یہ ذہنیت بے ذہنی اور بے عملی‘ دونوں کی عکاس ہوتی ہے۔ بے ذہنی اور بے عملی صرف اور صرف تن آسانی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ فکر و عمل سے گریز کی راہ پر گامزن رہنا بیشتر کو اس لیے پسند ہے کہ ایسا کرنے کے لیے کچھ کرنا نہیں پڑتا۔ مسائل کو حل کرنے سے اجتناب برتنے کی روش چونکہ آزمائش میں نہیں ڈالتی اس لیے اِس روش پر گامزن رہنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ایسی حالت میں زندگی کا لینڈ سکیپ بہت محدود رہ جاتا ہے۔
زندگی امکانات کے بارے میں سوچتے رہنے کا نام ہے۔ جو لوگ امکانات کے بارے میں سوچتے ہیں اُن کے لیے قدم قدم پر مواقع موجود ہیں۔ جنہیں آگے بڑھنا ہے، حقیقی پیش رفت یقینی بنانی ہے اُنہیں مواقع کو شناخت کرنے کا ہنر بھی آنا چاہیے۔ یہ ہنر آسانی سے نہیں آتا۔ برسوں کی ریاضت سے انسان امکانات کو پہچاننا سیکھتا ہے اور یوں وہ مواقع سے مستفید ہونے کے ہنر میں بھی مہارت حاصل کرتا ہے۔ مواقع کبھی ختم تو کیا ہوں گے‘ کم بھی نہیں ہوتے۔ ہم ہر صورتِ حال میں اپنے لیے موزوں ترین مواقع تلاش کرسکتے ہیں۔ سوال صرف تلاش اور شناخت کا ہے۔ اِس کے بعد ارادۂ عمل کی منزل آتی ہے۔ جو اِن دونوں مراحل سے بحسن و خوبی گزر گیا اُسی نے ڈھنگ سے جینے کی راہ پائی۔ آپ کے جتنے بھی مسائل ہیں اُن کے لیے فی الاصل کون ذمہ دار ہے؟ اس سوال کا ملا جلا جواب یہ ہے کہ کبھی حالات مسائل پیدا کرتے ہیں اور کبھی ہم خود مسائل کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیں اور ہمارے اچھے خاصے معاملات کی بساط الٹ دیں۔ اگر آپ اپنے تمام مسائل کے لیے دوسروں کو ذمہ دار گرداننے کی ذہنیت کے حامل ہیں تو اِس ذہنیت سے دامن چھڑائیے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ کے تمام مسائل دوسروں کے پیدا کردہ ہوں۔ اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کبھی کبھی حالات ایسا پلٹا کھاتے ہیں کہ ہماری سمجھ ہی میں کچھ نہیں آتا کہ ہوا کیا ہے۔ ایسے میں اپنے آپ کو سنبھالنے اور معاملات کو درست کرنے میں خاصا وقت لگتا ہے اور محنت بھی اچھی خاصی کرنا پڑتی ہے۔ حالتِ جنگ میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ معاشرے میں انتشار عمومی کیفیت کا درجہ رکھتا ہو تو بہت کچھ ہمارے ہاتھ میں نہیں رہتا۔ ہم چاہ کر بھی اپنے معاملات کو خرابی سے نہیں بچا پاتے۔ پھر بھی آپ کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ حالات کی خرابی کو ایک خاص حد تک رکھنا یعنی اُس کے اثرات سے بہت حد تک محفوظ رہنا سب کے لیے ممکن ہے۔ آپ بھی چاہیں تو ایسا کرسکتے ہیں۔ جب مسائل خالصتاً اور اصلاً آپ کے اپنے پیدا کردہ ہوں تو اُنہیں حل کرنے کی ذہنیت بھی آپ ہی میں پیدا ہونی چاہیے۔ یہ ذہنیت معاملات کو سلجھانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ مسائل کو پیدا کرنے کے بعد اُنہیں نظر انداز کرنے کی کوشش سادہ لوحی اور حماقت دونوں کی انتہا ہے۔ جن مسائل کو آپ کی ذہنیت یا مزاج نے پیدا کیا ہو اُن کا حل دوسرے کیسے سوچ سکتے ہیں؟
شخصی ارتقا کے موضوعات پر لکھنے والوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ انسان کو اپنے تمام افکار و اعمال اور واقعات و حالات کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ اہلِ دانش کہتے ہیں کہ جب تک آپ اپنے مسائل کے لیے دوسروں کو ذمہ دار سمجھتے رہیں گے تب تک ان کا مؤثر اور دیرپا حل تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ اپنے کسی بھی معاملے کے لیے کسی اور کو ذمہ دار ٹھہرانے کی صورت میں آپ حل تلاش کرنے کے حوالے سے سنجیدہ ہوں گے ہی نہیں۔ جب آپ میں سنجیدگی نہیں ہوگی تو کام کرنے کی لگن بھی پیدا نہیں ہوگی۔ آپ اِس وقت جہاں ہیں وہاں سے آگے بھی جاسکتے ہیں، مزید بہت کچھ کرسکتے ہیں مگر اِس کے لیے آپ کو اپنے فکری ڈھانچے میں تھوڑی سی تبدیلی متعارف کرانا ہوگی۔ کسی بھی معاملے میں ذمہ داری کا بوجھ دوسروں پر ڈالنے کی صورت میں آپ بہتری کی صورت نہیں نکال سکتے۔ پہلے قدم پر تسلیم کیجیے کہ آج آپ جو کچھ بھی ہیں اور کس کیفیت کے حامل ہیں اُس کی پوری ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے۔ جب آپ ذمہ داری قبول کرنا سیکھیں گے تب حل تلاش کرنے کی ذہنیت پیدا ہوگی۔ یہ ذہنیت ہی نئی دنیاؤں کی سیر کراتی ہے۔ جب ہم اپنے معاملات کو درست کرنے نکلتے ہیں تب ہی کچھ ہو پاتا ہے۔ محض شکوہ سنج رہنے اور اپنے معاملات کی خرابی کے لیے دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے سے محض خرابیاں مضبوط ہوتی جاتی ہیں۔ جو لوگ اپنے تمام معاملات کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں وہی اُن میں پائی جانے والی خرابیوں کے تدارک کے بارے میں سنجیدہ ہو پاتے ہیں۔ یہ سنجیدگی عمل پسندی کی تحریک دیتی ہے اور یوں زندگی راہِ راست پر آتی جاتی ہے۔