"MIK" (space) message & send to 7575

مدد کرنا اچھی بات ہے، مگر …

کسی بھی انسان کو زیبا ہے کہ دوسروں سے کٹ کر‘ ہٹ کر زندگی گزارے، اپنے تمام معاملات کو تنہا نمٹانے کی کوشش کرے اور اگر کوئی مدد کرنے کو تیار بھی ہو تو مدد قبول نہ کرے اور بے جا اَنا کے ذریعے اپنی ہی راہ میں کانٹے بکھیرے؟ دانش کہتی ہے کہ انسان کے لیے دوسروں سے الگ تھلگ رہ کر جینے کا کوئی مفہوم نہیں کیونکہ اس کائنات سمیت ہم سب کے خالق و مالک نے ہمیں اس مقصد کے تحت خلق ہی نہیں کیا۔ ہماری تخلیق کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ اپنے خالق کی رضا یقینی بنانے کے لیے جئیں اور اِس مقصد کے حصول کے لیے مل جل کر کام کریں تاکہ کوئی بھی اپنی صلاحیت و سکت تک محدود نہ رہے اور کوئی یہ بہانہ گھڑنے کی پوزیشن میں نہ ہو کہ فلاں کام تو اُس کے بس کا تھا ہی نہیں۔ اگر ہر انسان اپنی صلاحیت و سکت تک محدود رہے تو کوئی بھی کچھ زیادہ نہ کر پائے۔
ایک ہوتا ہے اشتراکِ عمل‘ یہ معاملہ اُن کے ساتھ ہوتا ہے جن میں کچھ کرنے کی اہلیت اور سکت پائی جاتی ہے۔ جب یکساں یا ملتی جلتی صلاحیتوں کے حامل افراد اپنی اپنی سکت اور لگن کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ وہ عمل کے معاملے میں اشتراک کر رہے ہیں یعنی اشتراکِ عمل کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ یہ طریق بھی ترقی کی طرف لے جانے والا ہے۔ ہم زندگی بھر مل جل کر ہی کچھ نہ کچھ کر رہے ہوتے ہیں۔ اشتراکِ عمل انسان کی نفسی ساخت کا حصہ بھی ہے اور جبلی تقاضا بھی۔ کوئی بھی انسان تنہا کچھ زیادہ نہیں کرسکتا۔ کسی نہ کسی شکل میں دوسروں کو ساتھ ملانا پڑتا ہے، اشتراکِ عمل کے مرحلے سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ البتہ کبھی کبھی انسان اس قابل نہیں رہتا کہ اشتراکِ عمل کرسکے۔ تب اُسے دوسروں سے صرف مدد کی ضرورت ہے۔ یہ بھی فطری امر ہے۔ کبھی ہمیں کسی کی ضرورت پڑتی ہے اور کبھی کوئی ہم سے مدد کا طالب ہوتا ہے۔ زندگی کا سفر یونہی جاری رہتا ہے۔ ہم دوسروں کی مدد کرکے بہت خوش ہوتے ہیں۔ کسی کی مدد کرکے حاصل ہونے والی خوشی ہی اُس احسان کی حقیقی جزا ہے۔ جس طور محبت اپنی جزا آپ ہوتی ہے بالکل اُسی طور کسی سے جتائی جانے والی ہمدردی اور کی جانے والی مدد بھی آپ اپنی جزا ہوتی ہے۔ یہ نکتہ تھوڑا سا باریک ہے اس لیے ذہن پر تھوڑا سا زور دینے ہی پر سمجھ میں آتا ہے۔ عمومی سطح پر بہت سوں کا معاملہ یہ ہے کہ مدد کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ اُن کے ذہن میں یہ تصور گھر کرچکا ہوتا ہے کہ مدد کے طالبین میں سے اکثریت کو حقیقی ضرورت نے گھیرا نہیں ہوتا بلکہ وہ محض عادتاً دوسروں سے مدد کے طالب رہتے ہیں۔ یہ سوچ یا تصور بالکل بے بنیاد نہیں۔ اگر ضرورت پڑنے پر ہر بار مدد کی جاتی رہے تو انسان رفتہ رفتہ از کار رفتہ ہو جاتا ہے یعنی عمل پر اُس کا یقین زیادہ یا محکم نہیں رہتا۔ ایسے میں وہ کچھ کیے بغیر بہت کچھ پانے کے منصوبے بنانے لگتا ہے۔
ترقی یافتہ معاشروں میں معاملات کی نوعیت ایسی ہے کہ الگ تھلگ رہنے والے اور دوسروں سے مدد پانے کے خواہش مند زیادہ دن چل نہیں پاتے۔ ترقی پذیر اور پس ماندہ معاشروں کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ یہاں مانگنے والے بھی کم نہیں ہوتے اور دینے والے بھی اچھے خاصے ہیں۔ مانگنے کی ذہنیت تو سمجھ میں آتی ہے کہ انسان کچھ کیے بغیر بہت کچھ پانے کا خواہش مند رہتا ہے۔ دینے کی ذہنیت بھی رفتہ رفتہ مضبوط ہوتی جاتی ہے۔ کوئی کیوں دیتا ہے؟ اِس سوال کے جواب میں بہت کچھ سوچا اور کہا جاسکتا ہے۔ ایک طرف تو معاملہ یہ ہے کہ دینے کا حکم دین کی طرف سے ملا ہے۔ ہمارے خالق و مالک کی رضا اِس میں ہے کہ ہم ضرورت مندوں کی مدد کرتے رہیں۔ یہی سبب ہے کہ دینے والا اپنے اِس عمل کو اللہ تعالیٰ کی رضا سمجھتا ہے اور یوں دل کے لیے طمانیت کا سامان ہوتا ہے۔ جب ہم کسی کی مدد کرتے ہیں تو شدت سے یہ احساس دامن گیر رہتا ہے کہ ہم خدا کی رضا کے طالب ہیں۔ استعانت کو خدا کی رضا سے تعبیر کرنے ہی کی صورت میں ہم اپنے دل کے لیے فرحت یقینی بنا پاتے ہیں۔ اور مدد کرنے کا مزہ تبھی ہے کہ جب ہم اِس کے عوض کچھ نہ چاہیں، سوائے خدا کی رضا کے۔
اب معاملہ یہ ہے کہ جب کسی کو دوسروں سے مدد لینے کی عادت پڑ جاتی ہے تو بلا ضرورت ہاتھ پھیلانے میں بھی کچھ زیادہ قباحت محسوس نہیں کی جاتی۔ سوال مزاج اور عادت کا ہے۔ جب عادت پڑ جائے تو کسی بھی درجے میں کچھ خاص شرم محسوس نہیں ہوتی۔ عادت کا ایسا ہی معاملہ ہوا کرتا ہے۔ دوسری طرف دینے کی عادت بھی انسان کو عجیب نوعیت کے معاملات سے دوچار کرتی ہے۔ مشاہدے کی منزل سے ذرا ہوش مندی کے ساتھ گزریے تو بہت سوں کو ایسی حالت میں پائیے گا کہ کسی کی مدد کرنے کے معاملے میں شعور کی منزل سے گزرنے پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ صرف دینے پر یقین رکھتے ہیں اور اُن کے ذہن میں یہ بات گھر کرچکی ہوتی ہے کہ کسی کو کچھ دے کر وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہو رہتے ہیں۔ کسی کی مدد کرکے خوش ہونا فطری بھی ہے اور مستحسن بھی مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان سوچے سمجھے بغیر مدد کرتا رہے۔ یہ تو وسائل کا ضیاع ہوا۔
جب ہم سوچے سمجھے بغیر مدد کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں تو مدد لینے والے بھی کسی ٹھوس جواز کے بغیر ہم سے مدد کے طالب رہنے لگتے ہیں۔ یہ کیفیت مستحقین کے خلاف جاتی ہے۔ جو حقیقی مستحق ہوتے ہیں اور ہاتھ پھیلانے سے گریز کرتے ہیں وہ حقیقی ضرورت کے باوجود مدد سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جنہیں ہاتھ پھیلانے کی عادت پڑچکی ہو وہ مدد کرنے والوں کو خوب پہچانتے ہیں اور اُن کی نفسی کمزوریوں سے بھی واقف ہوتے ہیں۔ کوئی اگر کسی کی پریشانی کے بارے میں تھوڑا سا بھی سن کر جذباتی ہو جائے اور مدد کرنے پر آمادہ ہو جائے تو اُس کی اِس نفسی کمزوری سے کھیلنے والوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ آج ہمارے ہاں مدد کرنے والوں کی کمی ہے نہ مدد مانگنے والوں کی۔ ہاں‘ سوچے سمجھے بغیر کسی کی بھی مدد کرنے کی عادت نے حقیقی مستحقین کے لیے شدید مشکلات کھڑی کردی ہیں۔ جھوٹ بہت زیادہ بولا جائے تو سچ کو شناخت کرنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔ بالکل ایسا ہی معاملہ غیر حقیقی مستحقین میں حقیقی مستحقین کو شناخت کرنے کا بھی ہے۔ دینے والے اپنی عادت تو نہیں بدلتے مگر سوچنے سمجھنے کے مرحلے سے گزرنے پر فوری ردِعمل اور عمل کو ترجیح دیتے ہیں۔ جب مدد مانگنے والے زیادہ ہوں تو مدد کرنے والے لیے اِتنی گنجائش نہیں رہتی کہ چھان بین کرتا پھرے۔
مدد مانگنے والوں کی تعداد میں تیز رفتار اِضافے کا ایک بڑا سبب کرپشن ہے۔ جب لوگوں کے پاس کرپشن کا پیسہ زیادہ ہوتا ہے تو دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی غرض سے ہر ہاتھ پھیلانے والے کو کچھ نہ کچھ دیتے رہتے ہیں۔ حلال کمائی سے دینے والے بھی کم نہیں مگر اُن سے زیادہ تعداد اُن کی ہے جن کے پاس ایزی منی ہے یعنی آسانی سے آئی ہوئی دولت کی بھرمار ہے۔ ایسے لوگ کسی ضرورت مند کی طرف سے اشارہ ملنے پر جیب ڈھیلی کرنے لگتے ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بلا ضرورت مانگنے والے اپنی عادت میں پختہ ہوتے جاتے ہیں اور اُن کی تعداد بھی بڑھتی جاتی ہے۔ ایسے میں وہ لوگ بھی ہاتھ پھیلانے لگتے ہیں جو اپنے زورِ بازو سے اچھی طرح گزر بسر کرسکتے ہیں۔
آج اہلِ دانش کو اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے قوم کو یہ بات سکھانی ہے کہ بلا ضرورت ہاتھ پھیلانا خدا کو ناراض کرنا ہے اور سوچے سمجھے بغیر کسی کی بھی مدد کرنا کسی بھی درجے میں معاشرے کی خدمت نہیں۔ بے ذہنی کے ساتھ دی جانے والی خیرات معاشرے میں صرف خرابیاں لاتی ہے۔ جب مانگنے والے بڑھ جاتے ہیں تو حقیقی مستحقین اپنے گھروں تک محدود رہتے ہیں کیونکہ ہاتھ پھیلانے کی عادت نہیں ہوتی، سفید پوشی کا بھرم رکھنے کا احساس توانا رہتا ہے۔ ایسے لوگوں کو شناخت کرکے اُن تک پہنچنا ہوتا ہے۔ حقیقی مستحقین کو شناخت کرکے ہاتھ پھیلانے سے پہلے اُن کی مدد کرنے کی فضیلت کچھ اور ہی ہے۔ کسی کی حقیقی مدد اِس سے بڑھ کر کیا ہوسکتی ہے کہ اُسے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں