ویسے تو خیر صحت کی خرابی سے پوری زندگی ہی داؤ پر لگ جاتی ہے تاہم معاشی سرگرمیوں کے لیے انسان کا صحت مند ہونا خصوصی طور پر ناگزیر ہے۔ خرابیٔ صحت کے ساتھ کوئی بھی اپنے لیے کسی بھی شعبے میں کریئر کی راہ ہموار کر سکتا ہے نہ معاشرتی سطح پر معاملات اچھی طرح نمٹانے کے قابل ہو سکتا ہے۔ صحت اور معیشت دونوں کے ماہرین اس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ اگر کسی کو معاشی میدان میں کچھ کر دکھانا ہے تو صحت کا معیار بلند رکھنا چاہیے۔ جسمانی طور پر صحت مند انسان ہی ہر طرح کی مسابقت کا سامنا کر سکتا ہے کیونکہ جسمانی صحت کا بلند معیار ذہنی صحت کا معیار بھی بلند رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ معاشی سرگرمیوں میں مسابقت کبھی ختم نہیں ہو سکتی اور کمزور جسم اور کمزور تر اعصاب کا مالک کچھ بھی نہیں کر سکتا۔
دنیا بھر میں صحت اور معاشی سرگرمیوں کے باہمی ربط کے حوالے سے مختلف تصورات پائے جاتے ہیں۔ بہت سے معاملات میں اختلافِ رائے کے باوجود یہ حقیقت تو سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ اگر کسی کو کریئر میں آگے جانا ہے‘ پروفیشنل سطح پر کچھ کر دکھانا ہے‘ زیادہ کمانا ہے تو لازم ہے کہ صحت کے حوالے سے کسی بھی غیرضروری پیچیدگی کو دعوت نہ دے۔ یہی سبب ہے کہ باشعور معاشروں میں صحت کے معاملے کو انفرادی سطح پر بھی غیرمعمولی اہمیت دی جاتی ہے۔ لوگ صحت کو داؤ پر لگانے سے گریز کرتے ہیں۔ اس معاملے میں وہ ویسے ہی حساس ہوتے ہیں جیسے وقت کا ضیاع روکنے کے حوالے سے ہوتے ہیں۔
پاکستان جیسے ممالک میں خرابیٔ صحت معاشی سرگرمیوں کو شدید متاثر کر رہی ہے۔ صحتِ عامہ کے شعبے میں حکومت کی طرف سے مناسب فنڈنگ نہ کیے جانے کے باعث صحت کا عمومی معیار گرا ہوا ہے۔ لوگ مختلف دائمی امراض میں مبتلا ہیں۔ وبائیں پھوٹتی ہیں تو اُن پر قابو پانا ممکن نہیں رہتا۔ اس کے نتیجے میں خواتین اور بچوں کو زیادہ خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ دیہات میں غریب خواتین خرابیٔ صحت کے باعث بیمار اور کمزور بچوں کو جنم دیتی ہیں۔ غذا کے ساتھ ساتھ غذائیت کی کمی بھی بچوں کی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے اور یہی بچے بڑے ہوکر ورک فورس کا حصہ بنتے ہیں تو بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتے۔ کمزور جسم انہیں زیادہ جاں فشانی والے کاموں سے روکتے ہیں۔ کمزور جسم اعتماد کا گراف بھی بلند نہیں ہونے دیتے۔
فی زمانہ موٹاپا صحتِ عامہ کے سب سے بڑے مسئلے کی حیثیت رکھتا ہے۔ موٹاپا بہت سی بیماریوں کو دعوت دیتا ہے۔ دل کے امراض بھی ان لوگوں میں زیادہ پائے جاتے ہیں جو فربہ یعنی موٹے بھی ہوں اور وزن بھی زیادہ ہو۔ ورک فورس میں شامل افراد موٹاپے اور وزن کی زیادتی کا شکار ہوں تو اپنے لیے زیادہ کام کے ہوتے ہیں نہ دوسروں کے لیے۔ یہی سبب ہے کہ دنیا بھر میں آجر چاہتے ہیں کہ اجیر یعنی اُن کے لیے کام کرنے والے جسمانی اعتبار سے متوازن ہوں۔ متوازن جسم کے حامل افراد کام کے ماحول میں آسانی سے ایڈجسٹ بھی کرتے ہیں اور تھکتے بھی نہیں۔ ذہانت کا جسمانی حالت سے کوئی خاص تعلق نہیں لیکن پھر بھی آجر اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ اجیر اچھی جسمانی حالت میں ہوں۔ ایسا ہوگا تو وہ بیمار بھی کم پڑیں گے‘ کام بھی ڈھنگ سے کر پائیں گے اور غیرحاضری بھی کم ہوگی۔
تازہ ترین تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ موٹاپا انسان کو زیادہ کمانے کے قابل نہیں چھوڑتا۔ موٹاپا اور زیادہ وزن کسی بھی انسان کو مزاجاً سست بنانے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ موٹاپے میں جسم زیادہ مستعد نہیں رہتا اور انسان چاہتا ہے کہ جیسے بھی ہو‘ کچھ نہ کچھ آرام ملتا ہی رہے۔ یہ سستی فطری ہے۔ آجر اس بات کو پسند نہیں کرتے۔ اُنہیں اپنی ڈیڈ لائن کے مطابق کام کروانا ہوتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اجیر زیادہ سے زیادہ کام کرے تاکہ ادارہ منافع کمانے کی صلاحیت کا زیادہ حامل ہو۔ جن اداروں میں پیس ورک کی بنیاد پر کام ہوتا ہے یعنی انسان کو اجرت اس کے کام کے مطابق ملتی ہے وہاں آجر یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ کون کتنا مستعد ہے۔ اگر کوئی موٹاپے کے باوجود مستعد ہو تو قابلِ قبول ہے اور اگر کوئی متوازن جسم کے باوجود زیادہ کام نہ کر پائے تو کسی کام کا نہیں ہوتا۔ حتمی تجزیے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو لوگ موٹاپے اور زیادہ وزن کا شکار ہوں وہ زیادہ کام نہیں کر پاتے اور دل جمعی سے کام کرنا بھی اُن کے بس میں نہیں ہوتا۔ بگڑا ہوا جسم ذہن کو بھی شدید متاثر کرتا ہے۔ انسان اندر ہی اندر الجھتا رہتا ہے۔ تھکن جلد طاری ہو جاتی ہے‘ نیند زیادہ آتی ہے۔ بیداری کی حالت میں بھی ذہن پوری طرح بیدار نہیں ہوتا اور کام کی طرف آسانی سے مائل نہیں ہوتا۔ کام کے ماحول میں یہ کیفیت آجروں کو اس لیے بھی کَھلتی ہے کہ کسی کو ڈھنگ سے کام نہ کرتے دیکھ کر دوسرے بھی ڈھیلے پڑتے جاتے ہیں۔ اگر کوئی برابر کی تنخواہ لے رہا ہو اور مطلوبہ معیار کے مطابق کام نہ کر رہا ہو تو دوسرے سوچتے ہیں کہ وہ کیا بے وقوف ہیں جو پوری دیانت اور جاں فشانی سے کام کر رہے ہیں۔ یوں کام کرنے کی لگن ماند پڑنے لگتی ہے۔ اس کے نتیجے میں کام کا ماحول بگڑتا ہے۔ یہ سب کچھ آجروں کے لیے سوہانِ روح ہوتا ہے۔
تازہ ترین تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ موٹاپا زیادہ کمانے کے قابل نہیں رہنے دیتا مگر خواتین اس معاملے میں زیادہ خسارے کا شکار ہوتی ہیں۔ موٹاپے کی صورت میں اُن کا جسم زیادہ پیچیدگیوں سے دوچار رہتا ہے۔ وزن کے بڑھنے سے اُن کے جسم زیادہ بے ڈول ہو جاتے ہیں اور یہ چیز ورک پلیس میں اُن کی کارکردگی پر بہت بری طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں غریب طبقے کے لوگ کمزور جسم کے مالک ہوتے ہیں جبکہ امیر طبقے کے لوگوں میں موٹاپا زیادہ ہوتا ہے۔ دوسری طرف ترقی یافتہ ممالک میں امیر طبقے کے لوگ متوازن جسم کے حامل ہوتے ہیں جبکہ کم آمدنی والے طبقے کے لوگ فربہ ہوتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ترقی یافتہ معاشروں میں طرزِ زندگی کچھ اس نوعیت کی ہے کہ عوام میں فاسٹ اور جنک فوڈ کھانے کا رجحان قوی ہے۔ کھانے پینے کی عادات کے حوالے سے لوگ قدرے غیرمنظم زندگی بسر کرنے کے باعث ایسا بہت کچھ کھا رہے ہیں جو جسم کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچارہا ہے۔ پاکستان کا شمار بھی اُن معاشروں میں ہوتا ہے جہاں کے لوگ کھانے پینے کے معاملے میں شدید لاپروا واقع ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں زور چٹخارے پر ہے‘ کھانوں کے مقوّی ہونے پر نہیں۔ لوگ ایسا بہت کچھ کھاتے ہیں جو صرف نقصان کا موجب بنتا ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ زندہ رہنے کے لیے نہیں کھاتے بلکہ کھانے کے لیے زندہ ہیں! نتیجتاً بیماریاں بھی تیزی سے پنپتی ہیں۔ موٹاپا عام ہے کیونکہ کھانے کے معاملے میں بے اعتدالی کے نتائج سب سے پہلے جسم کے بے ڈول ہونے کی صورت میں برآمد ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بیماریوں کو راہ ملتی ہے۔ آج پاکستانی معاشرے میں فربہ اندام افراد کی تعداد میں خطرناک رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں استعدادِ کار بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ آجر اس صورتحال سے بہت پریشان ہیں۔ چھانٹیاں بھی ہوتی رہتی ہیں اور نئے لوگوں کو آزمایا بھی جاتا رہتا ہے مگر اس سے کچھ حاصل نہیں ہو پا رہا۔ اس حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ جو بھی ورک فورس کا حصہ ہے اسے اپنی صحت کا خاص خیال رکھنا چاہیے اور وزن کے معاملے کو تو کسی حال میں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ وزن کی زیادتی کے نتیجے میں بے ڈول ہوتا ہوا جسم انسان کو استعدادِ کار کے معاملے میں شدید خسارے سے دوچار کرتا ہے۔ کام کرنے کی لگن بھی ماند پڑتی جاتی ہے کیونکہ اعتماد میں کمی واقع ہو رہی ہوتی ہے۔ نقل و حرکت میں مشکلات درپیش ہوں تو انسان معاشی معاملات میں وہ سب کچھ نہیں کر پاتا جو اُس کے ذہن میں ہوتا ہے۔ اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب ذہن اس حوالے سے سوچنا ہی چھوڑ دیتا ہے۔ ایسے میں گزارے کی سطح پر جینے کے سوا چارہ نہیں رہتا۔ ہمارا معاشرہ ایسی کیفیت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اگر ڈھنگ سے جینا ہے تو صحتِ کامل کے ساتھ زیادہ کام کرنے کے قابل رہنا ہی پڑے گا۔