"MIK" (space) message & send to 7575

بڑی طاقتوں کا نیا اکھاڑا؟

بھارت کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش کی بھی منفرد لاٹری نکلی ہے۔ دونوں کو بڑی طاقتوں نے منتخب کر لیا ہے۔ بھارت ایک بڑی مارکیٹ اور افرادی قوت کے بڑے برآمد کنندہ کے طور پر غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا مگر بنگلہ دیش کا ایسا کوئی معاملہ نہ تھا۔ بیرونِ ملک کام کرنے والے بنگلہ دیشیوں کی تعداد کم نہیں مگر خلیج کے خطے اور امریکہ و یورپ میں اوور سیز بنگلہ دیشیوں کی پوزیشن اتنی مستحکم نہیں کہ ملک کے لیے کوئی قابلِ ذکر یا فیصلہ کن کردار ادا کر سکیں۔ پھر بھی مغربی طاقتوں نے بنگلہ دیش کو اپنا بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اُن کے اپنے مخصوص سٹریٹیجک اور سفارتی مفادات ہیں جن کی تکمیل کے لیے وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں اور کر رہے ہیں۔ ڈیڑھ عشرے قبل جب چین نے بڑے پیمانے پر تجارتی راہداریاں قائم کرنے اور موجودہ تجارتی راستوں کو مضبوط بنانے کا عمل شروع کیا تب خطے میں کئی ممالک پر اُس کی نظر پڑی۔ ایسے میں بھارت اور بنگلہ دیش کے لیے بھی امکانات کی نئی فصل اُگی۔ بنگلہ دیش کا معاملہ یہ تھا کہ اُس کی معیشت بھی ڈانواں ڈول تھی اور معاشرت بھی۔ سیاسی عدم استحکام نے پورے ملک کو اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا۔ ایسے میں چین کی طرف سے بہت بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا عندیہ بنگلہ دیش کے لیے اندھیرے میں روشنی والا معاملہ تھا۔ چین چاہتا تھا کہ جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا میں اپنی پوزیشن عشروں تک مضبوط رکھنے کے لیے دو تین ممالک کو یوں اپنا بنائے کہ مغرب اُن کی طرف دیکھنے سے گریز کرے۔ بنگلہ دیش کا محلِ وقوع اُسے غیر معمولی اہمیت کا حامل بنائے ہوئے تھا۔ بنگلہ دیشی قیادت کو بڑے سہارے کی ضرورت تھی تاکہ معیشت کو سنبھالا دیا جاسکے اور سیاست کو بھی۔ بیرونِ ملک کام کرنے والے بنگلہ دیشی جو کچھ بھیجتے تھے وہ معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے ناکافی تھا۔ بنگلہ دیشی معیشت ایک زمانے تک ترسیلاتِ زر کی بنیاد پر کام کرتی رہی مگر یہ ایک ستون کب تک سب کچھ سہار سکتا تھا؟ سیاسی عدم استحکام نے معیشت کا بھٹہ بٹھادیا تھا۔ ہڑتالوں اور مظاہروں نے کاروبار کا ماحول ختم کردیا تھا۔ ایسے میں چین کا بنگلہ دیش میں دلچسپی لینا شدید حبس کے عالم میں تازہ ہوا کے ٹھنڈے جھونکے جیسا تھا۔ چینی قیادت بھارت کی طرف تو دوستی کا ہاتھ بڑھا نہیں سکتی تھی مگر ہاں‘ بنگلہ دیش اور میانمار وغیرہ کو ساتھ ملاکر جنوبی ایشیا میں اپنا کھونٹا ضرور مضبوط کرسکتی تھی۔
چین نے جیسے ہی بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا عندیہ دیا، مغربی طاقتوں کا ''ضمیر‘‘ اچانک جاگ اٹھا اور انہوں نے جنوبی ایشیا کی اس ریاست کا مقدر بدلنے کا سوچا۔ ایک طرف مغربی طاقتیں بنگلہ دیش پر مہربان ہوئیں اور دوسری طرف بھارت نے بھی‘ ممکنہ طور پر مغرب کے اشارے پر یا اُس کی خوشنودی کی خاطر‘ بنگلہ دیش کو اہمیت دینا شروع کردی۔ پہلا اور بنیادی مسئلہ سیاسی استحکام یقینی بنانے کا تھا۔ اِس کے لیے لازم تھا کہ ہم خیال حکومت قائم ہو۔ بھارت اور مغرب‘ دونوں کے لیے شیخ حسینہ واجد سے زیادہ قابلِ قبول کون ہوسکتا تھا؟ بی این پی کی بیگم خالدہ ضیا پسندیدگی کے معیار سے گرگئیں کیونکہ وہ کسی نہ کسی طور تھیں تو دائیں بازو کی۔ خالص بنگالی نسل پرست ذہنیت اور بائیں بازو کے نظریات کی بنیاد پر کام کرنے والی شیخ حسینہ واجد کو وزیراعظم بناکر بھارت اور مغرب نے اپنے مفادات کے لیے بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ کرنے کی دیر تھی، بنگلہ دیش میں سب کچھ بہت تیزی سے تبدیل ہونے لگا۔ راتوں رات سیاسی استحکام کی منزل بھی آگئی اور شیخ حسینہ واجد کی حکومت بھی قائم ہو گئی۔ شیخ حسینہ نے جس طور بھارت سے تعلقات بہتر بنائے اور بنگلہ دیش کو پاکستان سمیت متعدد مسلم ممالک سے دور کیا اُس سے صاف اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُنہیں کس ایجنڈے کے تحت لایا گیا۔ شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے 1971ء میں مشرقی پاکستان میں پاکستان کی بقا کی جنگ لڑنے والی جماعتِ اسلامی کے قائدین کو جس طور نام نہاد جنگی جرائم کی پاداش میں چُن چُن کر پھانسی دی اُس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مغرب کی جس قدر ہم نوائی کی جائے گی اُتنا ہی نوازا جائے گا۔
بنگلہ دیش کو ایک عشرے کے دوران غیر معمولی توجہ کے ساتھ مضبوط بنایا گیا۔ آج اُس کی معیشت قابلِ رشک حد تک مستحکم دکھائی دے رہی ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ بنگلہ دیشی قوم نے بہت محنت کی مگر اُس سے کہیں بڑھ کر اسے نوازا گیا ہے۔ بھارت نے بھی مغربی اشارے پر بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات میں مداخلت کم کی تا کہ وہ کسی حد تک اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے۔ بنگلہ دیش کو جنوبی ایشیا میں مضبوط مقام تک پہنچانے کی مغربی کوششیں اب تک بارآور ثابت ہوئی ہیں مگر اُس کی قیادت کے لیے اب آزمائش کی گھڑی آئی ہے۔ روس بہت تیزی سے بنگلہ دیش کی طرف متوجہ ہوا ہے۔ دوسری طرف بیجنگ نے بھی ڈھاکہ سے تعلقات بہتر بنانے کا عندیہ دیا ہے اور اگر چین روس کے ساتھ مل کر ایک بار پھر بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری کی کوشش کرے تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ ادھر سری لنکا کے معاملے میں بھی چین کے لیے الجھنیں پیدا کردی گئی ہیں۔ چین نے وہاں بنیادی ڈھانچے میں غیر معمولی سرمایہ کاری مگر بھارت نے سیاسی اور معاشرتی بے چینی پیدا کرکے معاملات کو بگاڑ دیا۔ سرحدی مناقشوں میں چین کے ہاتھوں ہزیمت اٹھائے جانے کا بدلہ بھارت نے سری لنکا کے ذریعے لیا ہے۔ دو طاقتور ملکوں کی لڑائی میں سری لنکا اکھاڑا بن گیا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ اکھاڑا بننے کی باری بنگلہ دیش کی ہے۔
حال ہی میں بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے گروپ G20 کے سربراہ اجلاس سے محض ایک دن قبل روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا اور دو طرفہ تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے حوصلہ افزا مذاکرات کیے۔ سرگئی لاروف نے بنگلہ دیشی قیادت کو گندم، کھاد، خام تیل اور دیگر اشیا کی فراہمی کی پیشکش بھی کی۔ بنگلہ دیشی کابینہ نے ایک ہفتے بعد روس سے تین لاکھ میٹرک ٹن گندم منگوانے کی منظوری بھی دیدی۔ اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ بڑی طاقتوں کی دل نوازی سے کس حد تک فائدہ اٹھانے کیلئے تیار ہے۔ روس نے تعلیم اور ثقافت کے شعبوں میں بھی تعاون بڑھانے پر زور دیا ہے۔ دوسری طرف چین بھی بنگلہ دیش کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہا ہے۔ بنگلہ دیشی طلبہ کے ایک وفد نے حال ہی میں چین کا ایک ہفتے کا مطالعاتی دورہ کیا ہے۔ اس دورے کو بنگلہ دیش میں چینی سفارت خانے نے انتہائی کامیاب قرار دیا ہے۔ سفارتی اور سٹریٹیجک معاملات میں میٹھا میٹھا ہپ‘ کڑوا کڑوا تھو نہیں چل سکتا۔ بنگلہ دیشی قیادت کو اندازہ ہوگا کہ جب بہت کچھ مل رہا ہوتا ہے تو کچھ دینا بھی پڑتا ہے۔ روس اس بات پر ناراض ہے کہ بنگلہ دیشی کے انگریزی زبان کے اخبارات میں ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں یوکرین پر لشکر کشی کے حوالے سے روس کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ 9 ستمبر یعنی نئی دہلی میں G20 سربراہی اجلاس کے دن شائع ہونے والے اِس مضمون کے متن کی منظوری بنگلہ دیش میں 14 غیر ملکی (مغربی) سفارتی مشنز کے سربراہوں نے دی۔ گویا یہ مضمون 14 بڑے ممالک کے موقف کا عکاس تھا۔ روسی سفارت خانے نے ایک بیان میں یہ معاملہ اٹھاتے ہوئے بنگلہ دیشی قیادت سے کہا ہے کہ وہ فریق بننے سے گریز کرے۔
چین اور روس کا بڑھتا ہوا جھکاؤ بنگلہ دیش کیلئے انتخاب کا مسئلہ کھڑا کرسکتا ہے کیونکہ وہ مغرب کی طرف بہت جھکا ہوا ہے اور بھارت کے بھی زیرِ اثر ہے۔ بنگلہ دیشی قیادت پر لازم ہوچکا ہے کہ اب ایک ایک قدم پھونک پھونک کر اٹھائے۔ مغربی طاقتیں کسی طور نہیں چاہیں گی کہ چین اور روس کی دلچسپی بنگلہ دیش میں بڑھے۔ اِس سے بھی بڑھ کر وہ نہیں چاہیں گی کہ بنگلہ دیشی قیادت اُنہیں آسانی اور تیزی سے قبول کرے۔ روس اور چین کا اِس خطے میں متحرک ہونا بھارت کیلئے بھی دردِ سر سے کم نہیں۔ سٹریٹیجک اور بین الریاستی معاملات میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ پاکستان بھی اِن مراحل سے گزرتا رہا ہے۔ اب بنگلہ دیش کی باری ہے۔ ساتھ ہی خطے کے دیگر ممالک کو بھی چوکنا رہنا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں