"MIK" (space) message & send to 7575

دماغ کی بات ماننا پڑے گی

دل اور دماغ کے درمیان جنگ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔ دماغ کی دنیا بالکل الگ ہے جس میں تعقل کو نمایاں ترین مقام حاصل ہے۔ دل کی دنیا میں جذبات کی حکمرانی ہے۔ دماغ ہر معاملے میں منطق کی حدود میں رہتے ہوئے سوچتا ہے۔ دل منطق کو نہیں مانتا۔ اُس کے نزدیک جذبات ہی سب کچھ ہیں۔ دماغ کہتا ہے سب کچھ داؤ پر لگانے سے گریز کیا جانا چاہیے۔ دل کہتا ہے جو کچھ بھی ہے داؤ پر لگادو، ڈرنا کیسا؟ ہار بھی گئے تو نام تو ہوگا، دنیا ہمت کی داد تو دے گی! دماغ کہتا ہے کہ محض داد پانے کی خاطر سب کچھ داؤ پر لگانا کسی بھی اعتبار سے معقول نہیں۔ دل کہتا ہے ڈرتے ڈرتے جیے تو کیا جیے کہ جینے کا مزا کھل کر، ہمت کے ساتھ جینے میں ہے۔ دماغ اور دل کی جنگ کے محاذ بدلتے رہتے ہیں۔ کچھ محاذ بند ہو جاتے ہیں تو کچھ نئے کھل جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ بھی جاری ہے اور جاری رہے گا۔ فی زمانہ دل اور دماغ کے درمیان جنگ کی معرکہ آرائیاں بہت مختلف ہیں اور اُن میں تنوع بڑھتا ہی جارہا ہے۔ دماغ اب بھی بہت کچھ سجھا رہا ہے مگر دل اپنی بات منوانے پر تُلا ہوا ہے۔ یہ کشمکش اچھے خاصے انسان کو تماشے میں تبدیل کردیتی ہے۔ اور یہ تماشا بھی خوب ہے کہ خود تماشے کو بھی لطف محسوس ہوئے بغیر نہیں رہتا۔
کوئی دور ایسا نہیں گزرا جس میں انسان نے دل کی بات مان کر معاملات میں بگاڑ پیدا نہ کیا ہو۔دل کا معاملہ ہوتا ہی ایسا ہے کہ انسان ذرا سا ڈھیلا پڑا، عزم کمزور ہوا تو سب کچھ تباہ۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں کیونکہ ہزاروں سال سے یہی ہوتا آیا ہے۔ انسان جب بھی تعقل سے دامن چھڑاکر جذبات کی رَو میں بہتا ہے تب سبھی کچھ غرقاب ہو جاتا ہے۔ ہزاروں سال پہلے جب انسان میں زیادہ سمجھ نہ تھی، حواس پر جذبات غالب تھے تب انسان بہت سے فیصلے محض وقتی طور پر کرتا تھا اور وہ بھی جذبات سے مغلوب ہوکر۔ ایسے فیصلے دیرپا ہوتے تھے نہ بارآور۔ جذباتیت کا شکار ہوکر کیے جانے والے فیصلے انسان کو الجھنوں سے دوچار کرتے ہیں۔ اگر خالص معروضی انداز سے دیکھا اور سوچا جائے تو فی زمانہ جذبات یا جذباتیت کی گنجائش برائے نام رہ گئی ہے۔ اب وہی کامیاب رہتا ہے جو صرف تعقل کو اپناتا ہے۔ زمانہ اِتنا بدل چکا ہے کہ اِس کی بدلی ہوئی نوعیت کو سمجھنا ہر انسان کے لیے ناگزیر ہوچکا ہے۔ جو لوگ زمانے کو سمجھنے کے حوالے سے اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کرتے وہ قدم قدم پر مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اب تعقل کا دامن نہ تھامنے کا آپشن رہا ہی نہیں۔ انتہائی نوعیت کی جذباتیت کا شکار ہوکر اپنے معاملات خراب کرنے والوں کو بھی معلوم ہے کہ زندگی کتنی دشوار ہے اور اُسے آسان بنانے کے لیے تعقل سے وابستہ ہونے کی کتنی اہمیت ہے۔ پھر بھی لوگ تعقل کی طرف کم ہی آتے ہیں۔ دل اب بھی من مانی کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ وہ انسان کو دماغ کے حوالے کرنے یا ایسا ہونے دینے کے لیے تیار نہیں۔ دل کا کام ہے نہ ماننا۔ معاملہ یہ ہے کہ جو کچھ معقول دکھائی دے رہا ہو دِل اُسی کے خلاف جاتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں اکثریت کا یہ حال ہے کہ سوچے اور سمجھے بغیر جینے کی عادی ہے۔ دل کا کہا مان کر تعقل کا دامن چھوڑنے والوں کی تعداد اِتنی زیادہ ہے کہ اصلاحِ احوال کی کوشش کرنے والوں کو قدم قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تعقل کا دامن تھام کر جینے والے ہر دور میں کامیاب رہے ہیں اور دل کی بات مان کر محض جذبات کی رَو میں بہتے رہنے والے خسارے میں رہے ہیں۔ پھر کیا سبب ہے کہ لوگ تعقل کا دامن تھامنے سے مجتنب رہتے ہیں؟ جب تعقل سے وابستہ ہوکر جینے میں توازن اور اعتدال ہے اور انسان بہت حد تک بھلائی کے ساتھ زندہ رہتا ہے تو پھر تعقل کو اپنانے سے کون چیز روک رہی ہے؟ دل‘ اور کون؟ دل ہے کہ مانتا نہیں۔ دل نے تو طے کیا ہوا ہے کہ کسی بھی حال میں ماننا ہی نہیں۔ وہ قدم قدم پر انسان کو راہِ راست سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ دل کے بہکانے پر لڑھک جاتے ہیں، اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مار بیٹھتے ہیں۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ نقصان اٹھانے پر بھی ہوش کے ناخن لینے سے گریزاں رہتے ہیں، اپنے آپ کو سنبھانے کی کوشش نہیں کرتے اور یہ طے نہیں کرتے کہ آئندہ دل کا کہا مان کر ایسا کچھ بھی نہیں کریں گے جو سبھی کچھ داؤ پر لگادے۔ کاروباری دنیا دماغ کے مقابلے میں دل کی مضبوط پوزیشن کا بھرپور فائدہ اٹھاتی ہے۔ اشتہاری ادارے نفس کی الجھنوں سے کھیلتے ہیں اور اپنے لیے بھرپور فوائد کشید کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ انسان نفسی اعتبار سے بہت الجھا ہوا ہے۔ کاروباری دنیا اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کیلئے نفسی الجھنوں کا فائدہ اٹھاتی ہے۔ وہ انسانی مزاج کو مزید ڈُھل مُل بنانے پر تُلی رہتی ہے۔ عام آدمی اِس بات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا کہ اُسے مختلف طریقوں سے بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ فی زمانہ انسانی مزاج کو مزید ڈانواں ڈول کرنے کے طریقے بھی بہت سے ہیں۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ہوش رُبا پیش رفت نے ایک طرف کاروباری اور سرکاری اداروں کے لیے بہت کچھ آسان کردیا ہے اور دوسری طرف عوام کی الجھنیں بڑھادی ہیں۔ عام آدمی کو نشانہ بنانے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ ایک طرف حکومتی مشینری اُسے نشانے پر لیے ہوئے ہے اور دوسری طرف وہ کاروباری دنیا کے لیے بھی ہدف ہے۔ دماغ پر عام آدمی کا اختیار برائے نام رہ گیا ہے کیونکہ دل من مانی پر تُلا رہتا ہے۔ ایسے میں دماغ بھلا کہاں تک مزاحمت کرسکتا ہے؟ دماغ جو کچھ کہتا ہے وہ تھوڑی بہت قربانی مانگتا ہے۔ دل کے معاملات میں قربانی کا مطالبہ ہوتا ہی نہیں۔ دل جدوجہد نہیں سکھاتا بلکہ ہتھیار ڈالنے کو اہمیت دیتا ہے۔ دل کی بات مانتے رہنے سے انسان عمل سے دور ہوتا جاتا ہے۔ عمل سے بچنا فطری امر ہے۔ جو لوگ انسان کی اِس فطری اور نفسی مجبوری سے اچھی طرح واقف ہیں وہ دل کو من مانی کے زیادہ مواقع فراہم کرتے ہوئے اپنے اپنے اُلّو سیدھے کرتے ہیں۔
ترقی یافتہ اقوام کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ اُنہوں نے دل کا کہا مان کر سب کچھ داؤ پر لگانے کی روش ترک کرتے ہوئے دماغ کو اُستاد اور راہ نما مان کر آگے بڑھنے کی ٹھانی اور کامیاب رہے۔ بیشتر پس ماندہ اقوام کے حالات کا جائزہ لیجیے تو یہ اندازہ لگانا زیادہ دشوار ثابت نہ ہوگا کہ اُنہوں نے تعقل کا دامن تھامنے سے گریز کی راہ پر گامزن ہوکر اپنے آپ کو شدید پس ماندگی کی منزل تک پہنچایا۔ جن اقوام نے دنیا کو سمجھنے کی کوشش کی، مادّی ترقی ممکن بنانے پر توجہ دی، خالص معروضی انداز سے تحقیق کی وہ کامیاب رہیں۔ مغربی اقوام اِس معاملے میں ہمارے لیے مثال بن کر موجود ہیں۔ یہ درست ہے کہ اُنہوں نے اخلاقی اور روحانی سطح پر اچھے خاصے زوال کا سامنا بھی کیا اور یہ بحرانی کیفیت برقرار ہے؛ تاہم ماننا تو پڑے گا کہ اُنہوں نے صدیوں کی محنت کے نتیجے میں دنیا تو پا ہی لی کہ دنیا کی امامت کے حق دارٹھہرے۔ اہلِ مغرب خالص معروضی انداز سے سوچتے ہیں۔ آخرت کا تصور اُن کے ہاں مٹ چکا ہے؛ تاہم پوری دیانت و جاں فشانی سے دنیا کو اُنہوں نے یوں گلے لگایا کہ دنیا کے ہوکر رہ گئے اور مثال بن کر ابھرے۔ چلیے، اہلِ مغرب نے دنیا کو تو پالیا، باقی دنیا کی پس ماندہ اقوام کا معاملہ تو یہ ہے کہ ع
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم ...
ایک طرف دل کی بات مان کر وہ دنیا سے ہاتھ دھو بیٹھے اور دوسری طرف اخلاقی و روحانی اقدار کے حوالے سے بھی تہی دامن ہی رہے۔ دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی ہاتھ سے جاتی رہی۔ ہر دور کی طرح آج کا دور بھی صرف اِس بات کا متقاضی ہے کہ دل اور دماغ دونوں کو ساتھ لے کر، توازن اور اعتدال کے ساتھ زندگی بسر کی جائے۔ یہ معاملہ خصوصی تربیت چاہتا ہے اور ایسی تربیت کا اب تک خاطر خواہ انتظام نہیں کیا جاسکا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں