ہم میں سے کون ہے جو اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا کہ جمود موت ہے اور تحرک زندگی؟ چلنا جیون کی کہانی، رُکنا موت کی نشانی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، زندگی کے میلے کی جتنی بھی رونق ہے صرف اور صرف تحرک کے دم سے ہے۔ جب کچھ ہو رہا ہوتا ہے تو دکھائی بھی دے رہا ہوتا ہے۔ جب کچھ نہیں ہو رہا ہوتا تب یہ بتانے کی ضرورت تک نہیں پڑتی کہ کچھ نہیں ہو رہا۔ تحرک کی طرح جمود بھی آپ اپنا شارح ہوتا ہے۔
ہم زندگی بسر کرنے کی تگ و دَو کے دوران یہ بھول گئے ہیں کہ زندگی کو حقیقی مفہوم میں تحرک سے ہم کنار کیے بغیر ہم ڈھنگ سے جی نہیں سکتے۔ ہم میں سے بیشتر کا یہ حال ہے کہ جی تو رہے ہیں مگر اِس طور کہ جینے کی کچھ شان باقی ہے نہ لُطف ہی محسوس ہو رہا ہے۔ زندگی کو محض سانسوں کا تسلسل سمجھ کر بسر کیا جارہا ہے۔ جب زندگی کو بھی محض معمول کا درجہ دے دیا جائے تو ذوق و شوقِ عمل کی کیا اُمید وابستہ کی جاسکتی ہے؟
زندگی کیا ہے؟ اِس سوال کے بارے میں سوچنے والے خال خال ہیں۔ بیشتر نے اِسے محض معمول سمجھ لیا ہے اور بہت سوں کے نزدیک یہ محض بوجھ ہے جو سر پر لاد دیا گیا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ اگر زندگی کو بوجھ سمجھ کر بسر کیا جائے تو؟ تب تو جینے کا لُطف برائے نام بھی باقی نہ بچے۔ اور ایسا ہی تو ہو رہا ہے۔ زندگی نعمت ہے اور نعمت بھی ایسی کہ جس کی کوئی مثال ڈھونڈے سے نہ ملے۔ زندگی نیلامی کا مال نہیں کہ ''جیسا ہے، جہاں ہے‘‘ کی بنیاد پر حاصل کرکے جیسے تیسے خرچ کردیا جائے بلکہ ٹھکانے لگادیا جائے۔ یہ تو قدرت کی طرف سے عطا کی جانے والی سب سے بڑی نعمت ہے۔ ہمیں بخشی جانی والی سانسیں محض سانسیں نہیں بلکہ ذمہ داری ہیں۔ خدا نے ہمیں زندگی جیسی نعمت عطا کرکے یہ بتادیا ہے کہ ہم اُس کی صنّاعی سے معرضِ وجود میں آنے والی کائنات کا حصہ ہیں۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ ہم قدرت کے منصوبے کا جُز ہیں۔ خالص سائنسی نقطۂ نظر سے بات کیجیے تو معاملہ یہ ہے کہ ہم ''ذہین منصوبہ ساز‘‘ کے منتخب کیے ہوئے ہیں۔ کائنات میں جو کچھ بھی ہے وہ خدا کا سوچا ہوا ہے اور ہم خوش نصیب ہیں کہ اُس کی سوچ میں ہم بھی شامل ہیں۔ اگر یوں سوچا جائے تو زندگی بوجھ نہیں رہتی بلکہ ایک ایسی نعمت کی شکل میں ہمارے سامنے آتی ہے جس کے حوالے سے ہم پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ کسی بھی نعمت کو پانے کی صورت میں ہمیں اُس کا شکر بھی ادا کرنا ہوتا ہے۔ شکر ادا کرنے کی بہت سی صورتیں ہیں۔ جو کچھ خدا نے بخشا ہے اُسے دوسروں تک پہنچانے کی سعی بھی شکر ادا کرنے ہی کی ایک شکل ہے۔ محض زبان سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے سے تشکّر کا حق ادا نہیں ہو جاتا۔ اپنے آپ کو خدا کا شکر ادا کرنے کے قابل بنانے پر متوجہ ہونا پڑتا ہے۔ یہ کام محنت اور توجہ‘ دونوں ہی کا طالب ہے۔
آج ہم جس طور جی رہے ہیں وہ کسی بھی اعتبار سے زندگی کا حق ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ سانسوں کی گنتی پوری کرنے کو زندگی نہیں کہا جاسکتا۔ یہ تو خالص حیوانی سطح ہے۔ قدرت نے جنہیں سانسیں بخشی ہیں وہ تمام جاندار اپنے اپنے حصے کی سانسیں پوری کرکے دنیا سے چل دیتے ہیں۔ ہمیں بھی جانا ہے مگر اِس سے پہلے ایسا بہت کچھ کرنا ہے جو دیگر جانداروں کے لیے کسی بھی سطح پر ناگزیر نہیں۔ کسی بھی جاندار کو اُس طور حساب نہیں دینا جس طور ہمیں دینا ہے۔ ہمیں سانسوں کے ساتھ شعور بھی عطا کیا گیا ہے۔ دیگر جانداروں کے لیے زندگی طے شدہ ہے۔ وہ اپنی جبلت کے تحت جیتے ہیں جو متعین ہے۔ ہمارے لیے کچھ بھی متعین نہیں کیا گیا ہے۔ دیگر جانداروں کو ارادہ و اختیار سے محروم رکھا گیا ہے۔ اُن کی زندگی لگی بندھی ہے۔ انسانوں سے خاص مشابہت رکھنے والے جاندار بھی اپنے ماحول کو تبدیل کرنے کے اہل نہیں بنائے گئے۔ وہ جس ماحول میں خلق کیے جاتے ہیں اُسی ماحول میں رہتے ہیں اور اُن کے رخصت ہونے تک اُس ماحول میں کوئی بھی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔
انسانوں کا معاملہ کسی بھی درجے میں ایسا نہیں۔ انسان اپنی مرضی کے مطابق جینے کی آزادی کے ساتھ خلق کیے گئے ہیں۔ اُنہیں اِسی طور جینا چاہیے۔ ارادہ و اختیار کے تحت اور شعور کے ساتھ۔ اپنی مرضی کے مطابق جینے کی آزادی کے ساتھ خلق کیا جانا سخت جاں گُسل مرحلہ ہے کیونکہ ہم سے ایک ایک سانس کا حساب لیا جائے گا۔ ہم سے صلاحیت و سکت کو بروئے کار لائے جانے کے بارے میں سوال کیا جانا ہے۔ ہم اگر کسی کی مدد کرنے کے قابل بنائے گئے ہیں تو ہم سے اس بات کا حساب بھی لیا جائے گا کہ کسی کی مدد کی یا نہیں کی۔ جو ہنر قدرت نے اپنے کرم سے عطا کیا ہے اُس کا حساب بھی لیا جائے گا کہ اُس ہنر سے دنیا کو مستفید کرنے کی زحمت گوارا کی گئی یا نہیں۔ آج ہم اپنا اور اپنے ماحول کا جائزہ لیں تو یہ دلخراش حقیقت ہر باشعور اور ذی حِس انسان کے لیے سوہانِ روح بنی ہوئی ہے کہ قدرت نے جو صلاحیت و سکت عطا فرمائی ہے اُسے بروئے کار لانے کے بارے میں کسی بھی درجے میں نہیں سوچا جارہا۔ ایسا بہت کچھ ہے جو ہم نہیں کرسکتے۔ حالات اِس کی اجازت نہیں دیتے۔ یہ دکھ کی بات ہے مگر اِس سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ جو کچھ ہم کرسکتے ہیں وہ بھی نہیں کر پارہے۔ ہماری صلاحیت و سکت گویا کسی کنویں میں گرگئی ہے۔
زندگی ''حاضر سٹاک‘‘ کی بنیاد پر بسر کی جارہی ہے یعنی جو کچھ میسر ہے بس اُسی پر گزارہ ہو رہا ہے۔ انسان اِس سطح پر جینے کے لیے خلق کیے ہی نہیں گئے۔ اُنہیں تو اپنے ماحول کو بدلتے ہوئے اپنی زندگی کی سطح بلند کرنا ہوتی ہے۔ کوئی بھی انسان اپنا معیار اُسی وقت بلند کر پاتا ہے جب وہ اپنے معاملات اور حالات کو بلند کرتا ہے، اِس طور بدلتا ہے کہ اُن میں زیادہ معنویت پیدا ہوتی ہے۔ آج پاکستان وہاں کھڑا ہے جہاں سبھی کچھ محض گزارے کی سطح پر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ بے دِلی اور بے ذہنی اس قدر نمایاں ہے کہ اب تو معاملات کو دیکھ دیکھ کر اُبکائی سی آنے لگتی ہے۔ فکر و نظر متلانے کے مرحلے میں ہیں۔ ذوق و شوقِ عمل مٹتا جارہا ہے۔ فکر و نظر کی گہرائی کو تو اب خواب سمجھیے۔ یہ بے دِلی اور بے ذہنی حالات کی پیدا کردہ ہے اور حالات بہت حد تک ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ آج جتنی بھی خرابیاں پائی جاتی ہیں اُن کا بڑا حصہ ہماری اپنی طرزِ فکر و عمل کا نتیجہ ہے اور اپنی ذمہ داری قبول کیے بغیر ہم اِس سے گلو خلاصی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
خالص گزارے کی سطح پر جینا زندگی کی صریح توہین ہے۔ زندگی جیسی نعمت اِس لیے عطا نہیں کی گئی کہ رَدّی کی ٹوکری میں ڈال دی جائے۔ محض گزارے کی سطح پر جینا زندگی کو کو رَدّی کی ٹوکری میں ڈالنا ہی تو ہے۔ جو صلاحیتیں قدرت نے عطا کی ہیں اُنہیں پروان چڑھانا ہے اور جو مہارت یقینی بنالی گئی ہے اُسے اِس طور بروئے کار لانا ہے کہ دل و دماغ کو سُکون ملے اور روح بالیدگی سے ہم کنار ہو۔ ہمارا جینا اُسی وقت بارآور ثابت ہوسکتا ہے جب ہم وہ سب کچھ کر گزریں جو ہم کرسکتے ہیں اور جس کے نہ کرنے کا قلق رہ جانے کا اندیشہ ہے۔ زندگی کا حق ادا کرنا کسی کے بس کی بات نہیں مگر ہاں‘ ایسا کرنے کی کوشش تو سب کے اختیار میں ہے۔ جو جہاں تک جاسکتا ہے وہاں تک تو جائے۔ بہت سے معاملات میں سفر ہی منزل ہے۔ زندگی کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہم خدا کی نعمتوں کا شکر ادا کر ہی نہیں سکتے مگر اپنی سی کوشش سے تو کسی نے بھی ہمیں نہیں روکا۔
حاضر سٹاک پر خوش رہنا اور محض گزارے کی سطح پر جینا کسی بھی انسان کے شایانِ شان نہیں۔ کچھ نہ کچھ ایسا کر دکھانا ہے جو دنیا کو ہمارے بارے میں کچھ بتائے۔ ہم ایسا گیا گزارا معاشرہ ہرگز نہیں کہ کچرے کے ڈھیر پر زندگی گزار دیں۔ اپنے آپ کو پہچاننا اور بلند ہونا ہے۔