"MIK" (space) message & send to 7575

’’ڈائیسپورا کنکشن‘‘

یہ زمانہ ہی کچھ ایسا ہے کہ انتہائی باصلاحیت افراد اول تو ہاتھ آتے نہیں اور اگر چند ایک میسر ہوں تو اُنہیں بھی دوسرے معاشرے لے اُڑتے ہیں۔ پاکستان جیسے معاشروں کا ایک بنیادی المیہ یہ بھی ہے کہ جنہیں ملک کیلئے کچھ کرنا ہوتا ہے وہ بیرونِ ملک بہترین معاشی امکانات تلاش کرکے وہیں کے ہو رہتے ہیں۔ اِسی کو ''برین ڈرین‘‘ کہتے ہیں۔ ذہین، محنت پسند اور پُرجوش نوجوان کسی بھی معاشرے کیلئے حقیقی سرمائے کار درجہ رکھتے ہیں۔ ایشیا اور افریقہ کے بیشتر معاشروں کو عشروں سے برین ڈرین کا سامنا ہے۔ جو باصلاحیت نوجوان کسی نہ کسی طور اپنے آپ کو پروان چڑھانے میں کامیاب ہوتے ہیں اُنہیں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملک لے اُڑتے ہیں۔ پاکستان کا بھی یہی المیہ رہا ہے۔ اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی جو کچھ بھیجتے ہیں وہ قومی معیشت کو کسی حد تک مستحکم کرنے کا ذریعہ بنتا ہے مگر ہم یہ نکتہ نظر انداز کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے کہ ملک کو ذہین، محنت پسند اور پُرجوش نوجوانوں کی اشد ضرورت ہے۔ آج ہر شعبے میں محض گزارے کی سطح پر کام ہو رہا ہے تو اِس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے قابل ترین نوجوان ملک سے باہر ہیں۔ اور معاملہ صرف ملک سے باہر جاکر وہاں بہتر امکانات تلاش کرنے کا نہیں بلکہ وہاں آباد ہو رہنے کا بھی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی طرزِ زندگی ایسی پُرکشش ہے کہ لوگ وہاں سے واپس آنے کے بارے میں کم ہی سوچتے ہیں۔ پس ماندہ ممالک کے حالات کی خرابی تسلیم مگر وطن پھر وطن ہے۔ بہت سے پسماندہ ممالک میں ایسا بھی ہوا کہ لوگ باہر گئے، خوب کمایا، خوب زرِ مبادلہ بھیجا اور جب وطن کو ضرورت محسوس ہوئی تو واپس آئے اور قومی ترقی میں حصہ لے کر اپنا یہ کردار بھی ادا کیا۔ ہمارے ہاں اِس حوالے سے اب تک نہیں سوچا گیا۔ یہاں سے تو جو بھی کہیں جاتا ہے پھر واپس آنے کا نام نہیں لیتا۔ دنیا بھر میں ریاستیں اپنے اُن باشندوں پر غیر معمولی توجہ دیتی ہیں جو بیرونِ ملک مقیم ہیں اور ترسیلاتِ زر کے علاوہ ملک کیلئے نیک نامی کمانے کا بھی ذریعہ ہیں۔ بعض ریاستوں کے غیر مقیم باشندوں کی تعداد اِتنی زیادہ ہے کہ اُن کے ذریعے بیرونِ ملک قومی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کا کام بھی لیا جارہا ہے۔ کسی بھی ملک کے بیرونِ ملک مقیم باشندوں کو انگریزی میں Diaspora کہتے ہیں۔ اگر ڈائیسپورا طاقتور ہو تو سیاسی و سفارتی امور میں بھی بات منوائی جاسکتی ہے۔ حکومتیں چاہتی ہیں کہ بیرونِ ملک مقیم باشندے سیاسی و سفارتی اعتبار سے اپنی بات منوائیں تاکہ ملک کے معاشی اور سٹریٹیجک مفادات کو غیر معمولی حد تک توانا رکھنے میں مدد ملے۔
ترقی یافتہ ممالک میں مقیم افراد اپنے اپنے ملک جو رقوم بھیجتے ہیں یعنی ترسیلاتِ زر‘ وہ 2022ء میں کم و بیش 800 ارب ڈالر تھیں۔ اس حوالے سے بھارت، چین اور میکسیکو کے باشندے نمایاں کارکردگی کے حامل رہے۔ بہت سے ممالک کی معیشتیں ترسیلاتِ زر کی بدولت ہی مضبوط ہیں۔ اِن میں بھارت نمایاں ہے۔ چین کے باشندے بھی اپنی معیشت کو مضبوط کرتے ہیں؛ تاہم بھارت کے بیرونِ ملک مقیم باشندے سب سے زیادہ ہیں۔ بیرونِ ملک بہتر معاشی امکانات تلاش کرنے والوں میں بھارتی نمایاں ہیں۔ ہر سال کم و بیش 25 لاکھ بھارتی بیرونِ ملک جاتے ہیں تاکہ اپنے لیے بہتر زندگی کی گنجائش تلاش کرسکیں۔ بھارتی معیشت کو اپنے غیر مقیم باشندوں کے ذریعے کس حد تک مستحکم ہونے کا موقع مل رہا ہے اِس کا اندازہ اِس بات سے لگائیے کہ بھارت کی سالانہ ترسیلاتِ زر کم و بیش 80 ارب ڈالر ہیں۔ اِس وقت دنیا بھر میں بھارت کے غیر مقیم باشندوں کی مجموعی تعداد 3 کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ ہے۔ بیرونِ ملک مقیم بھارتی باشندوں کی طاقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سوناک کا آبائی تعلق بھارت سے ہے جبکہ امریکہ کی سلیکون ویلی میں بھارت سے آبائی تعلق رکھنے والے ایگزیکٹوز کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔ ان میں گوگل کے سُندر پچائی، مائیکروسوفٹ کے ستیا نڈیلا، آئی بی ایم کے اروند کرشناڈے اور مائیکرون ٹیکنالوجی کے سنجے مہروترا شامل ہیں۔ بھارت کے انتہا پسند وزیر اعظم نریندر مودی نے بیرونِ ملک مقیم بھارتی باشندوں کو ہندو اِزم کے ایجنڈے کو عالمگیر حیثیت دینے کے حوالے سے استعمال کرنے پر توجہ دی ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے آگنائزیشن فار ڈائیسپورا انیشی ایٹو (ODI) نامی گروپ بھی تشکیل دیا گیا ہے۔ ڈائیسپورا کے معاملے میں چین بھی کم اہم نہیں۔ امریکہ، کینیڈا، ملائیشیا، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، سنگاپور اور آسٹریلیا میں چینی نسل کے باشندوں کی مجموعی تعداد کم و بیش 10 کروڑ ہے۔ بھارت کے برعکس اِن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو صدیوں سے وہاں آباد ہیں اور مقامی ثقافت میں اچھی طرح رچ بس گئے ہیں۔ ملائیشیا اور انڈونیشیا وغیرہ میں چینی نسل کے لوگ معیشت پر بہت حد تک متصرف ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اُن کے خلاف شدید جذبات بھی پائے جاتے ہیں۔ 1969ء میں ملائیشیا میں چینی نسل کے باشندوں کے خلاف ہنگامے بھی پھوٹ پڑے تھے۔ اِس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ معیشت میں اُن کا کردار بہت بڑھ گیا تھا اور ملائے نسل کے لوگوں کو یہ احساس ہونے لگا تھا کہ اُن کے قومی مفادات داؤ پر لگ گئے ہیں۔
ڈائیسپورا کے حوالے سے عدم توازن کا اندازہ اِس بات سے لگائیے کہ 2021ء میں امریکہ میں تعلیم پانے والے چینیوں کی تعداد 2 لاکھ 90 ہزار تھی جبکہ 2020ء میں چین میں پڑھنے والے امریکیوں کی تعداد صرف ڈھائی ہزار تھی۔ ایک دہائی قبل چین میں 15 ہزار امریکی نوجوان تعلیم پارہے تھے۔ چینی حکومت نے سوشل میڈیا کے شعبے میں اپنی برتری قائم کرکے ڈائیسپورا کے ذریعے اپنے مفادات کو زیادہ تحفظ فراہم کرنے میں بھرپور کامیابی حاصل کی ہے۔ غیر مقیم چینی باشندے قومی مفادات کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھتے ہیں۔ وہ ملک کی ثقافتی شناخت کے حوالے سے بھی کم متحرک نہیں ہوتے۔ چینی سوشل میڈیا وڈیو ایپ ٹِک ٹاک کا اثر اِتنا بڑھ گیا تھا کہ امریکہ میں اِسے محدود کرنے کے اقدامات کرنا پڑے اور اب وَٹس ایپ کی طرز پر کام کرنے والی چینی ایپ WeChat پر بھی پابندی لگانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ عالمگیریت کے فروغ کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں غیر مقیم باشندوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ پسماندہ ممالک سے لوگ بڑی تعداد میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔ بہتر معاشی امکانات کی تلاش کے ساتھ ساتھ یہ لوگ کسی نہ کسی طور متعلقہ ممالک میں آباد ہونے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں زینو فوبیا (اجنبیوں کا خوف) بھی پروان چڑھ رہا ہے۔ 2002ء میں امریکہ کی ییل یونیورسٹی کی پروفیسر ایمی چُوا نے ''World on Fire‘‘ نامی کتاب میں بتایا تھا کہ دنیا بھر میں غیر مقیم باشندوں سے نفرت بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ سوال صرف جنوب مشرقی ایشیا میں چینی نسل کے باشندوں کا نہیں، مغربی دنیا میں ایشیائی اور افریقی نسلوں کے لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا بھی ہے۔ امریکہ اور یورپ میں شعوری طور پر کوشش کی جارہی ہے کہ تارکینِ وطن کی تعداد گھٹائی جائے۔ اِس حوالے سے نئی پالیسیاں مرتب کی جارہی ہیں۔
غیر مقیم پاکستانی اب تک اِتنے مضبوط تو نہیں ہوسکے کہ کسی ملک کی سلامتی اور مفادات کیلئے خطرہ بن سکیں؛ تاہم اُنکی تعداد اچھی خاصی ہے۔ ہماری حکومتیں غیر مقیم پاکستانیوں کی اہمیت کو سمجھنے میں اب تک ناکام رہی ہیں۔ اُن سے ترسیلاتِ زر کیساتھ ساتھ اور بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ بھارت اور چین کے غیر مقیم باشندے اپنے ملک کے بہت سے اداروں کو ڈھنگ سے چلانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ لوگ جہاں مقیم ہیں وہاں کے اداروں سے اپنے ملک کے اداروں کو بزنس دلاتے ہیں۔ ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ کاروباری روابط بڑھانے میں مڈل مین کا کردار پوری دیانت اور جاں فشانی سے ادا کیا جائے۔ پاکستان میں باصلاحیت نوجوانوں کی کمی نہیں۔ مشکل یہ ہے کہ اپنے ہاں کچھ کرنے کے بجائے ہر وقت بیرونِ ملک سکونت پذیر ہونے کا خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ غیر مقیم پاکستانی آؤٹ سورسنگ کے ذریعے قومی معیشت و معاشرت کو مستحکم رکھنے میں اپنا کردار بخوبی ادا کرسکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں