قدرت کی تمام عنایات میں توازن اور اعتدال نمایاں ترین وصف کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ قدرت کی صفات میں عدل بھی شامل ہے۔ اِس دنیا میں ہمیں جتنی بھی نعمتیں عطا فرمائی گئی ہیں اُن کی اصل میں عدل ہے۔ وقت ہی کو لیجیے۔ قدرت نے تمام انسانوں کو وقت کے معاملے میں ایک پیج پر رکھا ہے۔ کوئی بھی انسان یہ شکوہ نہیں کرسکتا کہ اُسے یومیہ بنیاد پر دوسروں سے کم وقت ملتا ہے۔ کوئی اس خوش فہمی میں بھی مبتلا نہیں رہ سکتا کہ اُسے ہر روز دیا جانے والا وقت دوسروں کو ملنے والے وقت سے زیادہ ہے۔ ہم کتنا ہی تلاش کریں‘ ایک پل کا بھی فرق نہیں ملتا۔ یہ ہے خالقِ دو جہاں کا عدل بلکہ شانِ عدل۔ ہاں‘ وقت کو بروئے کار لانے کی صفت قدرت نے ہر ایک میں الگ الگ درجے کے ساتھ رکھی ہے اور یہ درجہ بھی انسان ہی کا طے کردہ ہے۔ فکر و عمل کے ذریعے وقت کو بروئے کار لانے اور اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ بارآور بنانے کی کوشش کرنے کی توفیق نیت کی بنیاد پر نصیب ہوتی ہے۔ جو لوگ اِس دنیا میں اپنے قیام کو زیادہ بارآور بنانے کے خواہش مند ہوتے ہیں اُنہیں قدرت کی تائید حاصل ہوتی ہے اور استعانت بھی۔ بصورتِ دیگر جو کچھ ہوتا ہے وہ بھی آپ دیکھتے ہی ہیں۔
زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کے لیے ویسے تو بہت سی صفات درکار ہیں مگر اُن میں نمایاں ترین ہے روانی۔ معاملات جب ایک خاص توازن کے ساتھ چل رہے ہوتے ہیں تب زندگی میں روانی دکھائی دیتی ہے۔ زندگی رواں دواں ہو تو جینے کا مزہ کچھ اور ہوتا ہے۔ کسی بھی معاملے میں اٹکاؤ واقع نہ ہو رہا ہو تو ہر سانس نعمت محسوس ہوتی ہے۔ ویسے تو ہر سانس نعمت ہی ہوتی ہے مگر ہم اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کے ہاتھوں ایسے حالات پیدا کر دیتے ہیں جن میں نعمت بھی پوری طرح محسوس نہیں ہوتی اور ہم کماحقہٗ شکر ادا کرنے کے قابل نہیں ہو پاتے۔ اگر معیاری زندگی یقینی بنانا ہو تو انسان کو دریا جیسا بننا پڑتا ہے۔ دریا کی بنیادی صفت ہے بہنا۔ اِس کے بہنے سے بہت کچھ تبدیل ہوتا ہے۔ زمینیں سیراب ہوتی ہیں، اُن کی زرخیزی بڑھتی ہے اور لوگ سفر بھی کرتے ہیں۔ بہت سے دریا آمد و رفت آسان بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ لوگ اُنہیں گزر گاہ کے طور پر بروئے کار لاتے ہیں۔ دریا کے بہاؤ میں اٹکاؤ نہ ہو تو وہ اپنے حصے کا کام کرتا چلا جاتا ہے اور بہت سوں کی زندگی آسان بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ دریاؤں سے ہم بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ اگر اُن کا بہاؤ کسی بھی غیر ضروری اٹکاؤ کے بغیر ہو تو اُن سے مستفید ہونے والوں کی زندگی میں بھی روانی پائی جاتی ہے اور دکھائی بھی دیتی ہے۔ کون نہیں چاہتا کہ اُس کے معاملات کی روانی برقرار رہے؟ قدم قدم پر اٹکاؤ واقع ہو رہا ہو تو معیاری زندگی رہی ایک طرف‘ ڈھنگ سے سانس لینا بھی محال ہو جاتا ہے۔ بہت سوں کی زندگی میں آپ یہی سب کچھ دیکھتے ہیں اور بہت سوچنے پر بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ ہو کیا رہا ہے۔
ہر انسان کو ملنے والا وقت بھی محدود ہے اور وسائل بھی بے حد و بے شمار نہیں۔ اِس دنیا میں قیام کی مدت مقرر کردہ ہے اِس لیے ہم اُس میں کمی یا اضافے پر بھی تصرّف نہیں رکھتے۔ ہاں‘ قدرت کے عطا کردہ وقت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کے معاملے میں منصوبہ سازی ہمارے اختیار میں ہے۔ ہمیں بہت سوچ سمجھ کر جینا ہے۔ قدم قدم پر زندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے رہنا ہے تاکہ قدرت کی بخشی ہوئی سانسوں کا حق ادا کرنے کی سمت ہمارا سفر جاری رہے۔ ہم خدا کی کسی بھی نعمت کا حق ادا نہیں کرسکتے مگر اِس کی کوشش ضرور کرسکتے ہیں۔ یہ ایسی راہ ہے جس پر سفر ہی منزل ہے۔ ہر انسان کو بہت سے معاملات میں محتاط رہنا پڑتا ہے تاکہ وقت اور وسائل کا بلا جواز ضیاع نہ ہو۔ اس کے لیے نیت کا اخلاص بھی لازم ہے اور محنت کرنے کی لگن بھی۔ انسان کے پاس جو چیز جتنی کم ہوتی ہے وہ اُتنی ہی قیمتی ہوتی ہے۔ وقت چونکہ محدود ہے اس لیے اسے قیمتی گرداننا ہی پڑے گا۔ وقت کے بارے میں سوچ بدلے بغیر ہم کچھ خاص نہیں کر پاتے۔ کبھی آپ نے اس بات پر غور ہے کہ کچھ لوگ دریا کی طرح ہوتے ہیں؟ اُن کا مزاج ہی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ بہتے چلے جاتے ہیں، اِدھر اُدھر نہیں دیکھتے اور کسی بھی معاملے پر زیادہ متوجہ ہوئے بغیر اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ آپ سوچیں گے یہ تو اچھی بات ہوئی۔ بے شک‘ یہ اچھی بات ہے کہ انسان میں دریا کی سی روانی ہو۔ روانی برقرار رہے تو زندگی ایک خاص طریق سے بسر ہوتی چلی جاتی ہے اور کوئی غیر ضروری اٹکاؤ واقع نہیں ہوتا۔ ایسا صرف اس وقت ہوتا ہے جب دریا قابو میں ہو! کچھ لوگ ایسے دریا ہوتے ہیں جو بات بات پر بپھرتے ہیں‘ جو کچھ بھی راستے میں آئے اُسے تاراج کرتے ہوئے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اُنہیں اس بات سے‘ بظاہر‘ کچھ غرض نہیں ہوتی کہ کسی پر کیا گزری۔ ایسے لوگ دوسروں کے بارے میں زیادہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے ؎
دریا کو اپنی موجوں کی طُغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے!
کسی بھی انسان کے لیے تمام معاملات سے بڑھ کر ہے تعلقات کا معاملہ۔ زندگی کن لوگوں کے ساتھ بسر کرنی چاہیے ‘اس کا فیصلہ انسان کو خود کرنا ہے۔ خونی رشتے قدرت کی طرف سے عطا ہوتے ہیں مگر دوستی اور دیگر تعلقات کا تعین خود کرنا پڑتا ہے۔ اور خونی رشتوں کے معاملے میں بھی تہذیب و تطہیر کا مرحلہ انسان کے اپنے اختیار کا معاملہ ہوتا ہے۔ تمام رشتہ داروں سے یکساں نوعیت کا معاملہ رکھنا ممکن ہے نہ لازم۔ جو ہم مزاج ہو اُسے زیادہ قریب رکھنا چاہیے اور جن سے طبیعت نہ ملتی ہو اُن سے رسمی سا تعلق استوار رکھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ ویسے بھی انسان نہ تو سب سے یکساں نوعیت کے تعلقات استوار رکھ سکتا ہے اور نہ ہی ایسا کرنا لازم و ناگزیر ہے۔ وقت اور وسائل کے محدود ہونے کی صورت میں ہمارے پاس اتنی گنجائش ہے ہی نہیں کہ ہر ایک سے یکساں سطح کا تعلق استوار کرتے پھریں۔ جن کے مزاج دریاؤں جیسے ہوتے ہیں وہ اِدھر اُدھر دیکھے بغیر، دوسروں کے بارے میں سوچے بغیر، ان کا ذرا سا بھی احساس کیے بغیر زندگی بسر کرتے ہیں۔ وہ اپنے مزاج کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں۔ جو کچھ بھی راہ میں آئے اسے وہ تہس نہس کردیتے ہیں، ڈبو دیتے ہیں۔ کیا ایسے لوگوں سے بھی وہی سلوک روا رکھنا چاہیے جو دوسروں سے روا رکھا جاتا ہے؟ دانش کا تقاضا ہے کہ ایسا نہ کیا جائے۔ کسی بھی بپھرے ہوئے دریا میں اترنے سے گریز شعور کا تقاضا ہے۔ ایسے دریا کو پُل کے ذریعے تو پار کیا جاسکتا ہے، کشتی کے ذریعے نہیں۔ پُل مضبوط ہو تو دریا اس کا اور اس پر سے گزرنے والوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ جن لوگوں کے مزاج میں کسی کی مجبوری اور پریشانی کو محسوس کرنا لکھا ہی نہ گیا ہو ان سے بچنا لازم ہے۔ ایسے لوگ صرف اپنا مفاد دیکھتے ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ان کی طرزِ فکر و عمل سے کسی پر کیا گزرتی ہے۔ معاشرہ ایسے ''دریاؤں‘‘ سے بھرا پڑا ہے جنہیں صرف اپنی موجوں کی طُغیانیوں سے غرض ہوتی ہے۔ کوئی ان کی راہ میں آئے اور غرقاب ہوتا ہے تو ہو۔ تُنک مزاج لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ بات بات پر بھڑک اٹھتے ہیں اور کچھ بھی کہہ جاتے ہیں۔ ایسے لوگ بولتے وقت سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔ ان کی طرزِ گفتگو اندھے کی لاٹھی جیسی ہوتی ہے‘ کسی کو بھی لگ سکتی ہے اور لگ بھی جاتی ہے!
اپنے معاملات کا جائزہ لیجیے اور ہر اُس انسان سے تعلق پر نظرِ ثانی کیجیے جو غیر ضروری طور پر تُنک مزاج ہو، بات بات پر بدکتا ہو، بھڑک اٹھتا ہو اور کسی پر بھی برس پڑتا ہو۔ ایسے لوگ آپ کے بنے بنائے معاملات کو پل میں تہس نہس کرسکتے ہیں۔ ان کے مزاج کی بپھری ہوئی موجوں میں سبھی کچھ بہہ جاتا ہو اور متاثرین بے چارے بس دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ ایسے ''دریا صفت‘‘ لوگوں سے دور رہیے یا پھر پُل استعمال کرکے ان پر سے گزر جائیے۔