"MIK" (space) message & send to 7575

فکر و نظر کی کساد بازاری

جہاں بھیڑ چال ہو وہاں صرف بھیڑ چال ہی ہوتی ہے۔ ہمارا بھی یہی حال ہے۔ زندگی کے مشاعرے میں ذہن کو زحمتِ کلام دینے والے خال خال ہیں۔ ایک دنیا اس حقیقت کے آگے سرِتسلیم خم کیے ہوئے ہے کہ ذہن کو بروئے کار لائے بغیر کچھ بھی ڈھنگ سے نہیں کیا جاسکتا مگر ہم یہ بات ماننے کو تیار ہی نہیں۔ ہم نے تو جیسے طے کرلیا ہے کہ اب کسی نہ کسی طور یوں جینا ہے کہ کسی بھی مرحلے پر ذہن سے کام لینے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ ذہن کے معاملے میں بے دِلی اس قدر ہے کہ دیکھ اور سوچ کر حیرت کم اور وحشت زیادہ ہوتی ہے۔ کیا کوئی معاشرہ ذہن سے کام لیے بغیر بھی جی سکتا ہے؟ جی تو سکتا ہے مگر کیا ایسے جینے کو جینا کہا جاسکتا ہے؟ ہم بند گلی میں پھنسے ہوئے لوگوں کی طرح جی رہے ہیں۔ یہ کیفیت کچھ تو حالات کی پیدا کردہ ہے اور کچھ ہمارے اپنے افکار و اعمال کی کمزوری کا نتیجہ ہے۔گویا ؎
کچھ تو ہوتے ہیں محبّت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنادیتے ہیں
ہم کیا چاہتے ہیں؟ یہ سوال اب بنتا ہی نہیں کیونکہ سب کچھ اظہر من الشمس ہے۔ ہم بظاہر یہ طے کرکے چل رہے ہیں کہ اب ہم کسی بھی معاملے میں فکر و نظر کو زحمتِ کار نہیں دیں گے۔ ''جیسا ہے‘ جہاں ہے‘‘ کی بنیاد پر بسر کی جانے والی زندگی ایسی ہی ہوتی ہے۔ ایسی زندگی میں فکر و نظر کی گہرائی و گیرائی کی بات تو رہنے ہی دیجیے، اُس کا نام و نشان نہیں ملتا۔ جب ذہن سے کام لینے کے بارے میں سوچا ہی نہیں جائے گا تو بات کیسے بنے گی؟ ہم اِسی دنیا میں رہتے ہوئے کسی اور دنیا کے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے ذہنوں میں شاید یہ بات سماگئی ہے کہ باقی دنیا جو کچھ کر رہی ہے‘ وہ بالکل نہیں کرنا ہے اور پھر بھی جی کر دکھانا ہے۔ اِس طور جینے میں جو مشکلات درپیش ہوتی ہیں وہ ہمیں درپیش ہیں مگر ہم کچھ بھی سوچنے اور سیکھنے کو تیار نہیں۔
آج زندگی کا کون سا شعبہ اور پہلو ہے جو فکر و نظر کی شدید قلت سے پیدا ہونے والے نتائج سے دوچار نہیں؟ مجموعی طور پر پورا معاشرہ بے ذہنی کے ساتھ جینے کا عادی ہوچکا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے والے خال خال ہیں کہ دنیا نے اب تک جتنی بھی ترقی کی ہے وہ سب کی سب ذہنی مشق و مشقت کا نتیجہ ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اُسی وقت اپنی پسماندگی کی زنجیریں توڑ کر بلند ہوتا ہے جب وہ ذہن سے کام لینے کو زندگی کی اولین ترجیح کا درجہ دیتا ہے۔
معاشی مشکلات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اُن کے ہاتھوں زندگی کا توازن بگڑتا ہے۔ کسی بھی معاشی الجھن سے نجات پانے کے لیے تگ و دَو لازم ہے۔ ایک اضافی المیہ یہ ہے کہ ہم ہر معاملے میں لگی بندھی سوچ کے حامل ہوگئے ہیں اور یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ سب کچھ خود بخود درست ہو جائے گا۔ ایسا کبھی ہوا ہے نہ ہوگا۔ کسی بھی ماحول کو بدلنے کے لیے میدانِ عمل میں آنا پڑتا ہے۔ جب تک ایسا کرنے کا عزم پیدا نہ ہو تب تک کوئی بھی حقیقی تبدیلی رونما نہیں ہوسکتی۔ ہم نے معاشی مشکلات ہی کو سب کچھ سمجھ کر اُنہیں حل کرنے کی راہ پر گامزن رہنے کو کافی گردانا ہے۔ یہ سوچ غلط ہے۔ معاشرتی الجھنوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ معاشی ابتری بہت گُل کھلاتی ہے؛ تاہم معاشرتی الجھنیں بھی کم قیامت نہیں ڈھاتیں۔ اُن سے نپٹنے کے لیے بھی بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔
کسی بھی پسماندہ معاشرے میں اگر کبھی کچھ کرنے کی گنجائش پیدا ہوئی تو صرف اُس وقت جب ذہن کو کچھ گردانا گیا اور اُس سے کام لینے کے بارے میں سوچا گیا۔ جب تک ذہن کو نظر انداز کیا جاتا رہتا ہے تب تک کسی بھی حقیقی تبدیلی کی راہ نہیں نکلتی۔ ہمارے ہاں اس وقت فکر و نظر کی کساد بازاری ہے۔ عملی زندگی کے بازار میں تفکر اور حقیقت پسندی کی کرنسی کو زیادہ قبولیت حاصل نہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ ہم نے فکر و نظر کے حوالے سے بہت سی بے بنیاد باتوں کو اپنی فکری ساخت میں جگہ دے رکھی بلکہ نصب کر رکھا ہے۔ علم و فن سے شغف نہ رکھنے والے گھرانوں میں ایک بنیادی عمومی تصور یہ پایا جاتا ہے کہ زیادہ سوچنا کسی کام کا نہیں ہوتا اور زیادہ پڑھ لکھ کر کوئی صدر یا وزیر اعظم نہیں بن جاتا۔ ایسے گھرانوں میں اگر بچے ذہن سے کام لینے کی طرف مائل ہوں، باقاعدگی سے اور زیادہ مطالعہ کریں تو والدین کبھی شعوری طور پر اور کبھی تحت الشعور کی سطح پر اُن کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ والدین پڑھے لکھے نہ ہوں اور علم و فن سے شغف نہ رکھتے ہوں تو بچوں میں علم کی لگن بہت مشکل سے پیدا ہو پاتی ہے کیونکہ ان کی طرف سے قدم قدم پر حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ خاندان کے بزرگ بھی بچوں میں فکر و نظر سے رغبت کا رجحان پیدا کرنے میں خاطر خواہ دلچسپی نہیں لیتے۔ اُن کے خیال میں زیادہ پڑھنا لکھنا کسی کام کا نہیں ہوتا اور انسان کو کسی کام کا نہیں رہنے دیتا۔ بعض پیشوں سے وابستہ افراد کا چونکہ پڑھنے‘ لکھنے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اِس لیے اُن کے ذہنوں میں یہ خیال راسخ ہوچکا ہوتا ہے کہ جو کچھ وہ کرتے ہیں وہی اُن کی اولاد کے لیے بھی موزوں ہے اِس لیے زیادہ پڑھنے لکھنے اور نزاکت پسند ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایسے میں اولاد کے ذہن الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ مثلاً کسی کاروباری گھرانے کا بچہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہے اور علم و فن میں زیادہ دلچسپی لے تو گھر کا ماحول اُسے ایسا کرنے سے روکتا ہے۔ قدم قدم پر کہا جاتا ہے کہ جس کام میں پیسہ ہی پیسہ ہے بس وہی اچھا ہے۔ معاملہ چند پیشوں یا کاروبار سے وابستہ گھروں اور گھرانوں تک محدود نہیں۔ معاشرے میں مجموعی طور پر علم و فن کی طرف مائل ہونے کا رجحان پایا ہی نہیں جاتا۔ حد یہ ہے کہ جن لوگوں نے اپنے علم و فن ہی کی بدولت قابلِ رشک انداز کی زندگی بسر کی ہو اُن کی اولاد بھی عقل کی عمومی سطح پر رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتی ملتی ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ پورا ماحول ہی یہ سکھانے پر بضد ہے کہ زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے بغیر بھی جیا جاسکتا ہے۔ عمومی سطح پر یہ بات اچھی لگتی ہے کہ ذہن پر زیادہ زور دینے، بہت مطالعہ کرنے، بحث و تمحیص کے ذریعے کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کرنے اور فکری ساخت کو ہر وقت متحرک رکھنے کی ضرورت کیا ہے۔ ماحول میں ایسے لوگ بکثرت ہیں جو ذہن کو زیادہ بروئے کار لائے بغیر بھی جی رہے ہیں اور پیٹ بھر کمانے کے قابل بھی ہیں۔ جب گھر کا چولھا ذہن میں شمع روشن کیے بغیر جل سکتا ہے تو اپنے آپ کو پریشانی سے دوچار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
بادی النظر میں یہ بات بہت اچھی لگتی ہے لیکن اگر متوجہ ہوکر سوچا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اچھا سوچنے کی عادت پروان چڑھائے بغیر ہم معیاری زندگی بسر نہیں کرسکتے۔ دنیا بھر میں ایسے درجنوں معاشرے ہیں جنہوں نے صدیوں کی محنتِ شاقہ کے نتیجے میں اپنے آپ کو پستی کے گڑھے سے نکالنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ کامیابی صرف اُس وقت ممکن ہوسکی جب جہالت کو ترک کرکے علم کو گلے لگایا گیا، بے ذہنی کو خدا حافظ کہتے ہوئے سوچنے کی عادت پروان چڑھائی گئی اور عمومی سوچ کو ایک طرف ہٹاتے ہوئے معیاری انداز سے سوچنے کو ترجیح دی گئی۔
فکر و نظر کی کساد بازاری یعنی شدید کمی انسان کو ایک خاص حد تک ہی جانے دیتی ہے اور وہ خاص حد بھی بہت جلد آجاتی ہے۔ بیشتر معاملات کو عمومی سطح پر پرکھنے کے بجائے تھوڑی سی توجہ سے تفکر کے ذریعے اچھی طرح سمجھنے کی صورت میں انسان ڈھنگ سے جینے کے قابل ہو پاتا ہے، قابلیت کا گراف بلند ہوتا ہے اور سکت بھی بڑھتی ہے۔ کسی بھی انسان یا معاشرے کو زندگی کا اعلیٰ معیار اُسی وقت ملتا ہے جب وہ عمومی سطح پر پائی جانے والی بے عقلی کو ترک کرکے معاملات کو جڑ یا بنیاد سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور اس معاملے میں اصولوں پر سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں