"MIK" (space) message & send to 7575

ذرا ہاتھ پاؤں بچاکر

غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوکر کہیں بھی رہائش اختیار کرنے اور معاشی سرگرمیوں میں کھل کر حصہ لینے والے افغان باشندوں کو وطن واپس بھیجنے کا عمل جاری ہے۔ یہ عمل پاکستان کے حق میں ہے کیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کے ہاتھوں معاشی اور معاشرتی‘ دونوں طرح کی الجھنیں پیدا ہوتی رہی ہیں۔ 1979ء میں سابق سوویت یونین کی لشکر کشی کے بعد افغانستان سے لاکھوں افراد نے نکل کر پاکستان، ایران اور تاجکستان میں پناہ لی۔ سب سے زیادہ بوجھ پاکستان کو برداشت کرنا پڑا۔ چار عشروں سے بھی زائد مدت کے دوران پاکستان میں قیام کے دوران باضابطہ یعنی رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں اور غیر قانونی طور پر در آنے والے افغان باشندوں کے ہاتھوں معیشت اور معاشرت‘ دونوں کو غیر معمولی اثرات جھیلنا پڑے ہیں۔ خیبر پختونخوا کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ افغان پناہ گزینوں کی آمد سے معاشی سرگرمیاں بھی خرابی سے دوچار ہوئیں اور معاشرت پر بھی شدید منفی اثرات مرتب ہوئے۔
پاکستان میں افغان باشندوں کی آمد نے بہت کچھ تبدیل کیا۔ سیاسی سطح پر بھی خرابیاں واقع ہوئیں اور سلامتی کے لیے بھی غیر معمولی مسائل پیدا ہوئے۔ خرابیاں پہلے بھی تھیں‘ دہشت گردی کا نشانہ تو پاکستان کو پہلے بھی بنایا گیا‘ ضیا دور میں بھی پاکستان کے لیے سلامتی کے حوالے سے مسائل پیدا ہوتے رہے؛ تاہم دو‘ ڈھائی عشروں کے دوران معاملات زیادہ بگڑے ہیں۔ نائن الیون کے بعد افغانستان کے حالات نے پاکستان کو ناقابلِ قبول حد تک متاثر کیا ہے۔ بعض مواقع پر افغان سرزمین سے کی جانے والی دہشت گردی نے پاکستان کی سلامتی اور سالمیت‘ دونوں کو داؤ پر لگایا ہے۔ کم و بیش دو عشروں کے دوران پاکستان میں افغان باشندوں کی موجودگی کے حوالے سے تحفظات نے غیر معمولی شدت اختیار کی ہے۔ ایک زمانے تک چلن یہ تھا کہ عام پاکستانی کو بظاہر اِس بات سے کچھ خاص غرض نہ تھی کہ کون کہاں سے آیا ہے‘ دنیا بھر سے لوگ اِس سرزمین پر آکر آباد بھی ہوتے تھے اور معاشی معاملات بھی جاری رکھتے تھے۔ یہ کیفیت دو عشروں پہلے تک تھی۔ نائن الیون کے بعد بہت کچھ تبدیل ہوگیا۔ ملک بھر میں غیر قانونی تارکینِ وطن کے حوالے سے تحفظات ابھرے ہیں تو سب سے پہلے افغان باشندوں کے معاملات کو کنٹرول کرنے کا سوچا گیا ہے۔ دنیا بھر میں اصول یہ ہے کہ جو لوگ پناہ لینے کے لیے آتے ہیں وہ ملک کی بنیادی معاشی سرگرمیوں میں کھل کر حصہ نہیں لے سکتے۔ یورپی اور دیگر ترقی یافتہ معاشروں میں رجسٹرڈ پناہ گزینوں کو رہائش بھی دی جاتی ہے اور خوراک کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے؛ تاہم اُنہیں معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ یہ معاملہ قانون کی سخت پابندیوں کے دائرے میں رہتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہاں ہر معاملے کا قانون موجود ہے؛ تاہم اُس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ جب قانون کی عملداری نہیں ہوگی تو اُس سے ڈرنے والے بھی خال خال ہی ہوں گے۔
غیر ملکی باشندے ہر دور میں دھڑلے سے پاکستان آتے رہے ہیں اور معاشی و معاشرتی نظم کا حصہ بھی بنتے گئے ہیں۔ افغان باشندے ملک بھر میں جہاں بھی چاہتے ہیں کھل کر کاروبار کرتے ہیں۔ افغان باشندوں کو ملازمتیں دینے میں بھی لوگ زیادہ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ کم اجرت پر کام کرنے والے کسے بُرے لگتے ہیں؟ غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکینِ وطن کی طرح افغانوں نے بھی پاکستانی معیشت میں کم اجرت کے ذریعے ہی اپنی بنیاد مضبوط کی ہے۔ چار عشروں کے دوران افغان باشندوں کے ہاتھوں پاکستانی معاشرے پر جو معاشی اور معاشرتی اثرات مرتب ہوئے اُن کے باوجود عام پاکستانی کے دل میں افغان باشندوں کے لیے نفرت ہے نہ تنفّر۔ افغان باشندوں کے خلاف جذبات اس لیے پیدا ہوئے ہیں کہ وہ پناہ گزین کی حیثیت ترک کرکے باضابطہ شہریوں کی طرح رہتے رہتے غیر قانونی سرگرمیوں میں بھی ملوث ہونے لگے ہیں۔ معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینا کوئی بہت بُری بات نہ سہی مگر مشکل یہ ہے کہ کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں بہت سے افغان باشندے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ کراچی میں تو غیر قانونی طور پر مقیم باشندوں کے ڈکیت گروپ تک پائے جاتے ہیں۔ ان ڈکیت گروپوں کی بڑھتی ہوئی وارداتوں نے شہرِ قائد کے مکینوں کو شدید الجھن سے دوچار کیا ہے۔ ایسے میں اگر غیر قانونی طور پر مقیم باشندوں کے خلاف جذبات ابھرے ہیں تو اِس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ حکومت کو اچانک یاد آیا ہے کہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے غیر قانونی افغان پناہ گزین ملک کی سلامتی و سالمیت کے لیے خطرہ ہیں۔ اُنہیں بزور نکالنے کا عمل جاری ہے۔ یہ عمل اپنے ساتھ چند خرابیاں بھی لایا ہے۔ شکایات ملی ہیں کہ باضابطہ رجسٹرڈ افغان پناہ گزین گھرانوں کو بھی نکالا جارہا ہے۔ اس حوالے سے عالمی سطح پر تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ غیر جانبدار مبصرین اور تجزیہ کار بھی اس نکتے پر زور دے رہے ہیں کہ غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو نکالنے کے عمل میں حکومتِ پاکستان کو بین الاقوامی قانون کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ جن غیر ملکیوں کو اپنے ملک میں شدید نوعیت کے خطرات لاحق ہوں اُنہیں بزور بھی نہیں نکالا جاسکتا۔
بہت سے افغان باشندوں کو اس بات پر اعتراض ہے کہ پناہ گزین کی حیثیت سے رجسٹریشن کے باوجود اُنہیں پاکستان سے نکالا جارہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ امر بھی انتہائی تشویش ناک ہے کہ جو کچھ افغان باشندوں نے یہاں کمایا ہے اُس کا بڑا حصہ بھی اُنہیں یہیں چھوڑ کر جانا پڑ رہا ہے۔ ہر فرد کو ایک خاص حد تک رقم لے جانے کی اجازت ہے۔ کسی نے پچیس تیس برس کی محنتِ شاقّہ کے نتیجے میں املاک بنائی ہیں اور یہ املاک ناجائز طریقوں سے نہیں بنائی گئیں تو حکومت کو اُن کی ضبطی کے معاملے میں قوانین کے دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ اگر کسی کو غیر قانونی قیام کی بنیاد پر ملک سے نکالا بھی جائے تو اُس کی محنت کی کمائی پر ڈاکا ڈالنے سے گریز کیا جائے۔ یہ شکایات بھی عام ہیں کہ غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو نکالنے کے نام پر کی جانے والی کارروائی سے بہت سے حکام اور پولیس اہلکار ناجائز فائدہ اٹھارہے ہیں۔ جن کے پاس پاکستان میں قیام کے لیے تمام ناگزیر قانونی دستاویزات موجود ہیں اُنہیں بھی جبری طور پر اُن کے ملک بھیجا جارہا ہے۔ غیر قانونی افغان تارکینِ وطن کا معاملہ بہت احتیاط سے نمٹایا جانا چاہیے۔ یہ دو طرفہ تعلقات میں کشیدگی پیدا کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ افغانستان میں طالبان دوسری بار اقتدار میں آئے ہیں۔ اُن پر ملکی معیشت اور سیاست کو استحکام سے ہم کنار کرنے کے حوالے سے غیر معمولی دباؤ ہے۔ ایسے میں لاکھوں ہم وطنوں کو دوبارہ بسانے کی ذمہ داری اُن کی مشکلات میں اضافہ کرسکتی ہے۔ اِس کے نتیجے میں پاکستان سے اُن کے تعلقات بگڑ بھی سکتے ہیں۔ یہ وقت تعلقات میں خرابی کا متحمل ہونے کا نہیں۔ قومی قیادت افغانستان سے تعلقات کی خرابی جھیلنا نہیں چاہے گی۔ ہم طالبان سے بات بھی کرسکتے ہیں اور معاملات بہتر بنائے رکھنے سے متعلق اقدامات پر مفید تبادلۂ خیالات بھی کرسکتے ہیں۔ غیر قانونی افغان تارکینِ وطن کے اخراج کا معاملہ کماحقہٗ سنجیدگی اور دیانت کے ساتھ نمٹانے کی ضرورت ہے۔ یہ پاکستان کے لیے ایک بڑی آزمائش ہے۔ افغان باشندے ہماری معیشت میں بہت حد تک گُندھے ہوئے ہیں۔ دوسرے بہت سے غیر ملکیوں کی طرح وہ بھی ہمارے لیے سستی اُجرت کی بہترین شکل ہیں۔ اور وہ بہت محنتی بھی ہیں۔ ہمارے بہت سے آجر بھی افغان باشندوں کی موجودگی چاہتے ہیں۔
بہترین حکمتِ عملی یہ ہوسکتی ہے کہ غیر قانونی تارکینِ وطن سے متعلق بین الاقوامی قوانین کو نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ افغانستان کی طالبان حکومت کو بھی اعتماد میں لیکر اقدامات کیے جائیں اور جنہیں یہاں سے نکالا جائے اُن کی اپنے وطن میں دوبارہ آباد کاری آسان بنانے کیلئے عالمی برادری سے بھی کمٹمنٹ لی جائے۔ افغانوں سمیت تمام غیر قانونی تارکینِ وطن سے گلو خلاصی ہاتھ پاؤں بچاکر کی جانی چاہیے تاکہ ملک بدنام ہو نہ بین الریاستی تعلقات داؤ پر لگیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں