"MIK" (space) message & send to 7575

بچے توجہ چاہتے ہیں

نوجوان سر جھکائے کٹہرے میں کھڑا تھا۔ فیصلہ سنایا جانے والا تھا۔ نوجوان نے اپنی چڑھتی جوانی کا بڑا حصہ جرائم کی نذر کردیا تھا۔ وہ لڑکپن کے ختم ہوتے ہی بُری صحبت کا شکار ہوگیا تھا۔ معاملہ یہ تھا کہ وہ دو چھوٹی بہنوں کا اِکلوتا بھائی تھا۔ والد کی کمائی بہت اچھی تھی۔ گھر میں دولت کی ریل پیل تھی۔ جو کچھ بھی کھانا پینا اور پہننا ہوتا وہ آسانی سے میسر ہو جاتا تھا۔ والدین کے لیے تینوں بچے آنکھوں کا تارا تھے۔ والد چونکہ اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں الجھے رہتے تھے اس لیے اولاد کو زیادہ وقت صرف والدہ دے پاتی تھیں۔
جج صاحب نے چند لمحوں تک نوجوان کو گھورا۔ اُن کے گھورنے میں حقارت بالکل نہیں تھی بلکہ اُس میں تھوڑا سا ترحم تھا اور تھوڑی سی شفقت۔ جج صاحب نے فیصلے کے پرنٹ آؤٹ پر ایک نظر ڈالی اور پھر فیصلہ سُنانے سے قبل نوجوان سے مخاطب ہوئے ''بیٹا! میں تمہیں بہت اچھی طرح جانتا ہوں اور ظاہر ہے کہ تم بھی مجھ سے خوب واقف ہو۔ میں تمہارے والد کے قدر دانوں میں سے ہوں کیونکہ وہ بہت بڑے قانون دان تھے۔ اُن کی زندگی چونکہ عدالتوں میں گزری اِس لیے میرا اُن سے برسوں تعلق رہا۔ وہ اپنے شعبے کی چند بڑی شخصیات میں سے تھے۔ تمہیں کٹہرے میں دیکھ کر مجھ پر جو کچھ بیت رہی ہے وہ میں ہی جانتا ہوں۔ اب تم بتاؤ مقدمے کی کارروائی کے بعد اور فیصلے کی گھڑی کے سر پر آن پہنچنے پر تمہیں کیسا محسوس ہو رہا ہے، بالخصوص اس حوالے سے کہ تم ایک بڑے قانون دان کے بیٹے ہو‘‘۔
نوجوان نے احترام کے ساتھ سر اٹھایا اور پلکیں جھکاکر خاصے دھیمے اور احترام آمیز لہجے میں جواب دیا ''جج صاحب! ایک طویل مدت تک مجھے آپ کی شفقت حاصل رہی جس کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ آج آپ میرے مقدمے کا فیصلہ سُنانے والے ہیں جو یقینا میرے خلاف ہی ہو گا۔ آپ اپنا کام کر رہے ہیں اور کرنا ہی چاہیے۔ ہاں‘ آپ نے میرے مرحوم والد کا ذکر کرکے مجھے بھی تھوڑا سا جذباتی کردیا ہے۔ میں اپنے والد کو بھول نہیں پایا ہوں۔ خدا نے اُن کا سایہ میرے سر سے ہٹالیا ہے، اُن کی یادیں البتہ میرے حافظے کا حصہ ہیں اور رہیں گی‘‘۔
کمرۂ عدالت پر خاموشی کا راج تھا۔ سب مہر بہ لب تھے اور نوجوان کو سُن رہے تھے۔ اُس نے بات جاری رکھی ''جج صاحب! آپ کی اجازت سے پورے احترام کے ساتھ میں اِتنا کہنا چاہوں گا کہ میرے والد آپ کی نظر میں بہت بڑے قانون دان تھے اور میری نظر میں وہ ایک ایسے انسان تھے جس کے پاس اپنے اہلِ خانہ کے لیے دولت تو بہت تھی، وقت بالکل نہیں تھا اور اگر کبھی وہ وقت نکال بھی پاتے تھے تو برائے نام۔ میں نے جب بھی اُن سے بات کرنے کی کوشش کی تو اُنہیں قانون کی بھاری بھرکم کتابوں میں گم پایا۔ میں اگر اُن سے کہتا کہ مجھے کچھ بات کرنی ہے تو وہ بالکل متوجہ نہیں ہوتے تھے بلکہ اکثر جھڑک دیا کرتے تھے۔ اُنہیں ہم سے محبت بھی رہی ہوگی مگر اُس محبت کا اظہار وہ صرف دولت کے ذریعے کرتے تھے۔ اُن کے ذہن میں شاید یہ تصور بس گیا تھا کہ اہلِ خانہ یعنی بیوی اور بچوں سے متعلق کسی بھی مرد کی ذمہ داری صرف اِتنی ہے کہ خوب کمائے اور اُن پر خرچ کرے۔ ہم تینوں بھائی بہنوں کے لیے اُن کے پاس اور تو سب کچھ تھا، وقت بالکل نہیں تھا۔ والدہ کا بھی یہی شکوہ رہا۔ ہم چاروں کی حسرت ہی رہی کہ والد کبھی ہمارے ساتھ بیٹھیں، ہماری بات سُنیں، ہماری شکایات کا ازالہ کریں۔ اگر آپ جیسے کسی دوست نے بھی کبھی اُنہیں اہلِ خانہ پر متوجہ ہونے کی تحریک دینے کی کوشش کی تو اُنہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ اپنے پیشے کو پورا وقت دے رہے ہیں، خوب کما رہے ہیں اور اہلِ خانہ کو کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دیتے۔ مشورے دینے والے رفتہ رفتہ پیچھے ہٹتے چلے گئے اور میں بگڑے ہوئے نوجوانوں کی صحبت میں سکون تلاش کرنے لگا۔ یوں میرا رابطہ جرم پسند ذہنیت کے حامل نوجوانوں سے ہوا۔ اِس راستے پر چلنے والوں کو ایک دن کٹہرے میں کھڑا ہونا ہی پڑتا ہے۔ میرے انجام کو عبرتناک تو کہا جاسکتا ہے، حیرت انگیز نہیں۔ مجھے اپنے انجام پر افسوس کرنے کا بھی حق نہیں‘‘۔
جج صاحب بھی ہمہ تن گوش تھے اور کمرۂ عدالت میں موجود افراد بھی سکتے کی سی کیفیت کا شکار تھے۔ نوجوان مجرم تھا اور اُسے سزا سنائی جانی تھی مگر سب نے اُس کے لیے ہمدردی محسوس کی کیونکہ وہ جن حالات کے دباؤ سے جرم کی دنیا میں گیا وہ اُس کے اپنے پیدا کردہ نہیں تھے مگر والد کی عدمِ توجہ نے اُسے پہلے بے فکرے اور بگڑے ہوئے نوجوانوں کی صحبت کی طرف دھکیلا اور پھر وہ جرم پسند ذہنیت کے حامل افراد کی فہرست میں شامل ہوگیا۔ جس طرح کی زندگی وہ بسر کرتا آیا تھا وہ بالآخر ایسے ہی انجام سے دوچار کیا کرتی ہے۔ اُسے اپنے انجام پر حیرت تھی نہ افسوس۔ ایک بڑے قانون دان کا بیٹا... اور مجرم! اگر وہ عدالت میں اپنی کہانی بیان نہ کرتا تو لوگ یہی سمجھتے رہتے کہ باپ بے چارہ کما کماکر مرگیا اور باپ کے ٹکڑوں پر پلنے والی اولاد نے خود کو بھی تباہ کیا اور باپ کو بھی بدنام کیا۔
ہمارے معاشرے میں ہر طرف ایسی بیسیوں کہانیاں بکھری ہوئی ہیں۔ آپ کو اپنے قریب ترین ماحول میں ایسے متعدد گھرانے ملیں گے جن کے کمانے والوں نے صرف کمانے پر توجہ دی اور گھرانے برباد ہوگئے۔ گھرکے کفیل کا کام صرف کمانا نہیں بلکہ بیوی اور بچوں سمیت تمام متعلقین پر متوجہ رہنا بھی ہے۔ بچوں کی تربیت کی اصل ذمہ داری ماں کی ہوتی ہے کیونکہ گھر اُسی کے کنٹرول میں ہوتا ہے؛ تاہم باپ اِس معاملے سے مکمل طور پر لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ وہ اگر محض ''اے ٹی ایم‘‘ بن کر رہ جائے تو گھر کو برباد ہونے سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ یہ سوچ بالکل بے بنیاد ہے کہ مرد کا کام صرف کمانا اور بیوی کا کام گھر چلانا اور بچوں کی تربیت کا خیال رکھنا ہے۔ کمانے والوں کو اپنی کمائی کا حساب بھی رکھنا چاہیے تاکہ زیرِ کفالت افراد کو اندازہ ہو کہ جو کچھ بھی وہ کر رہے ہیں اُس پر نظر رکھی جارہی ہے۔
اولاد کو والدین سے بھرپور توجہ درکار ہوتی ہے۔ یاد رہے بچوں کو توجہ والدین سے درکار ہوتی ہے‘ محض والدہ سے نہیں۔ والدہ چونکہ گھر تک محدود رہتی ہیں اِس لیے اُن کے پاس تو اولاد کے لیے وقت ہوتا ہی ہے، سوال یہ ہے کہ والد کے پاس بھی اولاد کے لیے وقت ہے یا نہیں۔ کسی بھی گھر کے bread-winner یعنی کمانے والے فرد کے ذہن میں یہ بے بنیاد اور لاحاصل تصور گھر کیے رہتا ہے کہ کماکر وہ اپنی ذمہ داری پوری کرچکا، اب باقی کام خاتونِ خانہ کا ہے۔ یہ تصور ذہن سے جھٹک دینے کی ضرورت ہے۔ گھر کی خواتین کی ذمہ داری بھی کم نہیں۔ وہ بھی اپنے حصے کا کام کرتی ہی ہیں۔ گھر کی کفالت کے لیے معاشی کردار ادا کرنے والے کو بھی بچوں کی تربیت کے حوالے سے اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے۔ بچوں کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنا ماں اور باپ‘ دونوں کا برابر کا فرض ہے۔ بچوں کو اچھا کھانا بھی چاہیے اور اچھے کپڑے بھی۔ دیگر سہولتیں بھی وہ چاہتے ہیں؛ تاہم اُنہیں سب سے بڑھ کر توجہ درکار ہوتی ہے۔ توجہ یعنی وقت! اگر باپ وقت نہ دے تو بچے ادھورا پن محسوس کرتے ہیں۔ باپ کو صرف وقت نہیں دینا ہے بلکہ بھرپور توجہ کے ساتھ وقت دینا ہے تاکہ پڑھنے لکھنے میں بھی بچوں کا دل لگے اور وہ عملی زندگی کے لیے خود کو ڈھنگ سے تیار کرنے کے معاملے میں بھی سنجیدہ ہوسکیں۔
ہمارے معاشرے کی بدنصیبی یہ ہے کہ ایک طرف تو مرد کمانے کی ذمہ داری ہی سے نجات نہیں پارہے یعنی اِتنا وقت نہیں بچتا کہ اہلِ خانہ پو متوجہ ہوں اور دوسری طرف زیادہ کما پانے کی صورت میں بھی مرد یہ سمجھتے ہیں کہ بہت کماکر اور اُس میں سے گھر والوں پر بہت خرچ کرکے اُنہوں نے حق ادا کردیا۔ فی زمانہ بچوں کو زیادہ توجہ درکار ہے۔ اگر اُنہیں والدین سے بھرپور توجہ نہ مل پائے تو سوشل میڈیا کا آپشن موجود ہے مگر یہ آپشن اُن کی زندگی میں ناقابلِ تلافی عدم توازن پیدا کر رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں