ہمارے شعرا بھی کبھی کبھی غضب ہی ڈھا دیتے ہیں۔ وہ ایسے ایسے ''نکات‘‘ بیان کر جاتے ہیں کہ انسان سوچتا رہ جاتا ہے کہ داد دے یا نہ دے اور اگر دے تو کس طور دے۔ ہمارے کلاسیکی شعرا نے ایسے ایسے مضامین باندھے ہیں کہ اب سوچئے، اُن پر غور کیجیے تو حیرت ہوتی ہے کہ اُن کے پاس واقعی کیا قیامت خیز فرصت تھی اور وہ کس بھرپور انداز سے وہ سب کچھ بیان کر جاتے تھے جو ذہن کے پردے پر ابھرتا تھا۔
زندگی کیا ہے‘ اِس کے تقاضے کیا ہیں اور اُن تقاضوں کو نبھانے کے معاملے میں انسان کو کیسی طرزِ فکر و عمل اختیار کرنی چاہیے اس حوالے سے ہمارے شعرا نے بہت کچھ کہا ہے۔ ہاں‘ بیشتر کا لہجہ خاصا مضمحل بلکہ قدرے پژمردہ سا رہا ہے۔ حالات کی سنگینی کو انسان جس قدر محسوس کرتا ہے اُسی قدر اُلجھتا ہے اور اس مرحلے میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ ہم جس دور کی بات کر رہے ہیں تب وقت ہی وقت تھا۔ زندگی انتہائی پُرسکون بلکہ رُکی ہوئی سی تھی۔ کسی بھی معاملے میں تیزی نہ تھی تو عوام یا خواص میں سے کوئی بھی تیزی کیوں اختیار کرتا؟ ایسے میں سوچنے والوں کے پاس بھی بہت وقت تھا اور وہ سوچتے ہی رہتے تھے۔ اِس سے ہٹ کر وہ کر بھی کیا سکتے تھے۔ خواجہ الطاف حسین حالیؔ کا شمار ہمارے اُن شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے انگریزی ادب بھی پڑھا اور تراجم بھی کیے۔ اُن کے ذہن کا پردہ بہت بڑا تھا اور اُس پر بہت کچھ ابھرتا تھا۔ اُمتِ مسلمہ کے عروج و زوال کی کہانی پر مشتمل اُن کی مسدّس کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اس ایک مسدس کی بنیاد پر بھی اُنہیں یاد رکھا جاسکتا ہے۔ حالیؔ نے مرزا اسداللہ خاں غالبؔ سے اپنے تعلق کی بنیاد پر یادگارِ غالبؔ بھی لکھی اور ''حیاتِ جاوید‘‘ کے زیرِ عنوان سرسید احمد خاں کے حالاتِ زندگی بھی رقم کیے۔ یہ دونوں کتابیں اُن کی شناخت کا بنیادی حوالہ ہیں۔ حالیؔ کا ایک مطلع ہے ؎
بُری یا بھلی سب گزر جائے گی
یہ کشتی یونہی پار اُتر جائے گی
بہت خوب! کتنی بڑی بات کتنی آسانی اور سادگی سے کہہ دی۔ یہاں تک تو معاملہ درست ہے مگر اِس سے آگے قدم بڑھائیے تو کچھ اور ہی بات سامنے آتی ہے۔ شعرا ایسا بہت کچھ کہتے ہیں جو ہمیں بہت اچھا لگتا ہے مگر سوچئے تو معاملہ کچھ کا کچھ نکلتا ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ حالیؔ کا مشورہ ہے کہ جو کچھ بھی گزرنی ہے گزر ہی جائے گی اور پتوار نہ بھی چلاؤ تو یہ کشتی پار اُتر ہی جائے گی۔ یہاں کشتی زندگی ہے اور اُس پار سے مراد ہے آخرت۔ ہم چاہے جیسے بھی جئیں، اِس دنیا میں تو رہیں گے نہیں اور کسی نہ کسی طور اپنے حصے کی سانسوں کا ذخیرہ ختم ہونے پر اُس دنیا کی راہ لیں گے۔ کیا حالیؔ کی بات کو بالکل درست مانتے ہوئے اُس پر عمل بھی کرلیا جائے؟ ایسا کرنے میں کوئی نقصان تو نہیں۔ جناب، شعرا تو بہت سی باتیں اپنی طبع کی سادگی کی بنیاد پر کہہ دیتے ہیں۔ حالیؔ نے بھی اپنے ذہن کی رَو میں بہتے ہوئے ایک بات کہی ہے۔ ضروری نہیں کہ اُن کی بات جوں کی توں قبول کرلی جائے۔
عام آدمی بہت سے مواقع پر سوچتا ہے کہ جب یہ زندگی کسی نہ کسی طور ختم ہی ہو جانی ہے اور سب کا انجام موت ہے تو پھر کچھ زیادہ اور کچھ خاص کیوں کیا جائے۔ اگر ہم زندگی کی حقیقت پر غور کریں تو دنیا سے بیزاری کا تصور ذہن میں جاگزیں ہونے لگتا ہے۔ زندگی کسی کے لیے بھی آسان نہیں۔ مگر خیر‘ اِس کا مشکل ہونا بھی لازم نہیں۔ زندگی صرف اُنہیں مشکل لگتی ہے جو اپنے حصے کا غور و فکر نہیں کرتے اور اُس کی بنیاد پر عمل کی منزل سے نہیں گزرتے۔ جو لوگ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے جاتے ہیں وہ بہت کچھ سمجھتے بھی جاتے ہیں اور اُنہیں بہت کچھ آسان بھی لگتا جاتا ہے۔ اپنی اصل میں تو کہیں کوئی مشکل ہے نہ آسانی۔ ہم جس طرزِ فکر و عمل کے حامل ہوتے ہیں اُس کی بنیاد پر سب کچھ طے ہوتا ہے۔ جو لوگ بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کو تسلیم کرتے ہوئے اُن سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں۔
عام آدمی زندگی بھر سوچتا رہتا ہے کہ جب سب کا یکساں انجام ہونا ہے یعنی ایک دن قبر ہی ٹھکانہ بنے گی تو پھر کچھ زیادہ سوچنے اور زیادہ کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ یہ سوچ اِس لیے پروان چڑھتی ہے کہ ماحول کی مجموعی کیفیت اُسے ایسا سوچنے پر اُکساتی رہتی ہے۔ کون ہے جو آسانی نہیں چاہتا؟ کون اس بات کا خواہش مند نہیں ہوتا کہ بہت کچھ بیٹھے بٹھائے، ہاتھ پیر ہلائے بغیر مل جائے؟ زندگی اِس خواہش کا احترام نہیں کرتی۔ وہ سب کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھتی ہے۔ بُری بھی گزر جائے گی اور بھلی بھی گزر ہی جائے گی مگر جو کچھ بھی گزرے گی وہ یاد رہے گی۔ ہم گزرے ہوئے زمانوں کے ریکارڈ سے جان پاتے ہیں کہ کس نے کون سے کارنامے انجام دیے اور کس نے زندگی جیسی نعمت کو یونہی ضائع کردیا۔ آپ نے ارسطو‘ افلاطون‘ سقراط‘ فیثا غورث اور دوسرے بہت سے فلاسفہ کے نام سنے ہوں گے اور اُن کے کارناموں سے بھی واقف ہوں گے۔ اگر کارنامے نہ ہوتے تو آپ کیا، کوئی بھی اُن کا نام نہ جانتا۔ یونان اور باقی دنیا کے اہلِ علم و فن کو تو ہم اچھی طرح جانتے ہیں مگر اُن ادوار کے کاروباری افراد کو بالکل نہیں جانتے۔ جن ادوار میں یہ اہلِ علم واقع ہوئے تب بیسیوں پیشوں سے وابستہ افراد بھی تو واقع ہوئے ہوں گے۔ آپ اُنہیں جانتے ہیں؟ کوئی بھی نہیں جانتا۔ جہاں سقراط رہتا تھا وہیں قریب ہی کچھ مال دار لوگ بھی تو رہتے ہوں گے۔ آج اُنہیں کون جانتا ہے؟ اُن کا تاریخ کے ریکارڈ میں خفیف کا بھی تذکرہ نہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ انہوں نے خالص عمومی انداز کی، حیوانی سطح کی زندگی بسر کی تھی۔ جنہوں نے بہت سوچا، جو سوچا اُسے عملی جامہ پہنایا اُنہوں نے اِس دنیا کو بہت کچھ دیا، اِس کے حسن میں اضافہ کیا، ایسا ترکہ چھوڑا جو بہت سوں کے کام آیا۔ علم کے خزانے چھوڑنے والوں نے ایک دنیا کو زندگی کا معیار بلند کرنے میں سہولت بخشی۔
سب کا انجام یکساں ہے۔ انجام کا یکساں ہونا صرف اِس معنی میں ہے کہ سب اپنے حصے کی سانسیں پوری کرکے یہاں سے چلے جائیں گے۔ زندگی کی کشتی، ظاہر ہے کہ، اُس پار اُتر ہی جائے گی مگر محض اِس تصور کی بنیاد پر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جنہوں نے کچھ نہیں کیا وہ اُن کے برابر ہیں جو بہت کچھ کرکے یہاں سے گئے۔ صرف اُسے یاد رکھا جائے گا جو اِس دنیا کو کچھ دے کر جائے گا۔ خالص بے ذہنی اور بے عملی کے ساتھ جینے والوں کے جانے کا ماتم کوئی نہیں کرتا۔ ایسے لوگوں کے لیے کون رونا پسند کرے گا؟ زر و جواہر چھوڑ کر جانے والوں کو بھی یاد کرکے لوگ روتے ہیں مگر ایک خاص حد تک۔ کمی صرف اُن کی محسوس ہوتی ہے جو اپنے علم و فن سے اِس دنیا کو مزین کرکے رخصت ہوتے ہیں۔ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ روئے ارض پر عطا کی جانے والی سانسیں محض گنتی پوری کرنے اور یہاں سے رختِ سفر باندھنے کے لیے نہیں ہیں۔ ان سانسوں کا حساب لیا جانا ہے۔ ہم سے پوچھا جائے گا کہ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے کیا کِیا۔ زندگی جیسی نعمت خالص حیوانی سطح پر ضائع کرنے کے لیے ہرگز نہیں۔ اِسے زیادہ سے زیادہ کارآمد بنانا ہمارا فرض ہے تاکہ ہم اچھی طرح جئیں اور دوسروں کے لیے بھی مفید ثابت ہوں۔
ہر دور کے اہلِ علم و فن نے یہ سکھانے کی کوشش کی ہے کہ زندگی کو زیادہ سے زیادہ بامقصد اور بامعنی ہونا چاہیے۔ اگر کوئی چاہتا ہے کہ لوگ اُس کا احترام کریں، اُسے اچھے لفظوں میں یاد رکھیں تو ناگزیر ہے کہ وہ زندگی کو زیادہ سے زیادہ کارآمد اور مفید بنانے پر متوجہ ہو۔ اِس دنیا سے جانا تو سبھی کا مقدر ہے مگر یہاں اپنی شناخت چھوڑ کر جانا سب کے مقدر میں نہیں لکھا گیا۔ وہی یاد رہتا ہے جو کچھ فرق پیدا کرکے رخصت ہوتا ہے اور کچھ بھلا کرنے کی صورت ہی میں حقیقی فرق پیدا ہوتا ہے۔ زندگی کو بامقصد‘ بامعنی اور مفید بنانا ہر انسان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ آخرت پر یقین نہ رکھنے والے بھی اِس ذمہ داری کو تسلیم کرتے ہیں۔