انسان کے مزاج کی پیچیدگیاں پرت در پرت ہیں۔ پرتیں اتارتے رہیے اور کچھ اندازہ ہی نہیں ہو پائے گا کہ مزید کتنی پرتیں اتارنی ہیں۔ کسی بھی انسان کے مزاج کے بارے میں پورے یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کب کون سی روش اختیار کرے گا، کس منزل کی طرف بڑھے گا۔ پل میں تولہ، پل میں ماشہ۔ کوئی لاکھ اندازے لگائے، کچھ بھی سوچ لے، کسی بھی نتیجے تک پہنچ جائے، حتمی تجزیے کے طور پر کسی بھی انسان کے بارے میں پورے یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ ہر دور کے انسان نے ماحول اور وقت کے فطری تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جینے کی کوشش کی ہے اور اِس راہ پر چلتے ہوئے ٹھوکریں بھی بہت کھائی ہیں۔ ہاں‘ سبق سیکھنے کی کوشش کم کی گئی ہے۔ یہ اِتنی عجیب بات ہے کہ جس نے بارہا ٹھوکریں کھائی ہوں وہ بھی آسانی سے قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا! آج بھی یہی معاملہ ہے۔
ہم روز سوچتے ہیں اور روز ہی بات بھول جاتے ہیں کہ آج کی دنیا بہت پیچیدہ ہے۔ گزرے ہوئے تمام ادوار میں جو کچھ سوچا گیا وہ سب ہمارے سامنے ہے۔ ہر عہد کی دانائی کو الگ شناخت کیا جاسکتا ہے۔ دنیا کو بہتر بنانے کی جتنی بھی کوششیں کی گئی ہیں ہم آج ان کا بھرپور جائزہ لے سکتے ہیں، تجزیہ کرسکتے ہیں، نتائج اخذ کرسکتے ہیں۔ معاملہ صرف مثبت معاملات تک محدود نہیں۔ انسان نے زندگی کو آسان بنانے کے لیے جو کچھ سوچا اور کیا وہ تو ہم دیکھ ہی سکتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ گزرے ہوئے تمام ادوار میں انسان نے جو کچھ بھی غلط کیا اُس کا ریکارڈ بھی ہمارے سامنے ہے۔ تمام ادوار کی الجھنیں بھی ایک پلیٹ فارم پر‘ ایک پیج پر جمع ہوکر ہمارے سامنے کھڑی ہیں۔
زندگی اِتنی الجھنوں سے ''آراستہ‘‘ کبھی نہ تھی۔ روئے زمین پر بسنے والوں کو ایسے ادوار بھی ملے ہیں جب زندگی میں سادگی نمایاں تھی۔ جب سادگی تھی تب آسانی بھی تھی، سکون بھی تھا، استحکامِ فکر و نظر بھی تھا۔ اِس حقیقت سے وہی انکارکرسکتے ہیں جن میں بالغ نظری صفر کے مساوی ہو کہ آج کے انسان کو تقدیر نے غیر معمولی اور بعض معاملات میں لاینحل قسم کی الجھنوں سے دوچار کیا ہے۔ آج ہمیں جس نوع کی نفسی الجھنوں کا سامنا ہے اُن سے بچ نکلنے کی ہر کوشش غیر معمولی دانائی اور تحمل کی طالب ہے مگر ہم ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اِس کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں۔
آج کے انسان کو بہت کچھ درکار ہے۔ مادّی سطح پر تو بہت کچھ مل چکا ہے۔ اس معاملے میں وہ بہتات کا شکار ہے۔ یہ بھی پیچیدگی ہی ہے۔ کسی کو کھانے کے لیے کچھ درکار ہو اور بہت کچھ مل جائے تو؟ ایسے میں وہ زیادہ کھا لیتا ہے اور پھر اُس کا خمیازہ بھی بھگتتا ہے۔ یہی معاملہ مادّہ پرست ذہنیت کا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس معاملے میں انسان شدید بسیار خوری کا شکار ہے۔ وہ محض پانا نہیں چاہتا بلکہ سب کچھ پانا چاہتا ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ مختلف اشیا سے گھر بھرلیتے ہی مگر اُن اشیا کو بروئے کار لانے یعنی اُن سے مستفید ہوتے ہوئے زندگی کو آسان بنانے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔ انسان معاشرے میں رہتا ہے یعنی دوسروں سے میل جول رکھے بغیر وہ ڈھنگ سے جی نہیں سکتا۔ مل جل کر رہنے کا مطلب ہے کچھ لو اور کچھ دو۔ کسی کی مدد کرنی ہے اور کسی سے مدد لینی ہے۔ یہ معاملہ صرف اور صرف تحمل کا متقاضی ہے۔ تحمل کے بغیر ہم دو قدم بھی ڈھنگ سے نہیں چل سکتے۔ کون سا معاملہ ہے جو ہم سے تحمل کا تقاضا نہیں کرتا؟
فی زمانہ معاشی الجھنوں نے غیر معمولی شدت اختیار کرکے باقی تمام معاملات کو بھی بُری طرح الجھادیا ہے۔ ہر دور کے انسان نے معاشی معاملات کو درست رکھنے کی خاطر کیا بھی بہت کچھ ہے اور کھویا بھی بہت کچھ ہے۔ یہ بات افسوسناک تو ہے مگر عجیب نہیں کہ انسان اپنی معاشی مشکلات دور کرنے کی تگ و دَو میں دوسری بہت سی مشکلات بڑھالیتا ہے۔ انسان ہمیشہ سے ایسا ہی واقع ہوا ہے۔ اُس نے ہمیشہ آسانیوں کی تلاش میں مشکلات ہی ڈھونڈ نکالی ہیں۔ ستم ظریفی بلکہ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ مشکلات کا بھی کریڈٹ لیا جاتا رہا ہے۔
انسان کا ایک بنیادی المیہ یہ بھی رہا کہ اُس نے بہت کچھ پانے کی کوشش میں ہمیشہ اپنی نجی یا گھریلو زندگی کو داؤ پر لگایا ہے۔ آج کی گھریلو زندگی بھی بہت زیادہ بکھری ہوئی ہے۔ نفسی پیچیدگیوں نے تو جیسے ہمارے گھروں کی راہ دیکھ لی ہے۔ نفسی الجھنیں بھی ایسی ہیں کہ کبھی کبھی تو اُن میں مبتلا انسان محض دیکھتا اور سوچتا ہی رہ جاتا ہے۔ انتہائی درجے کی بے صبری کے ساتھ جینا آج کے انسان کی ایک بنیادی خصوصیت بن چکی ہے۔ لوگ بھول بھال گئے ہیں کہ بالغ نظری کس چڑیا کا نام ہے اور یہ کن فضاؤں میں محوِ پرواز رہتی ہے۔ بات بات پر شعلے کی طرح بھڑک اٹھنا انتہائی عمومی رویہ ہوکر رہ گیا ہے۔ تھوڑا سا غور و فکر بھی انسان کے لیے بہت ہوا کرتا ہے۔ آج تو معاملہ یہ ہے کہ محسوس کرنے اور سوچنے والے دور سے پہچانے جاتے ہیں۔ احساس اور ادراک کی دولت اِس قدر کمیاب ہے کہ جو لوگ اپنی، اپنے متعلقین اور ماحول میں موجود لوگوں کی زندگی کے بارے میں تھوڑا بہت احساس رکھتے ہیں‘ سوچتے ہیں وہ بھیڑ سے الگ ہی دکھائی دیتے ہیں۔
اب اِس سے بڑا المیہ کیا ہوسکتا ہے کہ انسان کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے اُسی کو نظر انداز کرنے کی روش قیامت خیز حد تک عام ہے۔ ہمارے تمام معاملات تحمل کی راہ پر چلنے کے تقاضے سے شروع ہوکر اِسی تقاضے پر ختم ہوتے ہیں۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ لوگ زندگی جیسی نعمت کو تحمل سے گریز کی نذر کردیتے ہیں اور کبھی اِس پر شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔ کم و بیش تمام گھریلو جھگڑوں کا بنیادی سبب ہے تحمل کا نہ ہونا۔ بدمزاجی انسان کو تحمل سے دور لے جاتی ہے۔ تحمل یعنی ایک دوسرے کو برداشت کرنا۔ معاملہ میاں بیوی کا ہو، بھائیوں بہنوں کے مابین ہو، اولاد اور والدین کے درمیان کا، یا پھر افسرِ بالا اور ماتحت کام کرنے والوں کا‘ ہر معاملے میں تحمل بنیادی شرط ہے۔ تمام رشتے اور تمام تعلقات تحمل کی مٹی ہی میں جڑ پکڑتے ہیں۔ ہم آئے دن ایسے واقعات کے بارے میں سنتے ہیں جن کا کوئی سر پیر دکھائی نہیں دیتا۔ اگر معاملہ بہت بڑا ہو تو انسان سوچتا ہے کہ لڑنے جھگڑنے میں کچھ حرج نہ تھا۔ لاکھوں کا جھگڑا ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ یہاں تو لوگوں نے دو‘ چار سو روپے ک لیے بھی لڑنا اور ایک دوسرے کو موت کے گھاٹ اتارنا شروع کردیا ہے۔ تحمل کے بغیر جینے کا یہی نتیجہ برآمد ہوا کرتا ہے۔
بعض یومیہ گھریلو سرگرمیاں بھی اب انسان سے کھلواڑ کرنے لگی ہیں۔ بعض چھوٹی سی کوتاہیوں یا غلطیوں پر مشتعل ہو اُٹھنا بھی لوگوں نے بنیادی وتیرہ بنالیا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی لوگ الجھے ہوئے ہیں مگر اُن میں بہت سے حوالوں سے سنجیدگی اور تحمل کی سطح خاصی بلند ہے۔ ترقی پذیر اور پسماندہ معاشروں کی الجھنیں برقرار ہیں۔ چند دن قبل خبر آئی کہ بھارت کی ریاست اُتر پردیش کے ضلع غازی آباد میں ایک معمر شخص نے صبح کے وقت چائے بنانے پر تکرار کے دوران بیوی کی گردن اُڑادی۔ دھرم ویر نے جب اپنی بیوی سے کہا کہ چائے بنادے تو اُس نے جواب میں کہا کہ چائے تھوڑی بہت دیر بعد بن سکے گی اور اگر جلدی ہے تو وہ خود بنالو۔ یہ تو گویا دھرم ویر شان میں گستاخی ہوگئی۔ تُو تُو میں میں ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے دھرم ویرآگ بگولا ہوگیا۔ شدید طیش کے عالم میں اس نے گھر میں رکھا ہوا تلوار نما ہتھیار تھاما اور اپنی بیوی کی گردن پر چار وار کیے۔ بیوی کیا مزاحمت کرتی، پلک جھپکتے میں وہ اِس دارِ فانی سے رخصت ہوگئی۔
ایسے ہی بہت سے قصے ہمارے ہاں بھی ہوتے ہیں۔ ہم بھی تو اِسی خطے کی ''روایات‘‘ کے امین ہیں۔ معمولی سے بات پر لڑ جھگڑ کر زندگی جیسی نعمت کو داؤ پر لگانا پرلے درجے کی جہالت ہے۔ جن معاملات پر برائے نام قسم کی لڑائی بھی نہیں ہونی چاہیے اُنہی معاملات کی چوکھٹ پر ہم زندگی کو قربان کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ زندگی یقینا اِتنی بے وقعت نہیں کہ محض ایک پیالی چائے کی نذر کر دی جائے!