ٹیکنالوجیز نے ایک طرف پسماندہ ممالک کا نام میں دم کر رکھا ہے اور دوسری طرف ٹیکنالوجیز ہی کی بدولت نئے، پُرکشش اور روشن تر امکانات کی دنیا آباد ہوئی جارہی ہے۔ ٹیکنالوجیز نے بہت سے شعبوں کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا انتہائی مشکل بنادیا ہے۔ کئی شعبوں میں بے روزگاری اِتنی تیزی سے پھیلی ہے کہ اُن کا وجود ہی خطرے میں پڑگیا ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کے باعث کئی معاشرے شدید پریشانی کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کے لیے عوام کو کم ترین معیارِ زندگی کے ساتھ زندہ رہنے میں مدد دینا بھی دشوار ہوگیا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں نے صدیوں کے عمل میں اپنے لیے ایسی بحرانی کیفیت سے تحفظ یقینی بنانے کا سامان کرلیا تھا۔ امریکہ اور یورپ میں بھی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں؛ تاہم اِن تبدیلیوں کے نتیجے میں زندگی کا تیا پانچا نہیں ہو رہا۔ یورپ نے اس معاملے میں غیر معمولی ذہانت کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ یورپ کی منصوبہ سازی نے اُسے مقابلے کے قابل رہنے میں خاصی مدد دی ہے۔ امریکہ اور خطے کے دیگر ترقی یافتہ ممالک نے اپنی ترقی برقرار رکھنے اور خوشحال زندگی کا معیار مزید بلند کرنے کیلئے جو منصوبہ سازی کی اُس کے مظاہر اب ہمارے سامنے ہیں۔ یورپ کے علاوہ اب امریکہ و کینیڈا کو بھی بڑے پیمانے پر تعلیم و تربیت یافتہ افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور امریکہ میں غیر ملکیوں کو افرادی قوت کا حصہ بنانے کے عمل میں اب وزٹ ٹورسٹ یا سٹوڈنٹ ویزے پر آنے والوں کو بھی ورک پرمٹ جاری کرنے کے اعلانات کیے جارہے ہیں۔ ایشیا میں متعدد معاشروں نے اپنے آپ کو جاب مارکیٹ کیلئے خاصی محنت سے تیار کیا ہے۔ بھارت، بنگلہ دیش، میانمار، فلپائن اور تھائی لینڈ وغیرہ اِس کی واضح مثال ہیں۔ بھارتی حکومت بیرونِ ملک کام کرنے والے بھارتی باشندوں کو غیر مقیم بھارتی (NRI) کہتی ہے۔ ملک بھر میں این آر آئیز کا غیر معمولی احترام کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں سوا کروڑ سے زائد بھارتی باشندے افرادی قوت کا حصہ بن کر اپنے ملک کے لیے خطیر زرِ مبادلہ کا اہتمام کر رہے ہیں۔ حکومت ایسے اداروں کی خصوصی سرپرستی کرتی ہے جو بیرونِ ملک خدمات انجام دینے کیلئے معیاری افرادی قوت تیار کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی، بزنس، کال سنٹر، ٹیوشن، آڈٹ اور دوسرے بہت سے شعبوں میں بھارت کے اعلیٰ تربیت یافتہ نالج ورکرز پُرکشش پیکیجز پر کام کر رہے ہیں۔
بنگلہ دیش، فلپائن، تھائی لینڈ اور مشرقی ایشیا کے کچھ ممالک بھی بڑے پیمانے پر خلیجی ممالک میں افرادی قوت برآمد کرکے اپنی اپنی معیشتوں کو مستحکم کر رہے ہیں۔ ایسے میں یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کہ ہمارے ہاں اب تک اس شعبے کو پروان چڑھانے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ پاکستان میں باصلاحیت نوجوانوں کی تعداد کم ہے نہ صلاحیت۔ ہر شعبے میں غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل نوجوان اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ ہمارے نوجوان غیر معمولی جوش و خروش کے حامل ہیں۔ وہ اپنے طور پر بہت کچھ سیکھ لیتے ہیں۔ تعلیم کی کمی کو وہ تربیت کے ذریعے پورا کرتے ہیں۔ ہائی ٹیک میں بھی ہمارے نوجوان غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ہم بالعموم اس حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ ہماری نئی نسل اپنے وسائل اور اپنی کوششوں کے ذریعے بیرونِ ملک جاکر مختلف شعبوں میں اپنے آپ کو اس طور منواتی ہے کہ دنیا دیکھتی رہ جاتی ہے۔ دنیا کو کچھ اندازہ نہیں کہ ہمارے نوجوان بیرونِ ملک جو کچھ بھی کرتے ہیں اپنے بل بوتے پر کرتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے اُن کی موزوں تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے نہ پُرکشش امکانات والی ملازمتیں تلاش کرنے میں اُن کی معاونت کی جاتی ہے۔ ٹیکنالوجیز میں غیر معمولی پیشرفت نے بہت سے پسماندہ ممالک کے لاکھوں نوجوانوں کو گھر بیٹھے کام کرنے کی بھی سہولت فراہم کردی ہے۔ آن لائن اور ہوم بیسڈ ورک کا کلچر پوری دنیا میں عام ہوچکا ہے مگر ہمارے ہاں یہ کلچر اب تک پروان نہیں چڑھایا جاسکا۔ حکومت نے اس طرف متوجہ ہونے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ بہت سے پسماندہ ممالک کی معیشتیں ترسیلاتِ زر کی بدولت کسی نہ کسی حد تک توانا رہ پاتی ہیں۔ بھارت اس ضمن میں ایک بڑی مثال ہے۔
پاکستان میں تعلیمی اداروں کو جدید ترین طریقِ تعلیم کا حامل بنانے پر فوری توجہ دینا لازم ہوچکا ہے۔ دنیا بھر میں حکومتیں چاہتی ہیں کہ تعلیم کا شعبہ افرادی قوت کی برآمد میں کلیدی کردار ادا کرے۔ یہی سبب ہے کہ افرادی قوت کی تیاری کے معاملے میں نئی نسل کو خاصی چھوٹی عمر سے تیار کرنے کا عمل شروع کردیا جاتا ہے۔ دانشمندی ایسی ہی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں کسی حکومت نے افرادی قوت کی برآمد میں کلیدی کردار ادا کرنے کے حوالے سے خاطر خواہ حد تک نہیں سوچا۔ اِس کا نتیجہ بھی سامنے ہے۔ ہمارے بیشتر نوجوان بیرونِ ملک اپنے وسائل اور اپنے طریقے سے جاتے ہیں۔ غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش میں ہر سال ہزاروں نوجوان خطیر رقوم سے بھی محروم ہو جاتے ہیں اور بعض معاملات میں تو جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ایسے واقعات آئے روز سامنے آتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں بھارت کے سپر سٹار شاہ رخ خان کی فلم ''ڈنکی‘‘ ریلیز ہوئی جس میں غیر قانونی طور پر وطن سے باہر جاکر معاشی امکانات تلاش کرنے والوں کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ ہمارے ہاں بالائی اور جنوبی پنجاب میں کسی نہ کسی طور بیرونِ ملک جاکر خوب کمانے کے خواہش مند نوجوانوں کی تعداد غیر معمولی ہے۔
جو لوگ بیرونِ ملک آباد ہونے کے بعد اپنے اہلِ خانہ کو خطیر رقوم بھیجتے ہیں اُن جیسا بننے کے چکر میں لاکھوں نوجوان اپنے وطن میں کچھ کرنے کا ذہن تک نہیں بنا پاتے۔ بیرونِ ملک سے آنے والی کمائی کے بل پر خاصی خوش حال زندگی بسر کرنے والوں کو دیکھ کر نئی نسل بہت متاثر ہوتی ہے اور اپنے ہاں کچھ کرنے کے بجائے بیرونِ ملک جانے کا سوچتی رہتی ہے۔ کیا یہ سوچ درست ہے؟ کسی بھی اعتبار سے درست نہیں! بیرونِ ملک جاکر خوب کمانے کی خواہش بُری نہیں مگر اس خواہش ہاتھوں اپنے پورے وجود کو گروی رکھ دینا کسی بھی درجے میں پسندیدہ عمل نہیں۔ جب تک بیرونِ ملک جانے کا انتظام نہ ہو پائے تب تک انسان کو اپنے وطن میں خوب دل لگاکر کام کرنا چاہیے۔
بات ہو رہی تھی حکومت کی طرف سے عدم توجہ کی جس کے نتیجے میں پاکستان کے لیے افرادی قوت بڑے پیمانے پر برآمد کرنا ممکن نہیں ہو پارہا۔ ہمارے ہاں حکومت کو اس حوالے سے محض بیدار نہیں ہونا بلکہ بیدار مغزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ ایسا کرنا ہے جس کے نتیجے میں قومی معیشت کے استحکام کی راہ واقع ہموار ہو۔ ہمارے لیے اشیا کی برآمد بڑھانا تو اب ممکن نہیں رہا۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ ہم معیاری افرادی قوت کی برآمد بڑھانے پر متوجہ ہوں۔ کینیڈا سے آسٹریلیا تک درجنوں ترقی یافتہ معاشرے معیاری افرادی قوت درآمد کرنے کے حوالے سے سنجیدہ ہیں۔ حکومتیں رعایتوں کا اعلان کر رہی ہیں۔ ٹورسٹ، وزٹ اور سٹوڈنٹ ویزا پر آنے والوں کو بھی ورک پرمٹ دینے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا کے دوران ہونے والی معاشی تباہی کے بعد یہ اچھی خبر ہے۔ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کو اپنی اپنی معیشت بہتر بنانے کے لیے اس سنہرے موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ نئی حکومت کو اس حوالے سے کام کرنے کی تحریک دی جانی چاہیے۔ نئی حکومت بھی چاہے گی کہ معیشت کو مستحکم کرنے کی کوئی راہ آسانی سے نکلے۔ ایسے میں معیاری افرادی قوت کی برآمد بڑھانے کے اس شاندار موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔
والدین کے علاوہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی بھی نوجوانوں کی راہ نمائی کریں، اُنہیں بتائیں کہ بیرونِ ملک کام کرنا کیا ہوتا ہے اور وہاں کس حد تک اپنے آپ کو کام میں کھپانا پڑتا ہے۔ کسی بھی نوجوان کو خوش فہمیوں کے ساتھ بیرونِ ملک نہیں جانا چاہیے بلکہ حقیقت پسندی کے ساتھ وطن سے رخصت ہونا چاہیے تاکہ وہاں مشکلات کا ڈٹ کر سامنا کرسکے۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ بیرونِ ملک قدم قدم پر محض آسانیاں نہیں ہوتیں۔