"MAK" (space) message & send to 7575

پاکستان کی برکس میں شمولیت کی درخواست …(2)

پاکستان کی طرف سے دنیا کی پانچ بڑی اور اُبھرتی ہوئی معیشتوں کی تنظیم برکس میں شمولیت کی درخواست کے بعد یہ توقع کی جا رہی ہے کہ برکس فورم پاکستانی درخواست پر مثبت پیش رفت کرے گا۔ برکس ویسے تو پانچ رکنی اتحاد ہے جس کا کوئی سیاسی‘ معاشی یا اقتصادی ایجنڈا نہیں لیکن یہ بھی طے شدہ حقیقت ہے کہ برکس ڈالر کے مقابلے میں نئی مشترکہ کرنسی بناسکتا ہے‘ ورلڈ بینک کے مقابل کوئی بینک کھڑا کرسکتا ہے جبکہ یہ آئی ایم ایف کی طرز پر قرض دینے والا کوئی ادارہ بھی بنا سکتا ہے۔برکس اتحاد 2015ء میں نیو ڈیویلپمنٹ بینک نامی ایک کثیر الجہتی ترقیاتی بینک قائم کر چکا ہے جس کا مقصد اُبھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر ممالک میں بنیادی ڈھانچے اور پائیدار ترقیاتی منصوبوں کے لیے وسائل کو متحرک کرنا ہے۔
رواں برس 22تا 24اگست تک جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں ہونے والے برکس کے سالانہ سربراہی اجلاس میں اس تنظیم میں توسیع کا فیصلہ کیا گیا تھا جس مقصد کے لیے اس سربراہی اجلاس میں ''برکس توسیعی عمل کے رہنما اصولوں‘ معیارات‘ معیار اور طریقہ کار‘‘ پر اتفاق کیا گیا۔ اس اجلاس کے ایجنڈے کے دیگر مسائل میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا‘ ترقی پذیر ممالک میں تجارت‘ سرمایہ کاری کے مواقع اور جدت کو بڑھانا اور عالمی گورننس کے نظام میں اصلاحات متعارف کرانا شامل تھا تاکہ ترقی پذیر ممالک کو زیادہ اہمیت دی جا سکے۔اس اجلاس کے بعد برکس اور ایشیا کے لیے جنوبی افریقہ کے سفیر Anil Sooklalکا کہنا تھاکہ 22ممالک نے برکس میں شمولیت کے لیے باضابطہ طور پر درخواست دے رکھی ہے اور تقریباً اتنے ہی ممالک نے اس اتحاد میں شامل ہونے میں دلچسپی ظاہر کی ہے جن میں ایران‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ ارجنٹائن‘ الجزائر‘ بولیویا‘ انڈونیشیا‘ مصر‘ ایتھوپیا‘ کیوبا اور قازقستان شامل ہیں۔ برکس میں شمولیت کے خواہاں ممالک کی فہرست دیکھ کر یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ طاقت کا توازن اب امریکہ اور مغرب سے ہٹ رہا ہے اور زیادہ ترقی پذیر ممالک برکس کے ممبر ممالک کو طاقتور معیشتوں کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ برکس میں توسیع کے فیصلے کے بعد پہلے مرحلے میں ارجنٹائن‘ مصر‘ ایتھوپیا‘ متحدہ عرب امارات‘ سعودی عرب اور ایران کو جنوری 2024ء تک برکس کا باضابطہ رکن بنا لیا جائے گا‘ اس کے بعد دیگر ممالک کی باری آئے گی۔ دوسری جانب روس اور چین کے علاوہ برکس کے باقی اراکین بالخصوص بھارت نہیں چاہتا کہ یہ تنظیم مغرب مخالف معاہدہ بن کر رہ جائے۔ برکس میں روس اور چین کی شمولیت اور ان کا فعال کردار مغربی ممالک سے ہضم نہیں ہو رہا کیونکہ مغرب کے نزدیک یہ پلیٹ فارم ان دونوں ممالک بالخصوص روس کیلئے امریکی پابندیوں کے باوجود معاشی آسانیاں پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ برکس میں شامل دیگر ممالک جنوبی افریقہ‘ برازیل اور انڈیا اس پلیٹ فارم کے حوالے سے ایسے کسی تاثر کو تقویت نہیں دینا چاہتے کہ یہ مغرب مخالف تنظیم ہے کیونکہ ان کے نزدیک امریکہ اور اس کے حامی یورپی ممالک کی مخالفت ان کی سلامتی اور خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے ۔
برکس کے حوالے سے ایک دلچسپ امر بھارت اور چین کا اس تنظیم کا ممبر ہونا ہے کیونکہ بھارت جنوبی ایشیا میں امریکی مفادات کا حامی ہونے کی وجہ سے چین کی معاشی اڑان کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے میں پیش پیش ہے۔چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو روکنے کے لیے امریکیوں نے جو کواڈ نامی اتحاد(Quadrilateral Security Dialogue) بنا رکھا ہے‘ اس کے رکن ممالک میں امریکہ‘ جاپان ‘ آسٹریلیا اور بھارت شامل ہیں۔ یعنی یہ کیسا لطیفہ ہے کہ بھارت برکس میں بھی سرگرم ہے جس میں بھارت اور چین کا بنیادی کردار ہے اور دوسری جانب بھارت چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو روکنے کے لیے بننے والے اتحاد کا حصہ بھی ہے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایسی صورتحال میں نئی دہلی نے بیجنگ کے ساتھ تعلقات میں توازن کیسے برقرار رکھا ہوا ہے؟بھارتی شہ دماغ حکمت کار کہتے ہیں کہ بھارت یہ توازن برقرار رکھنے کے لیے دو طریقے استعمال کر رہا ہے۔برکس تقریباً 14برس پرانی تنظیم ہے اور اسے دنیا میں اس کا موجودہ مقام دلانے میں بھارت اور چین دونوں نے بہت تعاون کیا ہے لیکن یہ تنظیم ایسے وقت میں قائم کی گئی تھی جب چین کا سیاسی کردار نہ ہونے کے برابر تھا اور بھارت اور چین کے تعلقات بھی اچھے تھے۔ پچھلے تین چار برسوں میں‘ بالخصوص 2020ء کے بعد چین کا علاقائی کردار بے پناہ بڑھ گیا ہے جس کے مقابلے کے لیے بھارت‘ امریکہ‘ جاپان اور آسٹریلیا نے کواڈ بنایا۔یہ اتحاد اس سے قبل 2007ء میں عمل میں آیا تھا لیکن بمشکل ایک سال ہی چل سکا‘ 2017ء میں اس کی تنظیمِ نو کی گئی۔ انڈیا کا کواڈ میں شامل ہونے کا مقصد واضح طور پر جنوبی ایشیائی خطے میں چین کی پیش قدمی روکنا تھا کیونکہ بھارت خوفزدہ تھا کہ چین خطے میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے جا رہا ہے اور بھارت کے کواڈ کا حصہ بننے کے بعد وہ اس حوالے سے توازن کا مظاہرہ کرے گا اور یہ تبھی ممکن ہے جب وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔ انڈیا کے اس اقدام کا مقصد چین کو یہ بتانا بھی تھا کہ اگر آپ تعاون نہیں کریں گے تو ہم ہر وہ کام کریں گے جسے ہم خطے میں اپنی بالا دستی قائم رکھنے کے لیے ضروری سمجھیں گے۔
برکس تنظیم اپنے قیام سے اب تک کئی سنگ میل عبور کر چکی ہے۔یہ ایک متحرک اور کواڈ سے زیادہ ترقی یافتہ ہے‘ اس لیے برکس کو آگے بڑھانا بھارت کے اپنے مفاد بھی میں ہے۔انڈیا اور چین کے درمیان تعلقات کی خرابی کے دوران برکس کے معاملات بھی متاثر ہوئے تھے لیکن یہ سب عارضی تھا۔برکس چین کے لیے اتنا اہم ہے کہ مصروف ترین چینی صدر شی جن پھنگ پچھلے پانچ برسوں سے اس کے تمام سربراہی اجلاسوں میں شریک ہو تے رہے ہیں ۔اس کے برعکس 2017ء میں کواڈ کی تنظیم نو کے بعد‘ رواں برس اس کی پہلی سربراہ کانفرنس ہوگی۔بھارت چین کا ہمسایہ بھی ہے اور دونوں ممالک کے درمیان 4500کلومیٹر کی مشترکہ سرحد ہے۔ چین کے بارے میں بھارت کی پالیسی میں ان چیزوں کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما سبرامنیم سوامی نے اسی تناظر میں تجویز پیش کی تھی کہ بھارت کا جھکاؤ کواڈ کے بجائے برکس کی طرف ہونا چاہیے لیکن یہ تجویز بھارت کی خارجہ پالیسی سے مطابقت نہیں رکھتی۔
بھارت کے وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر The India Way: Strategies for an Uncertain World نامی کتاب کے مصنف ہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے چین کے بارے میں ایک مکمل باب لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ چین کے ساتھ تعلقات کو سنبھالا جائے۔تعلقات کا سنبھالنا اور ان کا گہرا ہونا دو مختلف چیزیں ہیں۔ ان کی کتاب بھارت چین سرحدی تصادم سے پہلے شائع ہوئی تھی۔ اس تصادم سے قبل دونوں ممالک کے درمیان دوستی مضبوط دکھائی دے رہی تھی لیکن اس کے باوجود بھارتی وزیر خارجہ نے چین سے تعلقات کو سنبھالنے کی بات کی۔بھارتی وزیر خارجہ کی یہ کتاب بھارت کی خارجہ پالیسیوں کی جھلک پیش کرتی ہے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ کے شہ دماغ دعویٰ کرتے ہیں کہ کواڈ اور برکس دونوں میں بھارت کی شمولیت سے چین کے ساتھ تعلقات بگڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بھارت ہر بین الاقوامی سٹیج پر بڑی ٹیبل پر بیٹھنا چاہتا ہے۔ اور کچھ ہو یا نہ ہو‘ پاکستان کو برکس کی رکنیت ملنے سے مسئلہ کشمیر پر ایٹمی جنگ کے خدشات ٹل جائیں گے‘ کہ برکس کے رکن ممالک تعاون‘ بات چیت اور مذاکرات کرتے ہیں‘ لڑائی جھگڑا نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں