پاکستان نے پوری کوشش کی کہ بھارتی جارحیت کے جواب میں امن‘ صلح اور تحمل کا راستہ اپنایا جائے مگر جب بھارت اپنی شر انگیزیوں میں حد سے تجاوز کر گیا اور سات مئی کی رات جارحیت اور اشتعال انگیزی کا مظاہر کیا تو پاکستان نے اس کا منہ توڑ جواب دیا۔ اب جب سیز فائز ہو چکا ہے تو یہ دیکھتے ہیں کہ دونوں ملکوں نے اس تصادم سے کیا کھویا اور کیا پایا۔ بھارت نے چونکہ جنگ میں پہل کی تھی تو چلیں اُسی سے شروع کرتے ہیں۔
بھارت جو عسکری‘ فضائی اور زمینی طاقت پر غرور کرتا تھا اور اس کے دعوے یہ تھے کہ اس کے پاس جدید ٹیکنالوجی ہے‘ مضبوط ایئر ڈیفنس‘ سائبر کا بڑا نظام‘ جدید ہتھیار‘ میزائل‘ جدید طیارے‘ بہترین سفارتکاری اور میڈیا مینجمنٹ بھی ہے‘ اس چار روزہ جنگ میں بھارت کے سارے بھرم ٹوٹ گئے۔ وہ کہاں کہاں بے نقاب نہیں ہوا؟ اپنے عوام کے سامنے بھی ہزیمت اٹھائی اور دنیا میں بھی شرمسار ہوا۔ مودی سرکار سے اپنے عوام اور سیاسی مخالفین کے سوالوں کے جواب نہیں بن پا رہے۔ چند گھنٹوں میں معاشی طور پر بھارت کو تقریباً100 ارب ڈالر کا نقصان ہوا‘ رافیل طیاروں اور ایس 400 ڈیفنس سسٹم کی تباہی سے مالی نقصان کے علاوہ جگ ہنسائی بھی ہوئی۔ پوری دنیا کے سامنے بھارت کی اصلیت کھل کر سامنے آ گئی اور دنیا کے کئی بڑے اداروں نے بھارت کے ساتھ جاری معاہدوں پر نظر ثانی شروع کر دی۔ کئی عالمی ادارے‘ جو بھارت کے ساتھ کام کر کے فخر محسوس کرتے تھے‘ اب وہ اس کا ذکر کرنے سے کترا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بھارت کی پالیسی تھی کیا؟
بھارت ہمیشہ اپنے داخلی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے سرحد پار محاذ آرائی میں مصروفِ عمل رہا اور پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دینے کیلئے بھارت نے ایک بڑی رقم خرچ کی ہے۔ کبھی بلوچستان سے اسکے ایجنٹ گرفتار ہوتے رہے تو کبھی در اندازی کے نتیجے میں ابھینندن والا واقعہ ہو گیا۔ یہ وہ ملک ہے جس پر کینیڈا اور امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک بھی دہشت گردی کو سپورٹ کرنے پر سوال اُٹھا چکے ہیں۔ بھارت اس سے بچنے کیلئے پاکستان میں بدامنی پھیلاتا رہا اور پاکستان سے متعلق پروپیگنڈا کرتا رہا مگر اس بار وہ غلط کھیل بیٹھا۔ پہلگام واقعہ کو بہانہ بنا کر ‘پروپیگنڈا کے زور پر اس نے پاکستان کو دباؤ میں لانے کی اپنی سی بھرپور کوشش کی مگر ہر بار منہ کی کھائی۔ بھارت نے رات کی تاریکی میں حملہ کیا مگر پاکستان نے اس جارحیت کا دن کے اجالے میں جواب دیا ۔ شاہینوں نے بھارتی طیاروں کا پرندوں کی طرح شکار کیا اور ان کی ایئر بیسز کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ بھارت سپر پاور کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوا اور پھر جس طرح سیز فائر کروانے کیلئے منتیں کیں ایسا شاید کسی ملک نے ماضی میں نہیں کیا۔ بھارت نے اپنے ملک کی اندرونی سیاست اور ذاتی مفادات کی خاطر کئی فوجی ہلاک کرائے اور بڑا معاشی نقصان اٹھایا‘ جس سے اس کو سنبھلنے میں شاید برسوں لگ جائیں۔
بھارت کے مقابلے میں پاکستان میں سیاسی تقسیم ختم ہوئی اور اندرونی اتحاد مضبوط ہوا۔ پاکستان کا حقائق پر مبنی بیانیہ عالمی سطح پر کھلے دل سے تسلیم کیا گیا جبکہ بھارت کی جعلی خبروں اور جھوٹے بیانیے کی وجہ سے پوری دنیا میں سبکی ہوئی اوربھارت کو بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاست کے طور پر ٹیگ کیا گیا۔ مسئلہ کشمیر کو بھی ایک بار پھر سے تقویت ملی ہے۔
اب ایک نظر اس پر کہ پاکستان نے اس معرکے سے کیا پایا ہے۔ پاکستان بہادر ممالک میں سر فہرست آ گیا ہے ‘جو کھل کر اپنے دشمن کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ پاکستان سفارتی لحاظ سے بھی مضبوط ہوا ہے۔ پاکستان پر عالمی اداروں اور دوست ممالک کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کی فوجی صلاحیت پر پوری قوم کا اعتماد بڑھا ہے اور پوری دنیا کے سامنے افوا جِ پاکستان کا نظام ایک طاقتور سسٹم کے طور پر اجاگر ہوا ہے۔ پاکستان ایئر فورس کو دنیا نے 'کنگ آف سکائیز‘ مان لیا ہے۔ اس جنگ میں پاکستان نے کسی فضائی اثاثے کے نقصان کے بغیر بھارت کی وہ تباہی کی کہ 1965ء کی جنگ میں ایم ایم عالم‘ سیسل چودھری اور سرفراز رفیقی کی یاد تازہ ہو گئی۔ اس معرکے میں بھارت کے کم از کم چھ طیارے تباہ کر دیے گئے۔
پوری دنیا کے سامنے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ بھارت اسرائیل کے ساتھ مل کر شہری آبادیوں اور مساجد پر حملے کرتا رہا مگر پاکستان نے جواباً صرف بھارت کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا‘ کسی شہری ہدف کو ٹارگٹ نہیں کیا۔ پاکستان کے جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی سسٹم نے بھی اپنی صلاحیتوں کے خوب جوہر دکھائے۔ جبکہ بھارت کا گودی میڈیا ہمیشہ کی طرح جھوٹ‘ من گھڑت اور بے بنیاد خبریں چلا کر اپنے ملک کے عوام کو گمراہ کرتا رہا۔ یہاں تک کہ بھارت کے کچھ صحافی بھی اپنے میڈیا کے جھوٹ کے خلاف بول پڑے‘ لیکن پوری دنیا نے تسلیم کیا کہ پاکستانی میڈیا نے پیشہ ورانہ ذمہ داری کا ثبوت دیا۔ یہاں تک کہ پاکستانی خبروں اور پاکستان کے مؤقف کو سی این این‘ بی بی سی‘ فاکس نیوز اور الجزیرہ سمیت متعدد عالمی میڈیا نیٹ ورکس نے تسلیم کیا اور پاکستانی مؤقف کی تصدیق کی۔ اس معرکے میں بھارت کے ساتھ صرف اسرائیل کھڑا دکھائی دیا اور بعد میں مودی کے ترلے منتوں پر امریکہ نے مداخلت کی۔ زیادہ تر ممالک پاکستان کے لیے کھڑے تھے۔ چین‘ ترکیہ‘ عرب امارات اور سعودی عرب سمیت بہت سے ممالک پاکستان کے ساتھ کھڑے دکھائی دیے۔ یہاں ایک بات قابلِ ذکر ہے‘ وہ یہ کہ پاکستان نے نامساعد معاشی حالات کے باوجود بھارت‘ جس کی فوج کا سالانہ بجٹ 80 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے‘ کو چند گھنٹوں میں ڈھیر کر کے دنیا کی تاریخ میں ایک مثال قائم کر دی ہے‘ اس پر پوری قوم کو فخر ہے۔ اس بے نظیر فتح پر پاکستانی قوم جشن منانے میں حق بجانب ہے۔ پوری قوم پاک فوج پر فخر کر رہی ہے اور اس کے ساتھ کھڑی ہے۔ آج قوم میں کوئی تفریق نہیں ہے۔ سیاسی لڑائیاں ہر ملک میں ہوتی ہیں لیکن جب بات وطن کے دفاع کی آئی تو سارے اختلاف بھلا کر‘ سب یک زبان تھے۔ دشمن نے جو للکار سنی ہے یہ اس کے کانوں میں رہتی دنیا تک گونجتی رہے گی۔ ابھی وہ سکتے میں ہے مگر جب ہوش میں آئے گا تو درد بڑھتا جائے گا۔
بھارت نے دوبارہ ایسا کچھ کیا تو‘ بقول ڈی جی آئی ایس پی آر یہ تو ابھی ٹریلر تھا ابھی بہت ساری ایسی صلاحیتیں ہمارے پاس موجود ہیں جن کا استعمال نہیں کیا گیا۔ امید ہے مودی کے جنگی جنون کو افاقہ ہو گا اور شدت پسندی کو لگام پڑے گی۔ بھارت کے عوام اس سبکی کو برسوں بھلا نہیں پائیں گے۔ بھارتی وزیراعظم مودی کا اگلے روز کا خطاب بتا رہا تھا کہ وہ شدید خوف میں مبتلا ہیں۔ ان کی باڈی لینگویج اور چہرے کے تاثرات سے صاف ظاہر تھا کہ وہ شدید تناؤ اور اشتعال کی ملی جلی کیفیت میں ہیں‘ وہی حال جو کسی بڑی شکست کے بعد ہوتا ہے۔ مودی کی آنکھیں پھیلی ہوئی تھیں اور وہ تیز تیز سانسیں لے رہے تھے۔ ان کے جملے غیر منظم اور بے ربط تھے۔ ایسی تقریر شدید نفسیاتی پریشانی اور پاگل پن کی کیفیت کی نشاندہی کرتی ہے۔ نریندری مودی کی باڈی لینگویج اور چہرے کے تاثرات واضح طور پر کہہ رہے تھے کہ بھارت ایک نئی جنگ کی ابتدا چاہتا ہے۔ اس صورتحال کو دیکھا جائے تو یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ پاک بھارت صورتحال اس وقت انتہائی خطرناک زون میں داخل ہوچکی ہے۔ اس میں یقینا پاکستان کو برتری حاصل ہے لیکن بھارت کی جانب سے کوئی معمولی حرکت بھی اس صورتحال کو ایک نئے اور خطرناک بحران کی طرف لے جا سکتی ہے۔ اس وقت خطے کے ساتھ ساتھ عالمی ثالثوں کو بھی اہم کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ جنوبی ایشیا کے اس حصے میں امن قائم ہو سکے اور مذاکرات کے ذریعے معاملات حل ہوں۔