پی ٹی آئی کے 100 دن کے ایجنڈے پر ایک ہنگامہ سا برپا ہے۔ ہر آدمی ارسطو بن کر اپنا تبصرہ پیش کر رہا ہے۔ میڈیا کا ایک حصہ جلتی پر تیل کی طرح‘ تیلی دکھانے میں مصروف ہے۔ ایسے بلند بانگ دعوے تو سابقہ حکومتوں کی جانب سے بھی کیے جاتے رہے ہیں‘ لیکن میڈیا کی جانب سے روزمرہ کی بنیادوں پر حکومتوں کی کارکردگی جانچنے کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کے دور میں مغرب سے مستعار لی گئی 'ڈائون سائزنگ اور رائٹ سائزنگ‘ کی اصطلاحات کا اب میڈیا پر غلبہ ہے۔ بہرکیف، بات ہو رہی تھی سو دن کی۔ ملک میں بھونچال کی سی کیفیت پیدا کرنے میں پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کو غلطیوں سے مبرا قرار دینا مشکل ہے، جس نے کسی ہوم ورک کے بغیر بلند بانگ نعروں سے عوام کی امیدیں ساتویں آسمان تک پہنچا دی تھیں۔ موجودہ حکمرانوں نے انتخابی مہم میں ایسا جنون پیدا کیا کہ چند دن میں ریاستِ مدینہ کی طرز حکمرانی اور نظام نافذ ہو گا۔ سماجی اور معاشی انقلابات بپا ہوں گے۔ قوم کو یوں لگنے لگا کہ جیسے ہی اقتدار کا بگل بجے گا، گھر بننا شروع ہو جائیں گے، انگلی کا ایک اشارہ ہو گا اور قیمتیں آسمان سے زمین پر آ جائیں گی۔ پلک جھپکنے کی دیر ہو گی کہ خواہشات پوری ہو جائیں گی۔
ایسا کام تو الٰہ دین کا جن ہی کر سکتا ہے۔ یہ جن یا تو قدیم کتابوں میں ملے گا یا پھر ہالی وڈ کی ایک آدھ فلم میں۔ یاد رہے، الٰہ دین کے جن پر ہالی وڈ میں ایک اور فلم بننے والی ہے، وہ اس کے لیے کردار امریکہ میں ڈھونڈ رہے ہیں، لیکن یہ کردار پاکستان سے بھی مل سکتے ہیں۔ قوم کو جھوٹی سچی خواہشوں میں غرق کر دینے والے کردار۔ یوں سو دنوں میں امیدوں کے چراغ ٹمٹما کر بجھتے رہے، کوئی ہدف پورا نہ کیا جا سکا۔ اس بحث میں یہ چیز سب پر عیاں ہوں گئی کہ سوائے فوج اور عدلیہ کے، باقی تمام ادارے بد عنوانی میں 'نکونک‘ ڈوبے ہوئے ہیں اور قریب المرگ ہیں۔ دیکھا جائے تو دنیا میں بڑی تبدیلیاں لیڈر کی سوچ سمجھ اور اداروں کے استحکام سے جنم لیتی ہیں۔ ہمارے ہاں سول سروسز جیسے ادارے گڈ گورننس اور حکومتی پالیسیوں کو آگے بڑھاتے ہیں‘ مگر ان اداروں کو سیاسی مداخلت، نا اہلی اور بد عنوانی نے مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کو ادراک ہی نہ تھا کہ تبدیلی لیڈر کے وژن اور اداروں کے ٹیم ورک سے جنم لیتی ہے۔ افسوس! نا تجربہ کار لیڈرشپ لیپ ٹاپ پر اپنے ایجنڈے سیٹ کرتی رہی‘ اور اپنے دعووں کی خود ہی اسیر بن گئی۔ پی ٹی آئی کے تھنک ٹینک ارباب شہزاد اچھے افسران میں شمار ہوتے ہیں، مگر ان کا تجربہ کے پی کے تک محدود رہا ہے۔ وفاق کی حکمرانی کا ان کو زیادہ تجربہ نہ تھا۔ میں نے اپنی 35 سالہ سروس کے دوران حکومتی مشینری میں رہتے ہوئے کئی سیاسی اور انتخابی ایجنڈے دیکھے‘ اور عمل درآمد کے لیے کام بھی کیا‘ مگر وہ کبھی زمینی حقائق سے مطابقت نہ رکھتے تھے اور نتیجتاً قصہ پارینہ بنے۔
عمران خان نے حکومت میں آنے کے فوراً بعد عوام کو بے گھر افراد کے لیے پچاس لاکھ گھر تعمیر کرنے کا سہانا خواب دکھایا اور بے گھروں کے دلوں میں اپنے گھر کی امید پیدا کی‘ لیکن پاکستان کے بھولے عوام کو سیاستدانوں کی جانب سے یہ خواب پہلی بار نہیں دکھایا گیا۔ اپنے گھر کا خواب پہلی بار سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے دکھایا تھا‘ جنہوں نے پیپلز پارٹی کی بنیاد ہی 'روٹی کپڑا اور مکان‘ کے نعرے پر رکھی تھی۔ پیپلز پارٹی اسی نعرے پر پچاس سال سیاست کرتی رہی ہے‘ لیکن عوام کی آنکھوں میں سجایا گیا اپنے گھر کا خواب پچاس سال گزرنے کے بعد بھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ دوسری مرتبہ یہ خواب سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے دکھایا‘ اور لاہور کے موچی دروازے میں 5 نکاتی پروگرام کا اعلان کیا۔ 3 مرلہ ہائوسنگ سکیم اس کا اہم جزو تھی۔ ''شیلٹر برائے شیلٹر لیس‘‘ کے نام پر 10 لاکھ مکانات بنانے کا نیا نعرہ لگایا۔ اس منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے میں نے بھی اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت میں پوری لگن کے ساتھ کام کیا‘ لیکن حکومت تبدیل ہونے اور نئی حکومت کی عدم توجہی کے باعث یہ منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا‘ اور یوں مطلوبہ اہداف حاصل نہ ہو سکے۔ اس منصوبے کے تحت غریبوں کے لیے جو چند گھر بنائے جا سکے‘ ان میں بھی بعد میں مویشی بندھے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ 1993 میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی تو بینظیر بھٹو نے ایک بار پھر اپنے والد کا نعرہ دہرایا اور سستے گھر دینے کا اعلان کیا‘ لیکن اس بار بھی عوام کو اپنے گھر کے نام پر دھوکے کے سوا کچھ نہ ملا۔ اسلام آباد نیو سٹی کے نام پر ایک منصوبہ شروع کیا گیا‘ اور اس کے لئے نیشنل ہائوسنگ اتھارٹی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا‘ لیکن اس میں تارکین وطن سمیت عام لوگوںکے ساتھ کئے گئے دھوکے کی مثال نہیں ملتی۔ اس منصوبے میں کرپشن کے کیسز آج بھی نیب میں زیر سماعت ہیں۔ میاں نواز شریف نے 5 لاکھ مکانات کی تعمیر اپنے منشور میں شامل کی‘ مگر کمیشن اور سیاسی اہداف، اہداف کے حصول میں ہمیشہ آڑے آئے۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے کم آمدنی والے افراد کے اپنے گھر کے نام آشیانہ ہاؤسنگ سکیم شروع کی گی جس نے کرپشن اور لوٹ مار کی نئی تاریخ رقم کی۔ اسی آشیانہ سکیم کے کیسز میں شہباز شریف گرفتار ہیں‘ کیسز نیب میں زیر سماعت ہیں‘ اور اب عوام کی آنکھوں میں پرانا خواب نئے نعرے کے ساتھ ایک بار پھر سجایا جا رہا ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان نے ماضی میں سیاستدانوں کی جانب سے لگائے جانے والے نعرے کی تاریخ نہیں پڑھی۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کا اعلان کرنے سے پہلے ہوم ورک کیا گیا؟ کیا عوام کو دکھایا جانے والا اپنے گھر کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا‘ یا ماضی کی طرح اپنے گھر کے نام پر انہیں دھوکہ ہی ملے گا؟
مسلم لیگ ن نے 2013ء میں ایک منشور جاری کیا تھا۔ دیگر تمام حکومتی شیخیوں کی طرح پاکستان مسلم لیگ ن کے منشور برائے 2013ء میں بھی ناقابل عمل اہداف طے کیے گئے۔ اس میں کیا خوبصورت نعرے پڑھنے کو ملتے ہیں ''5 سال میں جی ڈی پی کی شرح نمو 6 فیصد ہو گی، صنعتی ترقی 3 فیصد سے بڑھ کر 8 فیصد، جی ڈی پی کے تناسب سے سرمایہ کاری میں اضافہ 12 سے 20 فیصد اور بجٹ کا خسارہ 4 فیصد تک لایا جائے گا۔ بلحاظ جی ڈی پی، ٹیکسوں کی شرح 9 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد تک کی جائے گی۔ پانچ پانچ سو مکانات پر مشتمل ایک ہزار کلسٹر بنیں گے‘‘۔ یعنی 2018ء تک 5 لاکھ مکانات بنائے جاتے۔ مگر ہوا کیا؟ سرمایہ کاری 20 فیصد تو کجا 10 فیصد بھی نہ ہو سکی، بجٹ کا خسارہ 4 فیصد کی بجائے جی ڈی پی کے 5.5 فیصد تک رہا۔ ریٹرن فائلرز کی تعداد آج بھی آٹھ لاکھ سے کم ہے۔ 5 لاکھ مکانات کی تعمیر کے لئے برائے نام فنڈز رکھے گئے۔ نواز دور میں ملک میں 5 لاکھ سستے مکانات کی تعمیر کے لئے مالی سال 2016-17ء میں 42 کروڑ روپے رکھے گئے‘ جو 2015-16 کی نسبت تقریباً 8.2 فیصد کم تھے‘ مگر مسلم لیگ کے منشور کی تشکیل اور اس پر توجہ اس طرح نہ ہوئی جس طرح پی ٹی آئی کے سو دن کے ایجنڈے کی ہوئی۔ سول سروسز کی اصلاحات اور پالیسی کو سیاست سے آزاد کروانے کا ایجنڈا پورا نہ ہو سکا۔ بلدیاتی نظام کے ذریعے اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کے نعرے بھی منشور میں شامل تھے۔ اگر پنجاب کے اندر پولیس کو مادر پدر آزادی مل گئی تو یہی ادارے 56 کمپنیو ں کی طرح کرپشن کے گڑھ ثابت ہوں گے۔ موجودہ اور سابق حکومتوں کی طرز حکمرانی میں بس ایک فرق واضح ہے‘ وہ ہے کرپشن سے پاک نظام جمہوریت کا قیام۔ باقی اس خواب کی تکمیل ہنوز تشنہ طلب ہے۔ امید ہے کہ ارباب اختیار عوام کی نبض کو سمجھتے ہوئے برق رفتاری سے کام کا آغاز کریں گے۔
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گوہر ہونے تک