"MEC" (space) message & send to 7575

معاشی سفر اور منزل

دوسرے پانچ سالہ منصوبے (1960-65ئ) میں قیام پاکستان کے بعد پہلی دفعہ معاشی ترقی کا روڈ میپ دیا گیا تھا۔ صدر ایوب نے ڈاکٹر محبوب الحق کی Trickle Down Theory کے تحت ملک میں صنعتی انقلاب کی داغ بیل ۔ اس میں ملک کی سرمایہ کار بیس بائیس فیملیز کو تمام مطلوبہ سہولتیں اور رعایتیں دے کر یہ سوچا گیا کہ اس ترقی کے فوائد عوام تک پہنچ سکیں گے۔ اس سرمایہ کاری کے ماحول میں پورے ملک میں صنعتوں کا جال پھیلایا گیا۔ اس سے قومی شرح نمو تقریباً 9 فیصد تک پہنچ گئی۔ اسی دوران سستی بجلی کے حصول کیلئے انرجی سیکٹر میں ڈیم بھی بنائے گئے۔ ان میں ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور عالمی بینک کے تعاون سے بنائے گئے تربیلا ڈیم (1968-76ئ) اور منگلا ڈیم (1961-65ئ) قابل ذکر ہیں۔ ان ڈیموں کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بالترتیب 1500 اور 1100 میگاواٹ تھی۔ ڈیموں کی تعمیر پر 1.497 ارب امریکی ڈالر لاگت آئی۔ وارسک ڈیم بھی 1960ء میں بنایا گیا۔ اسی دور میں اسلام آباد جیسے جدید شہر کی بنیاد رکھی گئی۔ ان منصوبوں پر شفافیت سے کام ہوا‘ جس سے ملک میں زرعی اور صنعتی انقلاب آ گیا۔ گروتھ ریٹ جو 1961ء میں 6 فیصد تھا‘ بڑھ کر 1970ء میں 11 فیصد تک ہو گیا۔ 1960ء کی دہائی میں پاکستان دنیا میں قابل تقلید معاشی ماڈل تصور کیا جاتا تھا۔ سنگاپور، ملائیشیا کے ماہرینِ معاشیات پاکستان کی ترقی کے ماڈل کو اپنا رہے تھے۔
مگر اس ترقی سے دولت کی تقسیم کے مسائل پیدا ہوئے۔ حکومت کے اس ماڈل کے اندر رہتے ہوئے سوشل سیکٹر اور انسانی ترقی پر کام نہ ہو سکا جس کی وجہ سے اس ترقی کے ماڈل کے فوائد عوام تک نہ پہنچ سکے۔ اس کے علاوہ اگر 1965ء کی جنگ نہ ہوتی تو پاکستان اس وقت کوریا اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہوتا۔ اس ماڈل کے تقسیمی مسائل اور سوشل سیکٹر میں حکومت کی نااہلی کے باعث ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی‘ کپڑا اور مکان کے نعرے سے غریب عوام کو اپنی طرف متوجہ کر لیا اور وہ مسندِ اقتدار تک جا پہنچے۔ ذوالفقار علی بھٹو سوشلسٹ نظام سے کافی متاثر تھے۔ انہوں نے آتے ہی چھوٹی صنعتوں کو قومیانے کا اعلان کر دی‘ جس سے ایک صنعتی انقلاب کا جو ماحول تھا وہ ختم ہو گیا اور مزدوروں اور سرمایہ کاروں میں کشمکش پیدا ہو گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں صنعتی ترقی کے راستے مسدود ہو گئے۔ مزید برآں معاشی ترقی میں ٹیکنوکریٹس اور پلاننگ کمیشن کا کردار ختم کر دیا گیا۔ معیشت پر سیاستدانوں کا قبضہ ہو گیا‘ جس سے اس ملک کی معاشی تباہی کا آغاز ہوا۔ ضیاالحق کے دور حکومت کے بعد جب مرکز میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنی، تو صوبے اور مرکز کی کشمکش میں معاشی ترقی کے بجائے سیاسی لوٹ مار کا نیا نظام متعارف ہوا۔ صنعتکار طبقے کی بجائے سیاستدانوں کو شوگر اور ٹیکسٹائل جیسی بڑی صنعتوں کیلئے مراعات اور قرضے فراہم کئے گئے‘ حتیٰ کہ بینکوں اور مالیاتی اداروں پر بھی سیاستدانوں کا قبضہ ہو گیا اور تمام بڑے صنعتی قرضے سیاستدانوں کی ایما پر جاری کئے جانے لگے۔ ماضی کے سہگل، آدم جی، داؤد جیسے صنعتکاروں کی جگہ شریف، زرداری جیسے سیاسی صنعت کاروں نے بڑی صنعتیں لگا کر معیشت پر قبضہ کر لیا۔ اس کلچر میں سرکاری زمینوں، صنعتوں، ڈویلپمنٹ اتھارٹیز اور بینکوں سمیت دوسرے کئی اداروں کی بندر بانٹ کی گئی۔ ملک کے سیاسی نظام پر مسلط موروثی مافیا اپنی ذمہ داریاں تو پورا نہ کر سکا‘ لیکن ملک کو بھوکے بھیڑیوں کی طرح کھا کر معاشی طور پر دیوالیہ کرکے رکھ دیا۔ انہوں نے آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی اداروں سے قرضے لے کر اپنے ذاتی کاروباروں پر استعمال کئے۔ ان سے کمایا گیا پیسہ بیرون ملک منتقل کیا‘ اور باہر بیٹھی اپنی اولادوں کو کم سنی میں ہی ارب پتی بنا دیا‘ حتیٰ کہ چکن، دودھ اور انڈوں جیسے چھوٹے کاروبار بھی انہی کے ہاتھوں میں چلے گئے۔ عوام کیلئے کاروباری راستے مسدود کر دیے گئے تھے۔ دولت سے یہ طبقہ ایک ایسا مافیا بن گیا جس کا ذکر معزز ججز نے اپنے فیصلوں اور ریمارکس میں کیا۔ ان لوگوں کی سیاسی اور معاشی پالیسیوں سے اس ملک کے کروڑوں عوام بھوک اور افلاس کی اندھی کھائی میں دھکیل دئیے گئے‘ حتیٰ کہ آنیوالی نسلوں کے مستقبل کو تاریک کر دیا گیا، لوگ خود کشیوں پر مجبور ہو گئے۔ 
مہذب دنیا میں سیاست ایک سوشل سروس کا درجہ رکھتی ہے‘ لیکن وطن عزیز میں سیاست ایک انڈسٹری بن گئی‘ اور معیشت اس کی باندی بنا دی گئی۔ تمام ترقیاتی فنڈ اور منصوبہ بندی سیاست کی نذر ہوگئی۔ جمہوری ممالک میں منتخب نمائندوں کا کام آئین پر عملداری اور قانون سازی ہوتا ہے‘ لیکن پاکستان میں منتخب نمائندے گلیوں، نالیوں، سڑکوں اور پلوں کے ٹھیکیدار بن گئے۔ مستقل اور طویل المیعاد معاشی ترقی کیلئے سنجیدگی سے کوشش نہ کی گئی۔ سوشل سیکٹر اور انسانی ترقی کیلئے کام نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان انسانی ترقی کی شرح کے لحاظ سے دنیا کے 189 ممالک میں سے 150ویں نمبر پر چلا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ یہ تمام معاشی منصوبہ بندی سیاسی عزائم اور کمیشن خوری کیلئے کی گئی تھی۔ ان سیاسی عزائم اور کرپشن کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں معاشی بدحالی کا شکار ہونے کی وجہ سے آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑے۔ بھارت بھی آئی ایم ایف کے پاس گیا‘ لیکن 1991ء میں قرضوں کی آخری قسط لیتے ہوئے اس وقت کے وزیر خزانہ‘ جو بعد میں وزیر اعظم بھی بنے‘ منموہن سنگھ نے اپنی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے آئی ایم ایف کی سفارشات پر عمل کیا اور ملک کو قرضوں کی دلدل سے بتدریج نکالنے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان سیاستدانوں کی نالائقی کی وجہ سے دن بدن معاشی بدحالی کا شکار ہوتا چلا گیا۔
جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو اسے یہ تمام معاشی مسائل ورثے میں ملے۔ اس معاملے میں دو آرا نہیں کہ عمران خان نے نیک نیتی سے ملک کے معاشی اور سیاسی مسائل حل کرنے کا بیڑا اُٹھایا۔ انہوں نے آتے ہی سو روزہ پلان دیا‘ جس میں موسمیاتی تبدیلی سے لے کر سوشل سروسز تک میں ناگزیر اصلاحات جیسے درجنوں معاملات کو شامل کیا گیا؛ تاہم ایک بھی مسئلہ حل نہ ہو سکا۔ اس کے بعد منی بجٹ اور دوسری انقلابی تبدیلیوں کا اعلان کیا گیا‘ لیکن کامیابی ملنے کی بجائے معاشی پہیہ جام ہو کر رہ گیا۔ اب اس حکومت کو ایک سال ہونے کو ہے، ٹیکنوکریٹس نے حکومتی دفاتر سنبھال لئے ہیں لیکن عمران خان صاحب کے پاس نہ تو کوئی معاشی ویژن ہے اور نہ ہی ٹیم، وہ سیاست کو بھی کرکٹ سمجھتے ہیں اور فاسٹ باؤلنگ کے اسی جارحانہ موڈ میں ہیں۔ گورننس اور کھیل میں فرق کا شاید انہیں اندازہ ہی نہیں، جیسے کھیل کو جنگ بنایا ایسے ہی گورننس کو بھی ایک جنگ بنا دیا گیا ہے۔ گورننس ایک صبر آزما کام ہے‘ جس کیلئے جلد بازی سے کام نہیں لیا جا سکتا‘ کیونکہ تاریخ شاہد ہے کسی بھی معاشرے میں تبدیلی کیلئے وقت درکار ہوتا ہے اور اس کے لئے صبروتحمل سے کام کرنا پڑتا ہے۔لیکن عمران خان سیاستدانوں سے لے کر معیشت دانوں تک ہر کسی کو دھمکی دیتے نظر آتے ہیں کہ میں ٹیکس چوروں کو چھوڑوں گا نہیں‘ ان سب کو جیلوں میں ڈالوں گا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ملک میں سرمایہ داروں کا معاشی نظام سے اعتبار اٹھتا جا رہا ہے۔ لوگ سرمایہ کاری سے کترا رہے ہیں۔ حکومت اور بزنس کمیونٹی میں خلیج بڑھتی جا رہی ہے اور آئی ایم ایف پیکیج کے بعد لگائے جانے والے ٹیکسز کے بعد آٹو انڈسٹری، سیمنٹ، شوگر و ٹیکسٹائل انڈسٹری سمیت سارے کاروباری طبقے نے ان حکومتی اقدامات کے خلاف آواز اٹھائی اور احتجاج کیا۔ اس کے برعکس بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی بڑے سخت معاشی فیصلے کئے لیکن انہوں نے بزنس کمیونٹی اور صنعتکاروں کو اعتماد میں لے کر یہ اقدامات کئے۔ (باقی صفحہ 11 پر)
اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کی دگرگوں معاشی صورتحال کو سنبھالا کیسے دیا جائے کیونکہ ایکسپورٹس میں کمی آنے اور روپے کی قدر گرنے سے سرمایہ کاروں کا اعتماد کم ہوا ہے۔ اس صورتحال میں دگرگوں معاشی ابتری سے نجات کیلئے ہمیں اپنی درآمدی اشیا کے متبادل ڈھونڈنے ہوں گے تاکہ درآمدی بل کم کیا جا سکے‘ اور برآمدات میں اضافہ ممکن ہو۔ اس کے علاوہ انرجی سیکٹر میں سستی بجلی پیدا کرنے کیلئے متبادل منصوبے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ کاروباری طبقے کو اعتماد دلایا جائے کہ آپ کا پیسہ محفوظ ہے اور عوام کو یہ شعور دیا جائے کہ ٹیکسز کا پیسہ آپ کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے گا۔ موجودہ حکومت کو چاہئے کہ تمام سٹیک ہولڈرز سے مل کر قابل عمل حکمت عملی وضع کرے۔ ورنہ شاید ہم اس معاشی دلدل سے نہ نکل سکیں۔ دوسری طرف ملک کے سیاسی اور معاشی کلچر میں بھی تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ اس پرانے سیاسی نظام کو دریا برد کیا جائے اور ملک کی 60 فیصد نوجوان آبادی کی Capacity Building کرکے ان کو سیاسی و معاشی دھارے میں شامل کیا جائے۔ اس مافیا سے اقتدار کی منتقلی اس ملک کی جمہور کو، باصلاحیت نوجوان نسل کو کی جائے تاکہ حقیقی جمہوریت رائج کی جا سکے اور سیاست ایک انڈسٹری کے بجائے سماجی بہبود کا ذریعہ بن جائے۔ اس Paradigm Shift کے بغیر ملک میں تبدیلی کی خواہش محض دیوانے کا خواب ہی ہو گا‘ جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں