جب سے دنیا معرضِ وجود میں آئی ہے‘ حاکم ومحکوم اور طاقتورا ورکمزور کے مابین مفادات اور حقوق کی اَن بن رہی ہے۔جوں جوں انسانی ذہن ارتقا کے مراحل سے گزرتا گیا ایک ایسا نظام وضع کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی گئی‘ جس میںحاکم اپنے محکوموں کی زندگی کا فیصلہ اپنی مرضی سے نہیں ‘بلکہ ایک مروجہ قانون کے تحت کرنے کا پابند ہو ۔معاشرے میں شخصی نہیں ‘بلکہ اداروں کی بالادستی اور عملداری ہو۔انسانی ذہن کا یہی ارتقااسے قانون کی تشکیل کی طرف لے آیا ۔کسی بھی معاشرے کے قیام کا بنیادی انحصار وہاں بنائے جانے والے قوانین اور انصاف پر ہوتا ہے ۔جب کسی ریاست میں قوانین تشکیل پاجائیں تو ان پر عمل درآمد اس معاشرے اورریاست کی ترقی میں کلیدی کردار اداکرتا ہے‘ جبکہ قوانین اگر معاشرے کے بااثر طبقے کے تابع ہوجائیں ‘ انصاف کا نظام قائم نہ رہ سکے تو اس معاشرے کو روبہ زوال ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔دنیا میں ترقی یافتہ ممالک کی خوشحالی کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ وہاں امیروغریب ‘ رعایا وحکمران سب پر قانون کایکساں نفاذ ہے اور کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔آج کی دنیا میں ہمیں بے شمار ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ جب ملک کے بااثر اور حکمران طبقے کوقانون شکنی پرعدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا اور ان کاملک میں رائج قوانین کے مطابق محاسبہ ہوا۔جنوبی کوریا کی خاتون پرائم منسٹر پارک گیون کو صرف کاروباری دوستوں کو رعایتیں دینے کے جرم میں 24سال جیل کی سزاہوئی۔اسی طرح اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو دوستوں سے سگار اور دوسرے تحائف لینے کے جرم میں تحقیقات کا سامنا ہے۔کوریاکے صدر لی میونگ اور برازیل کے صدرلوئز اتاستو کو بھی عدالتوں سے سزائیں ملیں۔اس کے برعکس تیسری دنیا اور خصوصاًپاکستان میں قانون کی بالادستی اور آئین کی حکمرانی ہمیشہ سے ہی ایک مسئلہ رہا ہے۔ملک میں قوانین تو موجود ہیں‘ لیکن ان پر عملداری اور اطلاق میں اس قدر سقم پایا جاتا ہے کہ غریب اور کمزور طبقے کیلئے انصاف ہوتا نظر نہیں آتااور ملکی قانون اپاہج دکھائی دیتا ہے۔ جب معاشرہ یوں طبقات میں تقسیم ہو اور امیروغریب کیلئے الگ الگ قانون ہوتو ملک میں قانون کی حکمرانی اور بالاتری کیسے ممکن ہے ؟
پاکستان میںآئین اور جمہوریت تو ہے ‘مگر اس جمہوریت کو سیاسی مافیا کی لونڈی بنادیا گیا ہے ۔اسی مافیا کوسپریم کورٹ کے معززججز نے پانامہ کیس فیصلے میں سسلین مافیا اور گاڈ فادرسے تشبیہ دی تھی ۔جیسے میکسکو ‘ کولمبیا اور اٹلی کے مافیاز نے اپنے ممالک میں اقتدار اور معیشت کو کنٹرول کررکھا تھا۔ پاکستان میں اس مافیا کا ملکی نظام اور اداروں پر تسلط اس سے بھی بڑھ کرہے ۔ان مافیاز کے پاس دولت اور طاقت تھی‘ مگر ہمارے سیاسی مافیاز کے پا س د ولت اور طاقت کے ساتھ اختیار بھی ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے احتساب وہ عمل ہے‘ جو صرف غریب غربا اور لاچار لوگوں پر ہی لاگو کیا جاتا ہے‘ جبکہ بڑے بڑے عہدوں پر تعینات لوگ اور سیاسی مافیازان اداروں کی گرفت سے باہر ہی رہتے ہیں۔ سیاسی لوگ جب منتخب ہوکر ایوان میں جاتے ہیں تو ایسے ایسے قوانین پاس کراتے ہیں‘ جن سے وہ احتساب کی پکڑ سے بچ سکیں ۔جب دورانِ تفتیش ایک ملزم اپنے پروڈکشن آرڈر جاری کروا کے پورے پروٹوکول کے ساتھ اسمبلی پہنچ جائے اور وہاں جاکر نا صرف احتساب کے اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بنائے ‘بلکہ تفتیش کرنے والوں کی ہی تفتیش شروع کردے تو کس کی جرأت ہے کہ وہ شفاف انداز میں تفتیش کرسکے۔اس مافیا نے ملکی خزانے کو تو جس بے دردی سے لوٹا وہ ایک طرف‘ غیر ملکی فنڈنگ اور قدرتی آفات سے نپٹنے کیلئے ملنے والی امدا د اور نیکلس تک اپنی بیگمات اور خاندانوں میں بانٹ دئیے ۔اس پر مستزاد یہ کہ یہ سیاستدان احتساب کرنے والے ججز کو دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں کہ تمہارے بچوں پر اس ملک کی زمین تنگ کردی جائے گی ۔دوسری طرف اپنے ارب پتی بچوں کے ذریعے ان ججز کو اربوں میں رشوت کی آفرز کی جاتی ہیں‘ تاکہ اپنی مرضی کا فیصلہ لیا جاسکے ۔پھولوں سے لدی گاڑیوں کے قافلے میں کرپشن کے ملزمان عدالتوں اور نیب کے دفاتر کوگھیرے میں لئے نظر آتے ہیں۔ایسا لگ رہا ہے ریاست اور اداروں کا ٹرائل ہورہا ہے۔اب ‘ملک کو قرضوں کی دلدل میں دھکیلنے اوران قرضوں سے مال بنانے والے اپنے آپ کو ملک کا ہیرو بنا کر پیش کررہے ہیں ۔ جس قانون کی حکمرانی کا اس مافیا کی جانب سے ڈھنڈورا پیٹاجاتا ہے‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سے کسی قسم کی تفتیش اور مواخذہ نہ ہو اور ان ارب پتی بچوں کو ملک کے سیاہ وسفید کا مالک بنادیا جائے ۔ اس سیاسی اشرافیہ اور مافیا کی وجہ سے احتساب کا عمل مفلوج ہوکررہ گیا ہے۔یہ سیاسی مافیا اپنی باریاں تو لے ہی چکا ‘ا ب اپنے بچوں کو بھی اس ملک پر قابض کرنا چاہتا ہے۔یہ سیاست اور موروثیت کا گٹھ جوڑ ملک کی جڑیں کھوکھلی کرچکا اور جمہوریت کو آج تک پنپنے کا موقع نہ مل سکا ۔
اس سیاسی مافیا نے سول سروسز ‘پولیس ‘ ایف آئی اے سمیت تمام اداروں میں میرٹ کوبالائے طاق رکھتے ہوئے ذاتی وفاداراور ملازم بھرتی کئے اور پھر ان کے تبادلوں سے لے کر ترقیوں تک سب ذاتی وفاداری کو پیش نظر رکھ کرکیا جاتا۔نتیجہ یہ نکلا کہ ادارے محکوم اور ذاتی ملازم بنتے چلے گئے اور سیاسی مافیاکا غلبہ ہوتا گیا ۔ پاکستان کی سپریم کورٹ پر حملے کے وہ مناظراور جسٹس سجاد علی شاہ کوجس طرح اپنی عہدے سے برطرف کیا گیا ‘قوم آج تک نہیں بھولی ۔سابق صدر آصف علی زرداری ٹی وی انٹرویو میں کھلے عام چیئرمین نیب کو دھمکی دیتے نظر آئے کہ ''چیئرمین نیب کی کیا حیثیت ‘ اس کی کیا مجال‘ کہ میرے اوپر کیسز بنوائے ‘‘اور یوں جمہوریت کے نام پر بہترین انتقام لیا جاتارہا۔شریف خاندان کی جانب سے جسٹس قیوم کو کی جانے والی کال کی آڈیو جس میں اپنی مرضی کا فیصلہ لینے پر جج صاحب کو قائل کیا جارہا ہے کون نہیں جانتا۔اس وقت سول اداروں پر اس مافیا کا کنٹرول اور اثراس حد تک ہوچکا ہے کہ کوئی بھی ادارہ آزادانہ کام کرنے سے عاجز نظر آتا ہے ۔ عدالتیں اپنے تقدس اور وقار کی حفاظت کیلئے پولیس اور رینجرز کی محتاج نظر آرہی ہیں۔سول سرونٹس کو افسر شاہی کی عادتیں ڈال دی گئی ہیں‘ لہٰذا وہ اسی ڈگر پرگامز ن ہیں اور کسی تبدیلی کو قبول کرنے کے خواہاںنہیں۔ ترقی یافتہ جمہوری معاشروں میں سب ادارے اپنے اپنے دائرۂ اختیار میں رہ کرآزادانہ کام کرتے ہیں ۔پارلیمنٹ ملکی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون سازی کرتی ہے ‘عدلیہ قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے انصاف مہیا کرتی ہے اور اسی طرح احتساب کے ادارے بغیر کسی خوف کے اپنا کام کرتے ہیں‘ لیکن پاکستان میں الٹی گنگا بہتی ہے۔ملک میں ہونے والی بدعنوانی کے خلاف احتساب تو جاری ہے ہی ‘اداروں کی پامالی اور استحصالی کا احتساب کرنا بھی ضروری ہے‘ جس کی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچے ہیں ۔
لیڈرکا کام ہوتا ہے‘ قوم کی تربیت کرنا اور ان کے لئے منزل کا تعین کرنا۔لیڈر کے پاس اپنے پیروکاروں اور عام عوام کی بہتری کا ایک ویژن ہوتا ہے‘ کسی بھی معاشرے میں لیڈرافراد کیلئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے اور افراد اپنے لیڈرز کے طریقۂ کار اور مثال کی پیروی کرتے ہیں‘ لیکن ان نام نہاد رہنماؤں اور اس مافیا نے ستر سال سے قوم کی کوئی تربیت تو نہ کی اور نہ ہی کوئی سمت دی ؛البتہ ملکی خزانے کو ہرسطح پر ضرورلُوٹا ۔ ایم پی ایز اور ایم این ایز اپنے حلقوں میں ترقیاتی کاموں کے خود ہی ٹھیکیدار بن گئے اور کمیشن خوری کا یہ کلچر گلی محلے تک جاپہنچا۔قوم نے جب اپنے لیڈروں کو ایسا کرتے ہوئے دیکھاتو ان میں بھی اسی رحجان کو فروغ ملا‘ کاروباری طبقے کو ٹیکس بچانے کیلئے چور راستے فراہم کئے گئے ‘جس کی وجہ سے وہ آج بھی ٹیکس ادا کرنے سے گریزاں ہیں اورشٹرڈاؤن ہڑتالیں کرتے ہیں‘ یعنی ٹیکس چوری سے لے کر رشوت خوری تک اس قوم میں سرایت کی چکی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مافیا سے سیاسی نظام کی اور پاکستانی عوام کی جان کیسے چھڑائی جائے؟اس کا پہلا اور بنیاد ی نقطہ تو یہ ہے کہ ملک کے تمام ادارے آزاد اور خود مختار ہوں اور سول حکومت کی بالادستی کیلئے ایک ہی پیج پر کام کریں۔ چالیس سال پرانے سیاسی ومعاشی کلچر کو فردِواحد یا ایک جماعت تبدیل نہیں کرسکتی کیونکہ مافیاز ریاست سے بھی زیادہ طاقتور اور مضبوط ہوچکے ہیں۔عمران خان صاحب نے تبدیلی کا نعرہ تو دیا تھا مگر سیاسی تسلط کی وجہ سے کوئی بھی ادارہ صحیح طرح ڈلیور نہیں کرپارہااور یہ بات عیاں ہے کہ مطلوبہ تبدیلی ایک ڈراؤنے خواب کا رُوپ دھارتی نظر آرہی ہے۔عام عوام کے ساتھ ساتھ ہرادارے اورہر طبقہ ٔزندگی نے اگر اس حکومت کا ساتھ نہ دیا تو اکیلے عمران خان کچھ نہیں کرسکیں گے۔اس صورتحال میں ملک کا فقط کوئی ایک ادارہ اگر سیاسی تسلط سے بچا ہے تو وہ پاک فوج ہے جسے ان سیاسی حکمرانوں کی جانب سے دبانے اور اپنے زیر اثر کرنے کی بارہا کوشش کی گئی مگر کامیابی نہ مل سکی ۔اب عالم یہ ہے کہ ملک میں کرکٹ کا میچ منعقد کروانا ہو یا الیکشن ‘کسی قدرتی آفت کے نتیجے میں لوگوں کو امداد مہیا کرنی ہویا کراچی میں آپریشن‘ ہر جگہ پاک فوج ہی کی امداد لینا پڑتی ہے ۔پاک فوج اس گرداب میں پھنسے ملک کا بیڑا پارکرنے کیلئے ماضی کے تلخ تجربوں سے سیکھتے ہوئے جمہوری نظام کے قیام وترویج کیلئے بڑا صاف نقطۂ نظر رکھتی ہے ۔ قانون کی حکمرانی قائم کرنے کیلئے باجوہ ڈاکٹرائن کے مطابق ملکی استحکام کیلئے سول اداروں پولیس ‘ سول سروسز اور خفیہ ایجنسیز کی صلاحیت کومزید بڑھانا ہوگا ۔ پچھلے ایک سال کے دوران ہونے والی نواز شریف اور آصف زرداری کی گرفتاری اور تفتیش ظاہر کرتی ہے کہ سول اداروں کو بتدریج خود مختاری حاصل ہورہی ہے۔باجوہ ڈاکٹرائن دستاویزی شکل میں تو کہیں موجود نہیں ‘ مگر اس کی روح یہی ہے کہ اداروں کو خود مختاری دی جائے۔دوسری طرف اداروں کے اندر خود احتسابی کا عمل پروان چڑھانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ان اداروں میں اہم پوزیشنز پر تعینات شخصیات کا محاسبہ بھی ہوسکے اور سیاستدان ان شخصیات کو ذاتی مفادات کیلئے استعمال کرنے کے بعد بلیک میل نہ کرسکیں ۔اس طرح اداروں میں جمہوریت اور احتساب کے کلچر کو فروغ دیا جاسکے گا اور شخصیات کی بجائے ادارے مضبوط ہوں گے۔