''گورننس‘‘ ایک ریاست میں انتظامی، سیاسی، معاشی نظاموں کے نفاذ کا نام ہے۔ یہ نظام قدیم یونان کے ارسطو اور افلاطون نے متعارف کروایا تھا۔ قرون وسطیٰ کے بادشاہی ادوار (Authoritarian Regimes) میں گورننس کا واحد مقصد سلطنت کی حاکمیت تھا۔ اس سیاہ دور میں عوام کی بنیادی ذمہ داری فقط حکمرانوں کی غیر مشروط غلامی تھی۔ 1215ء کے بعد انسانی شعوروترقی کا ایک نیا سفر شروع ہوا‘ معروف میثاقِ حقوق میگنا کارٹا (Magna Carta) تحریری طور پر سامنے آیا‘ جس میں سلطنت سے بنیادی حقوق کا مطالبہ کیا گیا۔
خطۂ برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بادشاہت کو شکست دے کر تمام ریاستوں میں میکس ویبر (Max Weber) کی جدید بیوروکریسی کے طاقتور ڈھانچے بنائے، جن میں قابل افراد سخت میرٹ پر تعینات ہوئے۔1947 ء میں پاکستان معروض وجود میں آیا تو یہی حاکمانہ نظام ہمیں وراثت میں ملا۔ 50ء اور 60ء کی دہائی تک پاکستانی سیاست دانوں کی سیاسی بصیرت و نشوونما نہ ہونے کے برابر تھی، جس کے باعث بیوروکریسی سیاسی اثرورسوخ سے ماورا اپنا کام کرتی رہی۔ یہ ماڈل 1971ء تک چل سکا‘ پھر ذوالفقارعلی بھٹو نے بیوروکریٹس کو ریاست کی بجائے حکومت اور منتخب نمائندوں کے تابع کرنے کی کوشش کی۔1985 ء میں جب نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب بنے تو انہوں نے بیوروکریسی کو ذاتی و سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی روایت ڈالی۔ بیوروکریٹس شریف خاندان کے ذاتی سہولت کار بن گئے۔شہباز شریف کے ادوار میں ''انتظامی آمریت‘‘ شروع ہوئی۔ وہ بیوروکریٹس کو انگلی کے اشاروں پر نچاتے رہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سرکاری خزانے میں لوٹ مار عام ہو گئی، کرپشن کا ناسور ملک کے ہر شعبے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا۔ عوام قرضوں کے بوجھ تلے دبے کسی خوشحال نظامِ حکمرانی کو ترس رہے تھے۔
2018 ء میں عمران خان 'تبدیلی‘ کے نعرے پر وزیراعظم بنے تو عوام کو امید کی ایک کرن نظر آئی۔ تبدیلی کا نعرہ دراصل گڈ گورننس اور احتساب کی ہی نوید تھا۔ کپتان نے آتے ہی 100 روزہ پلان کے خالق شہزاد ارباب کی سرپرستی میں انقلابی ایجنڈا پیش کیا، جس میں ملکی گورننس بہتر کرنے، وفاق مضبوط کرنے، معاشی ترقی، پانی و زراعت کے نظام میں بہتری، انقلابی معاشرتی خدمات دینے اور قومی سلامتی یقینی بنانے جیسے بڑے وعدے کیے گئے تھے۔ عوام کو پچاس لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریاں دینے جیسی باتیں بھی ہوئیں، لیکن افسوس‘ ان میں سے ایک بھی وعدہ پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔ 50 لاکھ گھروں کی ہی بات کر لیں، نہ وہ گھر بنے‘ نہ ہی بن سکتے تھے‘ لیکن غلط پالیسیوں کے باعث ہاؤسنگ سیکٹر سکڑنے سے ملک کا مزدور طبقہ ضرور بیروزگار ہو چکا ہے۔ کیا یہ منصوبہ بنانے والوں کو معلوم نہیں تھا کہ ان خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کیلئے اربوں ڈالر درکار ہیں؟ آج وعدے پورے کرنا تو دور کی بات عمران سرکار روزمرہ کے معاملات سلجھانے میں ہی مکمل ناکام نظر آتی ہے۔ یہ تمام محرومیاں حکومت کی ناکام طرز حکمرانی کی عکاسی کرتی ہیں، اور یوں لگتا ہے‘ حکومت کا گورننس کا نظام بھی وینٹی لیٹر پر جا چکا ہے۔
حکومتی کارکردگی نہ مرکز میں نظرآتی ہے اور نہ ہی صوبوں میں، جس کی سب سے بڑی وجہ نااہل ٹیم اور اس کی ناقص حکمت عملی ہے۔ مرکز میں دیکھیں تو خرابی گھر سے شروع ہوتی محسوس ہوتی ہے، جہاں عمران خان صاحب کے پرنسپل سیکرٹری کا تجربہ صرف خیبر پختونخوا تک محدود ہے‘ جبکہ نواز شریف کے پاس انور زاہد مرحوم، سلمان فاروقی اور خواجہ ظہیر جیسے قابل اور تجربہ کار بیوروکریٹس کی عمدہ ٹیم موجود تھی، جن کی قابلیت ان کی کارکردگی سے چھلکتی تھی۔ یہی صورتحال پنجاب میں بھی نظر آتی ہے جہاں سب سے بڑے صوبے کی ذمہ داری ناتجربہ کار ٹیم کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے۔ نااہل سرکاری ٹیموں کے پاس منصوبے اور پروگرام تو بے شمار ہیں مگر فقط کاغذوں کی حد تک‘ عمل کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ کپتان کا نیا بیوروکریٹک ماڈل بھی بری طرح فلاپ ہو چکا ہے جس میں بیوروکریسی کو منتخب نمائندوں پر غالب کر دیا گیا، جبکہ جمہوری ریاستوں میں پالیسی بنانا منتخب نمائندوں کی ذمہ داری ہوتی ہے، بیوروکریسی کا کام بس پالیسی پر عمل کرانا ہوتا ہے، جس کی نگرانی بھی خود منتخب نمائندہ ہی کرتا ہے، مگر یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ انتظامیہ کیا کر رہی ہے؟ کیا فیصلے لے رہی ہے؟ عوام کے ووٹ لے کر آنے والے سیاستدان لاعلم ہیں۔ یہ ماڈل تو 50 اور 60 کی دہائی میں تھا، جو اب دنیا سے ختم ہو چکا ہے۔
اس صورتحال پر قابو پانے کیلئے وزیر اعظم نے جو طریقہ ہائے کار اپنائے وہ غلط ثابت ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے تو حکومت کو ہر صورت دھرنا Syndrome سے نکل کر اور سولو فلائٹ لینے کی عادت چھوڑ کر سیاسی حلیفوں اور حریفوں سے قومی مفاد کے پیش نظر مفاہمت اور یگانگت کی فضا پیدا کرنی چاہیے، کیونکہ آج کی پولیٹیکل اکانومی میں سیاسی تناؤ اور محاذ آرائی کے ہوتے ہوئے بہتر معیشت اور گڈ گورننس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج قانون سازی پارلیمنٹ کے بجائے صدارتی آرڈیننسوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ صوبائی حکومتوں کے ساتھ بھی مفاہمت سے مسائل حل کرنا ہوں گے۔ جس طرح آئی جی کی تبدیلی کی تحریک کے دوران ان کی وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کی تصویر سامنے آئی، ایسی چیزوں سے اجتناب کیا جانا چاہیے کیونکہ ان سے صوبوں اور وفاق کے درمیان بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔ ایف بی آر کی غلط پالیسیوں کے باعث کاروباری اور سرمایہ کار طبقے کا ختم ہو جانے والا اعتماد بحال کرنے کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ اسی سے معیشت کا پہیہ چلے گا۔ مہنگائی اور بیروزگاری سے ریلیف کیلئے ایک مربوط سوشل سکیورٹی نظام بھی تشکیل دینا ہوگا۔ تمام صوبوں میں پرائس کنٹرول کا بااختیار ڈھانچہ بنانا چاہیے۔ غربا کی ماہانہ مالی مدد کیلئے مضبوط منصوبہ بھی درکار ہے۔ آبادی کے بڑھتے ہوئے مسائل کے پیش نظر ملک بھر میں مضبوط لوکل گورنمنٹس اور فعال انتظامی یونٹ بنانا ہوں گے۔ مقامی حکومتوں کے بغیر سہولیات کی فراہمی کا نظام مفلوج ہے۔ چھوٹے صوبے بنانا بھی ناگزیر ہے۔
گورننس کی ناکامیاں اپنی جگہ‘ لیکن کوئی پوچھے کہ ملک میں گندم کے وافر ذخائر کے باوجود آٹے کا شدید بحران کیسے پیدا ہوا؟ سنا ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش اور بیوروکریسی کی ملی بھگت سے ملوں کے کوٹوں میں ہیر پھیر کرتے ہوئے آٹا سمگل کیا گیا، اور سارا ملبہ حکومت پر ڈال دیا گیا۔ اسی طرح چند ہفتے قبل پی آئی سی واقعے میں چار سو وکلا کے جتھے کے سامنے 26 ہزار اہلکاروں پر مشتمل ڈسٹرکٹ پولیس اچانک کیسے بے بس ہوگئی؟ اربوں کے کاروبار کرنے والے تاجر حضرات ٹیکسوں سے جان چھڑوانے کیلئے آئے روز شٹرڈاؤن ہڑتال کرتے پھرتے ہیں۔ ان حالات میں ٹیکس کیسے اکٹھا ہو؟ نظام کیسے بہتر ہو؟ ڈینگی و پولیو پر قابو نہیں پایا جا رہا ہے تو کیا عمران خان خود گھرگھر جا کر پولیو کے قطرے پلائیں؟ مرکز و پنجاب میں اتحادی بھی روٹھے بیٹھے ہیں۔ پچھلے ادوار میں بھی تو یہی پاکستان‘ یہی پنجاب تھا، لیکن عمران خان کے آنے کے بعد یہ سب مسائل کیوں اور کیسے پیدا ہوئے؟ ایسا لگتا ہے جیسے ملک میں بیٹھے مافیاز نے‘ جس کی جڑیں ہر شعبے میں پھیلی ہیں‘ عمران خان کے خلاف ایکا کر لیا ہو۔ ایسے حالات کی سلاخوں میں قید حکومت انقلاب کیسے لا سکتی ہے؟ ان پیچیدگیوں کے بیچ عوامی حکمرانی کا تصورکیسے ممکن ہے؟ چنانچہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ حالات میں بہتری لانے کے لئے وزیر اعظم کو اپنے اصل ایجنڈے کی طرف لوٹنا ہو گا مگر کھلی آنکھوں کے ساتھ، کیونکہ اندیشہ ہے کہ کپتان کی ناتجربہ کاری کا فائدہ بہت سے عناصر اٹھا رہے ہیں۔ کچھ طاقتیں تواتر سے وزیر اعظم کو نااہل، کم فہم ظاہر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہ کشمکش دو سوالوں کو جنم دے رہی ہے۔ پہلا‘ عمران خان کو سیاسی طور پر ختم کرنے کی بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ دوسرا‘ اس ملک کے پورے کے پورے نظام کی بساط لپیٹی جا رہی ہے، اور کوئی مافیا اپنی مرضی کا نظام لانے کی گھناؤنی سازش میں مصروف ہے۔ لیکن اس سسٹم کو پھلتا پھولتا دیکھنے کے خواہشمندوں کی رائے یہ ہے کہ وزیر اعظم فوری طور پر مناسب اقدامات بروئے کار لائیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ عمران خان صاحب کو اپنی ٹیم بدلنا ہو گی۔ یہ تبدیلی آئے گی تو ہی گلشن کا کاروبار چلے گا۔