دو ماہ قبل چینی شہر ووہان سے پھیلنے والی کورونا کی وبا پوری دنیا کیلئے ناقابل برداشت آزمائش بنتی جا رہی ہے اور 1 لاکھ 30 ہزار سے زائد افراد کو متاثر کرتے ہوئے تقریباً 4 ہزار 7 سو کو لقمہ اجل بنا چکی ہے۔ اس عالمگیر وبا کے حوالے سے دو خطرناک حقائق نے سب کو خوفزدہ کر رکھا ہے۔ پہلی حقیقت یہ کہ اب تک اس کے پھیلنے کی اصل وجہ کا تعین نہیں ہو سکا۔ دوسری پریشانی یہ ہے کہ نیا وائرس ہونے کے باعث اس کی کوئی ویکسین بھی تیار نہیں ہو سکی۔ اس وائرس کی ابتدا بھی ابھی تک ایک مفروضہ ہے۔ مانا جا رہا ہے کہ کورونا کی یہ قسم چمگادڑوں سے پھیلی ہے، مگر جو بھی ہو، حقیقت یہ ہے کہ جانوروں سے انسان اور پھر انسان سے انسان تک بہ آسانی پھیلنے والے کورونا وائرس کے خوف سے دنیا بھر میں ہنگامی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ سب ممالک نے متاثرہ ممالک کے ساتھ آمدورفت اور تجارت معطل کر دی ہے۔ سعودی عرب نے عمرہ زائرین کے داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے، عالمی پروگراموں، اجتماعات اور کھیلوں کے ٹورنامنٹس ملتوی کر دیئے گئے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس وبا نے عالمی معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ کورونا کے باعث 2020 میں دنیا کو347 بلین ڈالر کے تجارتی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وبا پھوٹنے کے بعد چین کی معاشی ترقی میں یکدم 5 فیصد کمی آئی، جہاں کی سٹاک مارکیٹ 5 سال کی کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ چین پوری دنیا میں سب سے زیادہ تیل درآمد کرنے والا ملک ہے لہٰذا اس کے ساتھ تجارت معطل ہونے سے دنیا میں تیل کی مانگ میں بھی واضح کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ امریکی، جاپانی اور بھارتی سٹاک مارکیٹ میں بھی آئے روز پوائنٹس گر رہے ہیں۔ وبا سے عالمی سیاحت کو بھی شدید دھچکا لگا ہے۔ آج اٹلی کی گلیاں سنسان پڑی ہیں۔ متعدد فضائی کمپنیوں کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ایوی ایشن انڈسٹری کا نقصان 113 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔
وطن عزیز پاکستان میں بھی 22 افراد کورونا کا شکار بن چکے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے دو ہمسایہ ممالک چین اور ایران اس وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہیں، جس کے باعث پاکستان میں کورونا پھیلنے کے شدید خطرات ہیں۔ پاکستان میں اس وقت قریب 50 ہزار چینی سی پیک اور مختلف پروجیکٹس پرکام کررہے ہیں، اور دونوں ممالک کے افراد کی ایک بڑی تعداد روزانہ مختلف سرگرمیوں کی غرض سے ملتی جلتی ہے۔ ہزاروں پاکستانی طلبہ چین میں زیرتعلیم بھی ہیں، جو ہر چند ماہ بعد گھروں کوآتے ہیں۔ اسی طرح ہماری ایران کے ساتھ 1000 کلومیٹر سرحد ہے، جہاں سے روزانہ ہزاروں افراد بلوچستان اور کراچی کا سفرکرتے ہیں اور ہزاروں زائرین ایران کے مذہبی مقامات پربھی جاتے ہیں۔ مشترک سرحد پر نقل و حرکت تو محدود ہے مگرخطرہ اپنی جگہ قائم ہے۔ خدانخواستہ یہ مرض پاکستان میں پھیل گیا تو اس سے نمٹنے کیلئے ہماری تیاری کیا ہے؟ ہم اپنے محدود وسائل میں اس وبا کا کیسے مقابلہ کرسکیں گے؟ ہماری اس حوالے سےRisk Management کیا ہے؟
یہ ایک المیہ ہے کہ پاکستان میں جب کوئی مرض آیا تو ہم اس سے بہ آسانی جان چھڑانے میں ناکام رہے۔ ہمارے حکمران ہمیشہ پانی سر سے گزر جانے کے بعد جاگتے ہیں۔ پولیو کی ہی مثال لے لیں۔ پاکستان تو کتے کے کاٹے کی ویکسین بنانے تک میں خود کفیل نہیں ہو سکا۔ اب اگرملک میں خدانخواستہ کورونا کی وبا پھوٹ پڑی تو خداجانے ہمارا کیا بنے گا؟ جیسا کہ عرض کیا‘ اس وائرس کی ویکسین تیار نہیں کی جا سکی ہے‘ مگر پاکستان تو اس کے روایتی علاج سے بھی محروم نظر آتا ہے۔ افسوس کہ ہمارا ایک بھی سرکاری ہسپتال کورونا کے علاج کیلئے عالمی ادارہ صحت کے وضع کردہ معیار پرپورا نہیں اترتا۔ چند گنے چنے ہسپتالوں میں اس کے علاج کیلئے جو وارڈز قائم کیے گئے ہیں وہاں عملہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کورونا کے پیچیدہ ٹیسٹ کیلئے نہ مطلوبہ کٹس دستیاب ہیں اور نہ ہی Thermocyclers مشینیں جن کے ذریعے پی سی آر ٹیسٹ عمل میں لایا جاتا ہے۔ نجی لیبارٹریوں میں ٹیسٹ ہونے کے باوجود رپورٹ آنے میں ایک ہفتہ لگ رہا ہے، جبکہ چین میں ٹیسٹ کی رپورٹ آنے کا دورانیہ چند گھنٹے ہے۔ ہمارے ہسپتالوں میں وارڈز، بیڈز اور وینٹیلیٹرز کی صورتحال بھی ناکافی و ناقص ہے۔ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق 100 بیڈز کے وارڈ میں 30 وینٹیلیٹر ہونے چاہئیں، مگر ہمارے ہسپتالوں میں 300 بیڈوں کیلئے فقط ایک وینٹیلیٹر دستیاب ہے۔ 2018میں چیف جسٹس (اب سابق) سپریم کورٹ ثاقب نثار نے پنجاب کے ہسپتالوں میں وینٹیلیٹرزکی کمی پر ازخود نوٹس بھی لیا تھا، جس پرحکومت نے فوری 279 وینٹیلیٹرز خریدنے کی یقین دہانی کرائی، مگر حکومتی غفلت دیکھئے کہ ہنگامی بنیادوں پر کرنے والے اس کام کو عملی جامہ پہنانے میں بھی ایک سال سے زائد عرصہ لگا اور ان میں سے بیشتر وینٹیلیٹرز غیرفعال پڑے ہیں۔ اور کراچی کی صورتحال تو مت پوچھئے، جہاں ہر روز کورونا کا نیا کیس سامنے آنے پر سندھ حکومت کو اب کچھ ہوش آئی اور50 نئے وینٹیلیٹرز خریدنے کیلئے 30 کروڑ کا بجٹ منظور کیا۔ یہ وینٹیلیٹرز کب خریدے جائیں گے اس کا کچھ علم نہیں۔ اسی طرح Respirators کی بات کی جائے تو سرکاری ہسپتالوں میں N 95 ماسک مہیا نہیں کیے جا رہے، جو کورونا کے علاج کی بڑی ضرورتوں میں سے ایک ہیں، جبکہ پاکستان میں اس نایاب ماسک کی قیمت 2 سے 3 ہزار روپے ہے۔ اس کے علاوہ ہسپتالوں میں ڈبلیوایچ اوکی ہدایت کے مطابق Air Purifier کا بھی سرے سے کوئی نظام موجود نہیں لہٰذا ہماری یہ تمام محدود سہولیات اس بات کا کھلا اعتراف ہیں کہ ہم اس وبا سے لڑنے کو بالکل تیارنہیں اوراس کے پھوٹنے کی صورت میں ہمارے پاس بے بسی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
اگر ہم نے کامیابی کے ساتھ کورونا کامقابلہ کرناہے توچند اقدامات فوری طور پر درکارہیں۔ سب سے پہلے ہمیں سانس کی اس سنگین بیماری سے جنگ لڑنے کیلئے سرکاری ہسپتالوں میں وینٹیلیٹرز اورN 95 ماسکس کوعالمی ادارہ صحت کی وضع کردہ تعداد کے برابرلانا ہو گا، جبکہ یہ مہنگے آلات و سہولیات باہر سے خریدنے کی بجائے اپنے ملک میں ہی تیارکرنے چاہئیں۔ حکومت کو فوری تمام بین الاقوامی ہوائی اڈوں اور بارڈرز پر حسب ضرورت قرنطینہ مراکز بنانے چاہئیں، کیونکہ یہ وائرس اب 117ممالک تک پھیل چکا ہے لہٰذا بیرون ملک سے آنے والے تمام افراد کا داخلے سے قبل باقاعدہ چیک اپ کرنا ضروری ہے۔ کوئی شک نہیں کہ قرنطینہ مراکز میں دی جانے والی سہولیات پر بھاری خرچہ آتا ہے۔ بھارت میں قرنطینہ کے ایک سینٹر میں روز کا خرچہ تقریباً 5 لاکھ روپے ہے جس میں ہر 6 گھنٹے بعد ماسک کی تبدیلی، سینیٹائزر اور مریضوں کی خوراک کا خرچہ شامل ہے، لہٰذا ہماری حکومت کو بھی قرنطینہ میں بہترین سہولیات دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے اور اس ضروری عمل کیلئے وافر بجٹ مختص کرنا چاہیے۔ پورے ملک میں جراثیم کش سپرے کا مؤثرانتظام یقینی بنانا ہوگا۔ اس کے علاوہ مریضوں کے علاج میں خاص احتیاط برتنے کی بھی ضرورت ہے۔ کورونا وارڈز، آئسولیشن سینٹر اور راہداریاں باقی ہسپتال سے الگ بنائی جانی چاہئیں۔ تمام چھوٹے بڑے، نجی و سرکاری ہسپتالوں اور بڑی تعدادمیں عملے کوہائی الرٹ رکھنا ہوگا۔ ابلاغ عامہ کے تمام شعبہ جات کا استعمال کرتے ہوئے اورگھرگھر جا کر ایک مضبوط اورجامع آگاہی مہم چلانا بھی ناگزیرہے۔ کورونا ٹیسٹ کی سہولت ہرایک شہرمیں میسر ہونی چاہیے تاکہ شہری اور اس کے ملحقہ دیہات کے باسیوں کو اپنا ٹیسٹ کروانے کیلئے بڑے شہروں کا سفرنہ کرنا پڑے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق کورونا کی وبا سے پاکستانی معیشت کو 5 ارب ڈالرز کے نقصان کاسامنا کرنا پڑسکتا ہے‘ جس میں ڈیڑھ ارب ڈالرکا نقصان ہماری زراعت کو ہو گا جبکہ ٹرانسپورٹ، ہوٹلز، مینوفیکچرنگ اور تعمیرات کے شعبے بھی بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ مہلک وبا قیامت بن کر ٹوٹی ہے مگر مشکل کی اس گھڑی میں ہمیں گھبرانا نہیں بلکہ اس وبا سے نمٹنے کیلئے اپنی تیاری مکمل کرنی ہے۔ ووہان میں کورونا وائرس میں موت کی شرح فقط 2 سے 3 فیصد ہے لہٰذا بروقت پلاننگ، جدید سہولیات اور احتیاط بھرت کرپاکستان میں اس وبا کو ابتدا میں ہی گردن سے پکڑا جاسکتا ہے۔ مگر اس کیلئے ہمیں جلدی اور حقیقی معنوں میں عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔