"MEC" (space) message & send to 7575

احتیاط علاج سے بہتر ہے!

آج سے تقریباً 100 برس قبل بھی پوری دنیا ایک عالمگیر وبا سے جنگ لڑ رہی تھی، جس نے ایک اندازے کے مطابق پانچ سے دس کروڑ افراد کو لقمۂ اجل بنایا‘ جو اس وقت کی دنیا کی کل آبادی کا2 فیصد بنتی تھی۔ تاریخ کے آئینے میں اس وبا کو ہسپانوی فلو (Spanish Flu) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جو عالمی جنگ اول کے خاتمے کے بعد پھیلا اور جنگ سے بھی زائد جانیں لے گیا۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ جب 1918 میں جنگ عظیم اوّل اپنے اختتام کو پہنچی تو لڑنے والے فوجی اپنے اپنے ممالک میں ایک جان لیوا مرض ساتھ لے گئے اور احتیاطی تدابیر نظر انداز کیے جانے کے باعث یہ وبا دنیا کے تمام آباد علاقوں تک پھیل گئی اور قیامت برپا کر دی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ برصغیر میں اس وبا سے سوا کروڑ افراد کی جان گئی تھی جو برصغیر کی آبادی کا 5 فیصد تھا۔ امریکا میں اس سے سات لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ خطرناک وائرس نے رنگ، نسل اور ذات میں کوئی تفریق نہ کی تھی اور تباہی مچاتے ہوئے 1920 تک ختم ہوا۔ آج پوری دنیا کو درپیش مہلک مرض کورونا بھی لاکھوں افراد کو متاثر کرتے ہوئے ہزاروں کی زندگیاں نگل چکا ہے۔ اس وبا سے بھی تقریباً تمام ممالک متاثر ہو چکے ہیں۔ کورونا کو ہسپانوی فلو کے بعد تاریخ کی سب سے بڑی فلو کی وبا قرار دیا جا رہا ہے۔ 
اس بحث کا مقصد یہ جاننا ہے کہ وہ کون سے ایسے اسباق ہیں جو ہمیں سو سال قبل پھوٹنے والے ہسپانوی فلو سے سیکھنے چاہئیں، جن کو نظر انداز کیا گیا اور کروڑوں انسانی زندگیوں کا ضیاع ہوا۔ سب سے پہلا سبق تو لوگوں کو آگاہی دینے کا ہے۔ جیسا کہ 100 سال قبل Information Flow نہ ہونے کے برابر تھا، لیکن آج کے دور جدید میں پوری دنیا کو کورونا کے خطرناک نتائج سے باآسانی آگاہ کیا جا سکتا ہے، جس پر تیزی سے عمل ہو بھی رہا ہے۔ دوسرا سبق جو ہم سیکھ سکتے ہیں اس کا انحصار حکومت سے زیادہ عوام پر ہے اور یہ سماجی فاصلے یعنی Social Distancing کا سبق ہے۔ عوام کیلئے اپنے روزمرہ کے میل جول اور رہن سہن کے طریقہ کار کو فی الفور بدلنا ضروری ہے۔ یہ کوئی کتابی یا رٹی رٹائی تائید نہیں بلکہ عملی اور کامیاب فارمولا ہے، جس کی مثال ہمیں ووہان میں ملتی ہے کہ کس طرح چینی صوبے نے سماجی فاصلے قائم کرکے عالمگیر وبا کو شکست دے دی اور دنیا کو مثبت پیغام دیا۔ تیسرا سبق جو ہم سیکھ سکتے ہیں‘ وہ ''عوام کی سنجیدگی‘‘ ہے۔ کوئی شک نہیں کہ ہم میں سے کسی نے بھی عالمگیر وباؤں سے ہونے والی تباہی کو پہلے نہیں دیکھا، مگر نئی چیز ہونے کے باوجود عوام کو اسے سنجیدہ لینا چاہیے۔ یہ سنجیدگی آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں نظر بھی آ رہی ہے کہ عوام کورونا کے خطرے سے غافل نہیں‘ اور احتیاط کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور سبق جو ہمیں سیکھنے کو ملتا ہے وہ دلیرانہ حکومتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ جس ملک کے حکمران قابل اور اہل ہوں گے اور انتظامی نظام بہترین ہو گا‘ وہ ملک کسی بھی مشکل کا باآسانی مقابلہ کر سکتا ہے، جس طرح مذکورہ سپینش فلو کی وبا کے دوران آسٹریلوی حکومت نے دانش مندانہ انتظامی فیصلے کیے اور عوام کو بہ نسبت دیگر ممالک کے بڑے جانی نقصان سے بچا لیا۔ آج پاکستان میں بھی تحریک انصاف کی حکومت درپیش سنگین مسئلے پر محتاط نظر آتی ہے جو اپوزیشن، بیوروکریسی، حفاظتی اداروں، علما، پیرامیڈکس اور سب سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے ساتھ فیصلے لے رہی ہے۔ یہی بہتر گورننس ہے لہٰذا جن کا کام سیاست چمکانے اور تنقید برائے تنقید کے سوا کچھ نہیں ایسے کرداروں کی باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اس نازک صورتحال میں ہم سب کو سرکار کا ساتھ دینا چاہیے۔ 
کورونا کے خلاف یہ جنگ اکیلی حکومت کی نہیں بلکہ آزمائش کی اس گھڑی میں مشترکہ مدد اور احساس ہمدردی کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت نے تو اپنے وسائل کے دائرے میں رہتے ہوئے اس حوالے سے فنڈ قائم کر دیا، مگر آج ہر صاحبِ استطاعت اور ملک کے امیر طبقے کا امتحان ہے‘ جن کو Social Responsibility کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے علاقوں کے غریبوں، دیہاڑی دار، اناج سے محروم اور علاج نہ کروا سکنے والوں کی مدد کیلئے آگے آنا چاہیے۔ دنیا کی بڑی کمپنیوں کو بھی Corporate Social Responsibility (CSR) پر عمل پیرا ہوتے ہوئے انسانیت کی مدد کرنا چاہیے۔ اس مشترکہ جنگ میں سب کو اپنی اپنی ذمہ داری نبھانی ہو گی۔ افراد ہی نہیں ممالک کو بھی ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے جیسا کہ چین نے اپنے ملک میں وبا پر قابو پانے کے بعد300 ڈاکٹرز اور عملہ Dr Liang Zongang کی سربراہی میں اٹلی روانہ کیا ہے اور پاکستان کو بھی امدادی سامان اور طبی عملہ فراہم کیا ہے۔
کورونا کی وبا سے نمٹتے وقت دیگر اثرات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ یہ دیکھنا ہو گا کہ کورونا کے حوالے سے لیے گئے فیصلوں کے نتائج کیا نکلیں گے۔ جیسا کہ Yale University کے محقق Dr. Katz کا ماننا ہے کہ امریکہ یا کوئی بھی ملک (بشمول پاکستان) زیادہ روز تک لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اپنے ایک مضمون میں انہوں نے لکھا کہ لاک ڈاؤن سے معیشت کی تباہی اور نظام زندگی کے دیگر اہم عناصر جڑے ہیں، اس لیے معاشی مستقبل کی بقا کیلئے ممالک کو جلد از جلد روٹین پر لانا ناگزیر ہے۔ اگر یہ لاک ڈاؤن لمبے چل پڑے تو امریکہ سمیت پوری دنیا کی معیشت تباہ ہو کر رہ جائے گی، جس کے باعث زیادہ ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔ اس کیلئے حکومتوں کو کوئی ایسی پلاننگ کرنی چاہیے کہ لوگ صحت مند ہیں ان کو چودہ روز کی احتیاط کے بعد کلیئر قرار دے دیا جائے تاکہ کام کا پہیہ چل سکے، اور وہ افراد جن کے وبا سے متاثر ہونے کا اندیشہ زیادہ ہے‘ ان کے بارے میں احتیاط برتی جائے۔ انہی وجوہ کی بنا پر صوبہ Wuhan جہاں سے یہ مہلک وائرس پھیلنا شروع ہوا تھا‘ میں حالات قابو میں آتے ہی چینی حکومت نے لاک ڈاؤن ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اسی طرح دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت ہونے کے باوجود امریکہ میں بھی یہ بحث جاری ہے کہ ملک میں لگے لاک ڈاون کو جلد از جلد ختم کیا جائے تاکہ گرتی معیشت کو سنبھالا جا سکے۔ Harvard University میں شعبہ اکنامکس کے ڈائریکٹر Prof. Ricardo Hausmann نے بھی World Economic Forum کو لکھے اپنے ایک آرٹیکل میں دنیا کی توجہ ترقی پذیر ممالک کی جانب دلوائی۔ انہوں نے کہا کہ مشکل کے اس وقت میں سب مغربی ترقی یافتہ ممالک کی معیشت کا رونا رو رہے ہیں مگر ان لاک ڈاؤنز اور نظام زندگی رک جانے کا سب سے زیادہ نقصان ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو ہوگا، عالمی اداروں نے جلد ہی ان کی مدد نہ کی تو ان کی معیشت آئندہ کئی سالوں تک نہیں سنبھل سکے گی۔ Human Right Watch اور World Health Organization نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ تمام ممالک میں صحت کے نظام کو تیز بنایا جانا چاہیے تاکہ کورونا کے تمام متاثرین کا جلد علاج کرکے انہیں کام کرنے کے قابل بنایا جائے، جیسا کہ نیویارک کے گورنرCuomo نے اعلان کیا ہے کہ ان کی ریاست میں کورونا کے سنگین مریضوں میں صحت مند افراد کا پلازمہ داخل کیا جائے گا جو وائرس کے اثر کا توڑ ثابت ہو گا یعنی Anti-Virus بنے گا۔ 
جہاں تک بات ہے اس وائرس کے خاتمے کی تو اس وبا سے لڑنے کیلئے 4 ادویات Remdesivir , ChloroQuine, Kaletra اور Kaletra Plus پر تحقیق کی جا رہی ہے۔ WHO نے امید ظاہر کی ہے کہ کورونا کے مریضوں پر ان ادویات کے تجربات کے مثبت نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ برطانوی سائنسدان Reckon نے کورونا کے حوالے سے بتایا کہ فقط 4.4 فیصد مریضوں کو ہسپتال میں داخل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے‘ صرف ایک فیصد مریضوں کو وینٹیلیٹر پر جانے کی ضرورت پڑتی ہے اور بروقت احتیاط اور پلاننگ سے اس مرض پر قابو پانا ممکن ہے۔ ان تمام تر اقدامات کے باوجود دنیا کے بڑے بڑے سائنسدان ابھی تک اس وبا کے پھیلاؤ اور علاج کے حتمی نتائج تک نہیں پہنچ سکے۔ یہی وجہ ہے کورونا کا خوف دنیا بھر میں غیر یقینی کیفیت پیدا کر چکا ہے۔ اس سے بچنے کیلئے ہمارے پاس محدود آپشنز ہیں اور وہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہیں۔ اس وبا کا واحد اور آسان حل ''پرہیز‘‘ ہے، کیونکہ Prevention is better than Cure یعنی ''احتیاط علاج سے بہتر ہے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں