"MEC" (space) message & send to 7575

رہبری سے رہزنی تک

آٹے اور چینی بحران پر ایف آئی اے کی وہ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ آج کل موضوعِ بحث اور ٹی وی سکرین و سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے‘ جس میں اُن سیاسی سرمایہ داروں کے گٹھ جوڑ کا پردہ فاش کیا گیا ہے‘ جنہوں نے ملک کے ہر شعبے کو سالوں سے ڈھٹائی اور منصوبہ بندی کے ساتھ بحرانوں سے دوچار کر رکھا ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں سے تاجر، سوداگر اور کاروباری شخصیات اپنے ذاتی مفادات کی خاطر بالواسطہ یا بلا واسطہ پاکستانی سیاست و ریاست میں اپنی اجارہ داری قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ہر ریاستی فیصلے اور اقدام میں اس گٹھ جوڑ کی دخل اندازی معمول بن چکا ہے۔ ان سرمایہ داروں نے اپنے اثرورسوخ سے اور Quick Money کی ہوس میں مبتلا ہو کر پاکستانی سیاسی و ریاستی کلچر کو زنگ آلود کر دیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں 80 کی دہائی کے بعد کاروباری سیاست کو عروج ملا اور نجکاری کے فیصلوں کے بعد ملکی اثاثوں کی قریبی دوستوں میں بندر بانٹ کی گئی۔ یہ سیاسی سرمایہ دار آج بھی تسلسل کے ساتھ بلا خوف و خطر وارداتیں کرنے میں مصروف ہیں۔ صدیوں پہلے ''ریاست‘‘ اور ''جمہور‘‘ کا تصور دینے والے عظیم فلسفی افلاطون نے اپنی معروف کتاب ''جمہوریہ‘‘ (Republic) میں لکھا تھا ''سیاست اور تجارت دو الگ چیزیں ہیں، سیاست کا مقصد خالصتاً عوامی فلاح ہے جبکہ تجارت کا مقصد ذاتی مفاد و منافع ہے۔ مضبوط ریاست میں ایک سچا لیڈر Guardian ہوتا ہے‘ جس کی حیثیت ایک گڈریے جیسی ہوتی ہے۔ جس طرح وہ اپنے جانوروں کی خوراک اور ان پر آنے والی ہر مصیبت کو اپنے سر لیتا ہے اور انہیں ظالم بھیڑیوں سے بچاتا ہے، لیڈر کی بھی ٹھیک یہی ذمہ داری ہوتی ہے‘‘ مگر وطن عزیز میں تو آوے کا آوا ہی بگڑا نظر آتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاست سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار ہے۔ منافع اور اختیار دونوں مل رہے ہوں تو کون احمق اس نگری میں نہیں آئے گا؟ 
مذکورہ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں جو بڑے نام بے نقاب ہوئے ان میں سے بیشتر کا تعلق حکمران جماعت تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں سے ہے۔ کاروباری سیاسی شخصیات کی ملوں کو ترجیحی بنیادوں پر سبسڈی ملنا کئی دہائیوں سے پاکستانی سیاست کا کلچر رہا ہے، اور اس رپورٹ میں بھی یہی سب کچھ دیکھنے کو ملا۔ 2015 تا 18 کی تفصیل کے مطابق چینی کی سب سے زیادہ سبسڈی حاصل کرنے والے سب کے سب سیاستدان ہیں۔ رپورٹ میں صوبہ پنجاب سے متعلق خاص انکشافات سامنے آئے ہیں۔ بتایا گیا کہ 2019 کے شروع میں پنجاب میں شوگر ملز کو چینی کی برآمدات کیلئے سبسڈی ایک ایسے وقت پر دی گئی جب مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا‘ جبکہ کسی اور صوبائی حکومت نے تب کوئی سبسڈی جاری نہیں کی تھی۔ اسی باعث پنجاب میں چینی برآمد کرنے والوں نے دُہرا فائدہ اٹھایا۔ پہلا‘ ان کو 3 بلین کی سبسڈی مل گئی اور دوسرا فائدہ ان کو مارکیٹ میں مہنگی چینی بیچنے سے ہوا۔ اسی طرح گندم پر جاری ہونے والی رپورٹ میں صوبائی حکومتوں کی نااہلی کو آٹے کے بحران کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ صوبائی حکومتوں نے آٹے کی خریداری کے معاملات میں شدید غفلت کا مظاہرہ کیا۔ صوبہ پنجاب میں فوڈ ڈیپارٹمنٹ کے گندم خریدنے میں تاخیر کی وجہ سے مارکیٹ میں آٹے کی کمی پیدا ہوئی۔ آٹا ملوں پر کوئی کنٹرول نہ رکھا گیا اور محکمہ خوراک طلب و رسد کی چین کو قابو کرنے میں بھی ناکام رہا۔ اسی طرح سندھ نے ایک ملین ٹن آٹے کی ہدایت کے باوجود آٹے کی ایک بوری تک نہ خریدی جو بحران کی سب سے بڑی وجہ بنی۔ اگست 2019 کے آغاز میں جب آٹے کی قیمت آسمان تک جا پہنچی تھی تب بھی محکمہ خوراک سندھ نے کوئی ٹھوس اقدامات نہ کیے۔ خیبر پختونخوا میں بھی محکمہ خوراک نے سنگین غفلت کا مظاہرہ کیا اور گزشتہ دو سالوں میں صوبے میں آٹے کا ٹارگٹ پورا کرنے میں ناکام رہا۔ کوئی شک نہیں کہ یہ ابتدائی رپورٹس ہیں، مگر مافیاز کے حقیقی کردار منظرعام پر آنے کے بعد وزیراعظم کے کڑے امتحان کا وقت تھا۔ اور بلاشبہ یہ کریڈٹ وزیر اعظم عمران خان کو جاتا ہے کہ جہاں ان کو عہدے سے فارغ کر دیا‘ جن کا پارٹی کی تکمیل اور کامیابی میں نمایاں کردار ہے‘ وہیں خسرو بختیار کی وزارت بھی تبدیل کردی گئی۔ پنجاب کے وزیر خوراک بھی استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے اور کپتان نے عوام کو یقین دلایا ہے کہ فرانزک رپورٹ آنے کے بعد چینی اورآٹا چوروں کوعبرت ناک سزا ملے گی اورحکومتی فیصلے خود بولیں گے۔ مگرسوال یہ ہے کہ اس کڑے احتساب سے اگر ایک دو اہم شخصیات کو سزائیں مل بھی گئیں تو کیا ملک میں چینی یا دوسرے مافیاز ختم ہو جائیں گے؟ اس کا جواب سراسر ''ناں‘‘ ہے، کیونکہ یہ حقیقت پہلے ہی واضح ہے کہ سرمایہ دار ملک کے ہر شعبہ، ہر صنعت، ادارے اور خاص طور پر سیاست کی جڑوں تک دھنس چکے ہیں۔ اس صورتحال میں سب سے بڑی ذمہ داری بذات خود ریاست کی ہے کہ معاملات پر نظر رکھے اور اسے بہتر بنائے۔ پاکستان کا State System اتنا کمزور ہے کہ سبسڈی جاری ہونے اور اس کے استعمال کی کوئی مانیٹرنگ‘ کوئی چیک اینڈ بیلنس کی مضبوط پالیسی موجود نہیں۔ یہ مافیاز یا تو خود پالیسی میکرز ہوتے ہیں یا ان کا تعلق براہ راست پالیسی بنانے والی بڑی طاقتوں کے ساتھ ہوتا ہے‘ خواہ وہ حکومتی ہوں یا انتظامی، جیسے ٹیکس سے بچنے کیلئے ان کا سب سے بڑا ہتھیار Statutory Regulatory Order (SRO) ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ چار دہائیوں کے دوران پاکستان میں شوگر مافیا نے حکومت میں رہتے ہوئے 100 کھرب کے ٹیکس معاف کروائے‘ اور آج تک ریاست نے اپنے کسی ادارے کے خلاف کوئی عبرت ناک ایکشن نہیں لیا۔ پاکستان میں یہ کاروباری سیاست دان ہر صنعت پر قابض ہوئے بیٹھے ہیں‘ لہٰذا بے جا تحقیقاتی کمیٹیاں اور کمیشنز بنانے کی بجائے اصل ضرورت یہ ہے کہ ریاست اپنے اداروں پر کڑی نظر رکھے اور ان کے نظام کو درست اور شفاف بنائے۔ مافیاز کی سرگرمیوں اور سرمایہ داروں کے سیاست میں آنے میں صوبوں کا بھی بڑا کردار ہے۔ جب 18 ویں ترمیم کے تحت طاقت مرکز سے صوبوں میں تقسیم ہوئی تو ریاست کے اندر ذاتی جاگیریں بننا شروع ہوئیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کو لوٹ مار کے زیادہ مواقع ملے ۔ ہر صوبے میں سرمایہ دار اور وڈیرے حکومتوں اور انتظامیہ کے ساتھ سالوں پرانے تعلقات کی بنا پر سیاست میں داخل ہوئے اور پسندیدہ ریٹ پر سبسڈیز لیتے ہیں‘ جس کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔ یہاں بھی ریاست کو اپنا کردار نبھانا ہو گا۔ صوبوں کو دیئے جانے والے اختیارات اور ان کے اقدامات کی مانیٹرنگ اور پوچھ گچھ لازمی ہے۔ ملک میں سرمایہ داروں کو کام کا موقع ضرور دیا جائے مگر ان کو ریگولیٹ کرنا بھی مشروط ہے۔ ایسی سختی بھی نہیں ہونی چاہیے کہ صنعت کار کام کرنا ہی چھوڑ جائیں‘ اور ایسی نرمی بھی نہیں ہونی چاہیے کہ لوٹ مار کا سلسلہ یونہی چلتا رہے‘ لہٰذا ریاست کو نہایت محتاط اور ذمہ دار ہو کر چلنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں سمجھنا ہو گا کہ بزنس مین کی سوچ کبھی عوامی نہیں ہو سکتی۔ یہ لوگ جو ایک نشست کیلئے کروڑوں روپے صرف کر کے ایوانوں تک پہنچے ہیں‘ ذاتی مفادات کو بھلا کر عوامی مفادات کو ملحوظ کیسے رکھ سکتے ہیں؟ ہر سیاسی جماعت کو اس بارے میں سوچنا ہو گا چاہے وہ نون لیگ ہو جہاں شریف برادران آج تک کاروبارکے ساتھ منسلک ہیں فرق بس اتنا ہے کہ انہوں نے تمام بزنس کا وارث اپنی اولاد کو بنا دیاہے، یا وہ پیپلز پارٹی ہو جہاں آصف علی زرداری اور ان کے بیشتر وزرا زمین داری اور صنعت کاری سے منسلک ہیں، یا بیشک وہ تحریک انصاف ہو جہاں عمران خان کے دائیں بائیں سب سرمایہ دار افراد الیکٹ ایبلز کے نام پر حکومت کی مجبوری بنے بیٹھے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں ساری ناانصافیاں، کرپشن اور اقربا پروریاں انہی گٹھ جوڑوں کے باعث وقوع پذیرہورہی ہیں، اور ملک سیاسی، سماجی اور معیشت کے بدترین استحصال کا شکار ہے۔ جب تک ''کاروبار و تجارت‘‘ کو ''سیاست و ریاست‘‘سے الگ کرکے لٹیرے سوداگروں کو پارٹیوں سے مائنس نہیں کیا جائے گا، تب تک غریب عوام اور ریاست کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں