کسی بھی ریاست میں گڈ گورننس وہاں کی حکومت اور بیوروکریسی کے درمیان بہترین ورکنگ ریلیشن شپ پر منحصر ہوتی ہے‘ جہاں دونوں ادارے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا رہے ہوں اور عوام فلاحی اقدامات سے مستفید ہو رہے ہوں، مگر ریاست پاکستان اس مثالی صورتحال سے کہیں دور دکھائی دیتی ہے۔ دراصل پاکستان میں موجودہ بیوروکریسی کی ساخت برٹش راج کے دور سے جڑی ہے، جہاں انڈین سول سروس‘ جسے سلطنت میں Steel Frame of Bureaucracy مانا جاتا تھا، کے مضبوط ڈھانچے کے حاکم افسران خدمت گاری کے تصور سے بالکل آشنا نہ تھے۔ آزادی کے بعد بدقسمتی سے یہی نوآبادیاتی نظام کی تخلیق شدہ بیوروکریسی ہمیں ورثہ میں ملی، جس کی مخصوص تربیت اور ذہنیت ان کا عوام سے کوئی رشتہ نہ بنا سکی، اور پھر کچھ یوں ہوا کہ اس 'حاکم بیوروکریسی‘ جسے وقت کے ساتھ Evolve ہو کر 'عوامی بیوروکریسی‘ بننا تھا، عدم تحفظ کے باعث ریاست کی نہیں بلکہ سیاسی حکومتوں کی ملازم بنتی گئی، جس کا بھرپور سیاسی استعمال ہوا۔ کسی دور میں افسران اور حکام کی دوستیاں ایسی پکی چلیں کہ سالوں تک آپس میں جڑے رہے، حکومت کے منظور نظر رہے، اور کسی دور میں ان رشتوں کی مدت چند دنوں کی مہمان ٹھہری۔
'نیا پاکستان‘ بنانے کے خواب اور 'تبدیلی‘ کے نعرے کے ساتھ عمران سرکار جب اقتدار میں آئی تو وہ 'گورننس‘ نامی شے سے مکمل لا علم تھی۔ گورننس ہمیشہ سے عدم منصوبہ بندی کا شکار اور پیش بینی سے محروم رہی۔ یہ محرومیاں آج تک برقرار ہیں۔ عمران خان صاحب نے 2018 کے انتخابات سے قبل گورننس کا جو ماڈل پیش کیا تھا‘ حکومت اسے ڈلیور کرنے میں مکمل ناکام نظر آتی ہے۔ عمران خان صاحب کی نیت پر کوئی شک نہیں مگر ان کی ٹیم کے کھلاڑی ایسے اناڑی نکلے کہ ملک کو فقط تجربات کے حوالے کر دیا۔ خاص طور پر پنجاب کی انتظامیہ مسلسل تنقید کی زد میں رہی کہ نہ ہسپتال بدل سکے نہ تعلیم کا نظام، نہ مہنگائی قابو میں آ سکی اور نہ ہی گندگی کے ڈھیر اٹھائے جا سکے، نہ ڈینگی کنٹرول ہو سکا اور نہ ہی پولیو، سانحہ ساہیوال اور پی آئی سی پر حملہ محکمہ پولیس کی نالائقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مون سون میں لاہور تالاب کا منظر پیش کرتا رہا تو سردیوں میں سموگ پر قابو رکھنے کیلئے بھی اقدامات نہ کئے جا سکے۔ رہی سہی کسر آٹے کے بحران نے پوری کر دی۔ ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ میں بھی پنجاب حکومت کی ناکام گورننس کو آٹے بحران کی وجہ بتایا گیا۔ گورننس کی ناکامیوں کی اس لمبی فہرست کی سب سے بڑی وجہ حکومت اور بیوروکریسی کے مابین ناکام Working Relationship ہے۔
انتظامی مشینری کی کارکردگی بہتر بنانے کے نام پر افسروں کے تبادلے معمول کا ایک حصہ ہیں‘ لیکن لگتا ہے کہ جس ''تبدیل‘‘ کی بات خان صاحب کرتے تھے وہ گورننس کی نہیں بلکہ یہ تھی کہ فقط 20 ماہ کے عرصے میں پنجاب حکومت 5 آئی جی اور 4 چیف سیکرٹری بدل دے۔ ہر چند ماہ بعد میں اکھاڑ پچھاڑ کی طوفانی لہر چلتی ہے اور باری باری افسران اس کی زد میں آتے چلے جاتے ہیں۔ گزشتہ سال کے اختتامی مہینوں میں گورننس کی بدحالی اپنے عروج کو پہنچی تو وزیر اعظم عمران خان نے بذات خود ایکشن لیتے ہوئے پنجاب کی انتظامیہ میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کی تھی اور تب سینئر افسر میجر (ر) اعظم سلیمان کو چیف سیکرٹری پنجاب لگایا گیا تھا۔ وہ افسر وزیر اعظم کی نظر میں تو نہایت قابل تھا مگر یہاں انہیں کبھی قبول نہ کیا گیا۔ یہ باتیں بھی ہونے لگیں کہ صوبے میں اختیارات حکومت سے زیادہ بیوروکریسی کو منتقل ہو گئے ہیں، صوبے پر کنٹرول وزیر اعلیٰ کا ہے یا چیف سیکرٹری کا؟ یہ بات بھی اخباروں کی زینت بنی کہ چیف سیکرٹری کی وزیر اعلیٰ سے کسی بھی قسم کی کوآرڈینیشن نہیں۔ چیف سیکرٹری نے اپنی ساری ٹیم وزیر اعظم کی ہدایت پر تیار کی۔ وہ تمام افسران کے تقرروتبادلے بھی اپنی مرضی سے کرتے تھے اور پچھلے کافی عرصہ سے متعدد سمریاں بھی منظور نہیں ہو رہی تھیں۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کے کئی اراکین اسمبلی کو بھی شدید شکایات تھیں‘ جو اپنے علاقوں میں پسند کے ڈپٹی کمشنرز لگوانا چاہتے تھے، مگر چیف سیکرٹری ان کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ اعظم سلیمان صاحب پر کئی بار غلط تبادلوں کا الزام بھی لگایا گیا مگر انہوں نے صاف صاف انکار کیا۔ یہ بھی سننے کو ملا کہ پنجاب کے بعض اعلیٰ سیاسی عہدیداروں کو اعظم سلیمان سے چند ذاتی مسائل بھی تھے؛ چنانچہ صوبائی حکومت کے سربراہ یہ تمام تحفظات لے کر وزیر اعظم کی خدمت میں پیش ہوئے، اور پھر وہی ہوا‘ جو ہوتا آیا ہے۔ چند ماہ قبل پورے اعتماد کے ساتھ لگائے گئے چیف سیکرٹری سیاسی مافیا کے سامنے ہار گئے، اور انہیں میرٹ پر فیصلے کرنے کی ہی وجہ سے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے۔ شنید ہے کہ آئی جی صاحب کو بھی تبدیل کرنے کی سفارش کی گئی تھی جس پر وزیر اعظم نے فی الوقت صبر کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کی ہے۔
اب خدا جانے ان خبروں میں کتنی سچائی ہے اور کتنا جھوٹ‘ لیکن یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا ایسی تبدیلیوں سے صوبے میں گورننس بہتر ہو سکے گی؟ دراصل حکومت اور بیوروکریسی کے ایک پیج پر نہ ہونے کی وجوہ کچھ اور ہیں۔ یہاں حکومت اور بیوروکریسی کبھی ایک دوسرے کو سمجھ نہیں پائے اور نہ ہی ایک دوسرے کی امیدوں پر پورا اترے ہیں‘ جس کی سب سے بڑی وجہ حکومت کا افسران پر 'عدم اعتماد‘ ہے۔ ایک طرف وفاقی حکومت کی ہدایات ہیں تو دوسری طرف صوبائی حکومت کی، جس کے باعث Unity of Command نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی۔ لگتا ہے کہ وزیر اعظم پنجاب کو ''وائیں ماڈل‘‘ کی طرز پر چلانا چاہتے ہیں۔ وہ شاید حکومت کو کرکٹ کا میچ سمجھ بیٹھے ہیں، جہاں ایک کھلاڑی کو زیادہ موقع نہیں دیا جاتا اور نتائج حاصل نہ ہونے پر اگلے کھلاڑی کو بلا لیا جاتا ہے جیسا کہ کابینہ کی ہر میٹنگ میں کسی نہ کسی وزیر، مشیر یا افسرکی شامت آ جاتی ہے۔ یہ روایت اسد عمر سے شروع ہوئی تھی۔ اگر کسی صوبے میں 20ماہ میں پانچ آئی جی تبدیل ہوں تو اوسطاً ہر کسی کے حصے میں کتنی مدت آئی ہو گی؟ اور 'عدم تحفظ‘ کا شکار کوئی افسر اتنی قلیل مدت میں حالات کیسے بہتر بنا سکتا ہے؟ اور اب حال ہی میں سول سروس ریفارمز نے افسران میں احساس عدم تحفظ کو مزید ہوا دے دی ہے، جس میں کہا گیا کہ حکومت ناقص کارکردگی دکھانے والے سرکاری افسران کو سروس کے 20 سال بعد بھی جبری ریٹائر کر سکتی ہے۔ گویا سرکاری افسران ہر لمحہ اکھاڑ پچھاڑ اور نوکری ہاتھ سے جانے کے خدشات کے ساتھ کام کر رہے ہیں، جبکہ سرکاری افسران ہمہ وقت نیب اور دیگر اداروں کی پکڑ دھکڑ کے خوف میں بھی مبتلا رہتے ہیں‘ جس کے باعث وہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے ہزار بار سوچتے ہیں۔ عمران خان نے نعرہ لگایا تھا کہ Right Person for the Right Job تو پھر افسران کے چناؤ میں اتنی کنفیوژن کیوں؟ جس طرح ایک ہی افسر کو ڈیڑھ سال میں دو بار پنجاب کا آئی جی لگا دیا گیا‘ حکومت کو خود معلوم نہیں کہ ان کو ہٹانے کا فیصلہ درست تھا یا ان کو دوبارہ آئی جی لگانے کا فیصلہ ٹھیک تھا؟ اس کشمکش کی وجہ شاید تحریک انصاف کی یہ سوچ ہے کہ ہر افسر کا کہیں نہ کہیں پچھلے حکمرانوں سے واسطہ برقرار ہے، جس سے گزشتہ حکمران فائدہ حاصل سکتے ہیں۔ تیسری سب سے بڑی وجہ حکومت کی غلط ترجیحات ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد سے عمران خان کا واحد مقصد عوام کی فلاح سے زیادہ اپوزیشن کو انجام تک پہنچانا رہا ہے۔ افسران کو صرف یہ ٹارگٹ ملتا رہا کہ کس طرح سابقہ حکمرانوں کو گرفت میں لائیں، اور حکومتی راہوں کو ہموار کریں۔ لہٰذا ان تمام پیچیدگیوں کے بیچ گڈ گورننس کا خواب کیسے پورا ہو سکے گا؟
خیر اس بار پنجاب میں تبدیلی کا تمام تر اختیار وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو دیا گیا ہے۔ ایک عمومی تاثر یہ بھی ہے کہ افسر شاہی میں وزیر اعلیٰ کی ٹیم واپس آ رہی ہے۔ حالیہ تبدیلیوں نے چند گروہوں کے کان کھڑے کر دیئے ہیں کہ وزیر اعلیٰ اتنے بھی کمزور نہیں جتنا ان کو سمجھا جاتا ہے۔ گیم انہی کے ہاتھ میں ہے۔ اب وہ ہر صورت صوبے میں اپنے وفادار افسران کی ٹیم لائیں گے‘ جس میں کسی ارسطو کسی سقراط کی کوئی رائے اور کسی مشیر کا کوئی عمل دخل شامل نہیں۔ انہیں مکمل فری ہینڈ ملا ہے کہ وہ پنجاب میں گورننس کو بہتر کرنے کیلئے اپنی مرضی کی ٹیم بنائیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ اپنی لگائی نئی ٹیم کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ بنا پائیں گے؟ اور اس ٹیم کو صوبہ میں گورننس بہتر کرنے کا مکمل موقعہ مل سکے گا یا پھر یہ افسران بھی پچھلوں کی طرح ''غیر یقینی‘‘ و ''عدم تحفظ‘‘ کے خوف میں ہی بدل دیئے جائیں گے۔