"MEC" (space) message & send to 7575

معاشی بقا اور سوشل سکیورٹی

کورونا سے پیدا ہونے والا عالمی مالیاتی بحران جنگ عظیم دوم کے بعد سب سے بڑا معاشی دھچکا ہے۔ مہلک وبا نے پھلتی پھولتی عالمی معیشت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکر دیا ہے۔ سپرپاور امریکہ کو The Great Depression کے بعد بدترین معاشی تباہی کا سامنا ہے۔ چین کی معیشت 50 سال کے بدترین نہج پر جا پہنچی ہے۔ مجموعی طور پر دنیا کی معیشت3.4 فیصد سکڑنے کا خدشہ ہے۔ معیشت دانوں نے انتباہ جاری کیا ہے کہ رواں سال آنے والی گراوٹ کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر بیروزگاری پھیلے گی، آمدن میں کمی ہو گی، متوسط طبقہ پس جائے گا، غربت میں ہوشربا اضافہ ہوگا، اور یہ حالات 2008 کی کساد بازاری سے کہیں زیادہ سنگین ثابت ہوں گے۔ وطن عزیز پاکستان بھی اپنی محدود معیشت کے ساتھ کورونا سے نبردآزما ہے۔ تحقیق کے مطابق کورونا کے باعث لاک ڈاؤنز 6 ماہ میں پاکستانی معاشی ترقی کو 5.5 فیصد تک سکیڑ دیں گے۔ مالیاتی خسارہ 7.8 فیصد سے 9.4 فیصد تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ ملک میں Remittances رک جانے سے معیشت کی ترقی کا پہیہ ہی رک چکا ہے۔ پاکستان کے قرضے اور واجبات تقریباً ملکی GDP کے برابر پہنچ چکے ہیں۔ غربت کی لکیر 24 فیصد سے بڑھ کر 33 فیصد تک جا سکتی ہے‘ جبکہ لاک ڈاؤنز کے باعث ملک میں تقریباً 25 ملین (ڈھائی کڑور) افراد بیروزگار ہو سکتے ہیں، جن میں بڑی تعداد صنعت کار اور دیہاڑی دار طبقے پر مشتمل ہو گی۔
آج ہر کسی کے ذہن میں ایک ہی سوال ہے کہ اس وبا جو پوری دنیا کو جونک کی طرح چمٹ چکی ہے‘ سے کب اور کیسے جان چھوٹے گی؟ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ کوئی شخص اس وبا سے نجات پانے کے وقت کا تعین نہیں کر سکتا، یہ وائرس شاید ہمیشہ انسانوں کے ساتھ ہی موجود رہے گا، لہٰذا انسانوں کو اس کے ساتھ ہی جینا سیکھنا ہوگا۔ وائرس سے بچاؤ کا واحد حل ویکسین ہے، جسے عام آدمی تک پہنچنے میں کم و بیش 12 سے 18 ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے، لہٰذا اس پیچیدہ و طویل مرحلے میں گرتی معیشت کو بچانا اور عوام کو ''سماجی تحفظ‘‘ فراہم کرنا آج ہر ملک کیلئے بڑے چیلنجز بن چکے ہیں۔ امریکہ نے اپنے عوام کو 3 کھرب ڈالرز کا ریلیف پیکج دیا ہے جو اس کے کل جی ڈی پی کا 11 فیصد بنتا ہے۔ اس ریلیف پیکیج کے تحت فی خاندان 1000 ڈالر کا امدادی چیک مل رہا ہے۔ برطانیہ میں نوکری سے فارغ ہونے والوں کو9 ارب یوروز کی Self-Employment Income Support Scheme کے تحت ماہانہ 2500 یوروز دیئے جائیں گے‘ جن سے وہ اپنا نظام چلا سکیں۔ اسی طرح بھارت نے بھی 20 لاکھ کروڑ روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت عوام کو اناج، بیروزگاروں کو نوکریاں اور کسانوں اور چھوٹے کاروباروں کو ریلیف ملے گا‘ جبکہ پاکستان میں 1.4 کھرب مالیت کے ریلیف پیکیج میں 12 ہزار روپے فی خاندان دیئے گئے ہیں۔ اسی طرح بیروزگار افراد کو بھی 12 ہزار روپے دیئے جائیں گے۔ اسی دوران ملک کو ملنے والے بیرونی ریلیف کی تفصیلات کچھ یوں ہیں: پاکستان پر واجب الادا قرضے دسمبر تک مؤخر کر دیئے گئے ہیں، جبکہ IMF نے ہنگامی بنیادوں پر پاکستان کیلئے 1.4 بلین ڈالر اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے 1.7 بلین ڈالرز کا امدادی قرضہ منظور کیا ہے۔ عالمی بینک نے پاکستان کو 200 ملین ڈالر کا امدادی پیکیج فراہم کیا۔ یورپی یونین نے 26 ارب روپے جبکہ امریکہ نے 80 لاکھ ڈالرز کی امداد کا اعلان کیا ہے۔
اس نازک صورتحال میں لڑکھڑاتی ہوئی پاکستانی معیشت کو جلد از جلد بہتر بنانا ناگزیر ہے۔ حکومت کو وبا کے خاتمے کے انتظار کے بجائے چند مؤثر اقدامات اور تبدیلیوں کے ذریعے بہتری کی جانب بڑھنا ہو گا۔ پچھلے کئی ماہ سے پاکستان میں ٹیکس کولیکشن کا نظام زوال کا شکار ہے۔ گزشتہ ماہ کولیکشن میں 17 فیصد تک کمی دیکھی گئی، کیونکہ کاروبار بند ہونے اور استثنا ملنے سے مطلوبہ ٹیکس اکٹھا نہ ہو سکا۔ لہٰذا اب پاکستان میں Taxation کے نظام پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ملکی تجارت رک جانے سے پاکستان کو رواں ماہ برآمدات میں 4 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا لہٰذا پاکستان میں ایک نئی جامع تجارتی پالیسی سامنے لاتے ہوئے معاشی ترجیحات کو فوری بدل کر برآمدات کو بڑھانا ہوگا، اور نئی برآمداتی منڈیوں کی تلاش شروع کرنا ہوگی۔ اس حوالے سے چین پاکستان کیلئے ایک بڑی اور فائدہ مند منڈی ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ دوست ملک کے ساتھ پہلے ہی فری ٹریڈ کے معاہدے چل رہے ہیں‘ جس کے تحت پاکستان اپنی1040 مصنوعات پر ڈیوٹی فری تجارت کر سکتا ہے۔ تجارت بڑھانے کیلئے ہمیں اپنے شعبہ زراعت و خدمات پر خاص توجہ دینا ہوگی، کیونکہ یہ شعبے ملک کی معیشت کو سنوار سکتے ہیں۔ اسی طرح غیر ضروری درآمدات میں کمی لاتے ہوئے لوکل فیکٹریوں کو آباد کرنا ہوگا تاکہ درآمدات اور برآمدات میں توازن برقرار رہ سکے۔ اس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور درآمدات پر خرچ ہونے والا اضافی خرچہ بھی بچایا جا سکے گا۔ کورونا کی وبا انسانوں کی روزمرہ زندگی کے متعدد طریقہ ہائے کار کو بھی تبدیل کر چکی ہے مثلاً ملازمت اور خریداری کا طریقہ، آج ہر ملک Work From Home اور Online Shopping کے طریقوں کو اپنائے ہوئے ہے؛ چنانچہ پاکستانیوں کو بھی اپنی زندگی کے رویّوں اور طریقہ ہائے کار میں تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ اسی طرح عوام کو 'سماجی تحفظ‘ فراہم کرنے کیلئے بھی ایک جامع منصوبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان میں سوشل سکیورٹی کے جو گنے چنے پروگرام پہلے سے چل رہے ہیں‘ ان میں سرفہرست بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے، جو اب 'احساس پروگرام‘ کے نام سے جانا جاتا ہے‘ جس کے ذریعے مستحقین کی ماہانہ مالی امداد کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت پاکستان کے زیر انتظام Employees Old Age Benefits Institution (EOBI) کا ادارہ فعال ہے‘ جس کے ذریعے ریٹائرڈ بزرگ سرکاری ملازمین کو پینشن کی صورت میں Social Insurance مہیا کیا جاتی ہے، جبکہ پاکستانی بیت المال (PBM) بھی غریب اور مستحق افراد کو ماہانہ امداد فراہم کرتا ہے۔ ہماری تاریخ کا نوحہ یہی ہے کہ کسی حکومت نے عوام کے سماجی تحفظ کے لیے تسلسل کے ساتھ کبھی سیاسی آمادگی یا جامع پروگرام کا آغاز نہیں کیا۔ اس حوالے سے باتیں بہت ہوئیں؛ تاہم پالیسیوں میں کبھی تبدیلی نہیں لائی گئی۔ مگر آج ملک میں حقیقی مستحقین کی تلاش کیلئے ٹائیگر فورس کی بجائے ایک مضبوط Program Data Base کی ضرورت ہے، جو NADRA کے ساتھ مل کرملک کے تمام غربا، مستحقین اور متاثرین کا ریکارڈ رکھے۔ حکومت کے پاس سفید پوش، بیروزگار افراد اور ضرورت مندوں کی تمام تفصیلات ہمہ وقت موجود رہنی چاہئیں تاکہ ان افراد کو مکمل شفافیت کے ساتھ، میرٹ پر مبنی اور ضرورت کے حساب سے براہ راست فائدہ پہنچایا جا سکے، جس کے ذریعے یہ چیکنگ بھی ممکن بنائی جا سکے کہ کون سا خاندان کس سکیم کے تحت پہلے سے مالی فوائد حاصل کر رہا ہے‘ اور پھر اس تمام عمل کی باقاعدہ سخت Monitoring بھی کی جائے۔ اسی طرح ملک میں بڑی کاروباری شخصیات، مختلف آرگنائزیشنز، چینی و فلور ملز مالکان کو بھی آن بورڈ لینا چاہیے‘ جن کی معاونت کے ساتھ حکومت ملک میں خوارک کے Strategic Reserves کو قائم رکھے‘ کیونکہ آج عوام کی سب سے بڑی ضرورت ان کی Food Security ہے۔ اس کے علاوہ عوام کو نقد امداد کے بجائے ریلیف 'بنیادی ضروریات‘ کی فراہمی کی صورت میں مہیا کرنا ہو گا، کیونکہ نقد امداد میں خورد برد کے خدشات زیادہ ہیں؛ چنانچہ آج ماضی کے ''راشن کارڈ سکیم‘‘ کی طرز کا کوئی پروگرام شروع کرنے کی ضرورت ہے، جو کبھی ملک کے غربا کیلئے ایک مضبوط سہارا تھا۔ ہمسایہ ملک بھارت میں ایسی سکیمیں آج تک فعال ہیں، جس کی بدولت غریب اور مستحق عوام علاقائی و مذہبی تفریق سے بالاتر ہو کر خوراک میں ریلیف حاصل کرتے ہیں۔ آج 'غیر یقینی‘ کے دور میں ہر حکومت اپنی استطاعت کے مطابق بندشوں کے نقصانات کو کم سے کم رکھنے اور عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف و تحفظ فراہم کرنے میں مصروف ہے۔ وطن عزیز میں بھی یہی راہ اختیار کرنا ہو گی۔ کورونا کی وبا ابھی باقی رہے گی، مگر مضبوط و مربوط منصوبہ بندی اور Social Security کے ذریعے سماج کے کمزور طبقات اور ملک کو معاشی بحران کے خطرناک اثرات سے بچانے کی کچھ کوشش کی جا سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں