"MEC" (space) message & send to 7575

مائنس ون‘ مائنس تھری یا مائنس آل ؟

ملکی سیاست میں ایک بار پھر 'مائنس ون‘ یا 'مائنس تھری‘ کا شوروغوغا ہے‘ جمہوری طاقتیں اپنے غیرجمہوری رویوں سے حکومتِ وقت کی راہ میں روڑے اٹکانے کی روایات کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ آسان الفاظ میں 'مائنس ون‘ کا مطلب ہے کیا؟ یعنی اقتدار سے عمران خان ہٹ جائیں مگر حکومت چلتی رہے‘ جس طرح ماضی میں مائنس نواز شریف یا مائنس بینظیر جیسی خواہشات ہوتی رہی ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ فقط دو سالوں میں اقتدار میں ہوائیں مخالف رخ پر چل پڑی ہیں۔ مگر یہ سب کچھ نیا نہیں‘ پاکستان میں ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے‘ جمہوریت جس کی اصل روح عوام کی بالادستی ہوتی ہے وہ تو ایک آزاد سیاسی‘ اخلاقی‘ معاشی اور معاشرتی ڈھانچے اور اکثریت کی اطاعت کا نام ہے‘ جو کہ برطانوی پارلیمانی نظام‘ انقلابِ فرانس اور صنعتی انقلاب کے بعد دنیا میں ایک کامیاب حکومتی ماڈل کے طور پر ابھر کر سامنے آیا تھا‘ مگرپاکستان سمیت مختلف جمہوری ممالک میں جمہوریت کی اصل روح کو مجروح و پامال کر دیا گیا ہے۔ جمہوریت اور آزادی کی آڑ میں فسطائیت اور حاکمیت پروان چڑھ رہی ہے۔ ذرا سوچیں کہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے صرف نسل پرستی کی بنیاد پر ووٹ حاصل کیے۔ جس طرح وہ اپنی تقریروں میں 1776 کی آزادی اور بانیان امریکہ کے بنیادی عقائد کی نفی کرتے رہے ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں‘ اور آج اس جمہوری نظام میں رنگ و نسل کی نفرتوں کی آگ اس حد تک پھیل چکی ہیں کہ مریض تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں مگر انہیں علاج نصیب نہیں ہوتا۔ Anne Applebaumنے بھی اپنی مشہور کتاب Twilight of Democracy میں دنیا خصوصاً امریکہ میں جمہوریت کے بجھتے دیے کی ترجمانی بخوبی انداز میں کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں جمہوری انتخابات کا طریقہ کار خود غیرجمہوری ہے‘ جہاں چند ہی جماعتیں قابض ہیں۔ ایک اور امریکی مصنف Francis Fukuyamaنے بھی اپنی کتابوں The End of History and the Last ManاورPolitical Order and Political Decay میں کمزور اور مضبوط جمہوری نظام میں احسن طریقے سے تفریق کی ہے‘ اور اس بات پر زور دیا ہے کہ جمہوریت میں شعور اور میچورٹی کی ضرورت ہے ‘ اگر اس نظام کے ساتھ بے جا اور اندھا دھند چلتے رہے تو بربادی ہو سکتی ہیں۔ روس میں پیوٹن نے 2036 تک قبضہ جما لیا ہے‘ ترکی میں اردوان حکومت نے تمام اداروں کو اپنے اختیار میں لے لیا ہے‘ اور سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت میں مودی سرکار کے فسطائی رویوں سے سب بخوبی واقف ہیں۔ جمہوریت اورآزادی کی آڑ میں تو کولمبیا میں منشیات کا سب سے بڑا ڈان Pablo Escobarتک بھی انتخابات جیت گیا تھا۔ کیا یہ بھی ٹھیک تھا؟ یہی وہ خدشات تھے جس کی وجہ سے ارسطو جیسے فلسفہ دان جمہوریت کے حق میں نہیں تھے‘ افلاطون کی کتابوں میں بھی جمہور کے بتائے گئے مقاصد اورآج کی جدید جمہوریت کے مقاصد میں شدید تضاد پایا جاتا ہے۔ 
کسی بھی ملک میں حقیقی جمہوریت جانچنے کا پیمانہ بے حد آسان ہے۔ سب سے پہلے تو دیکھا جائے کہ کیا وہاں ایوانِ نمائندگان حقیقی معنوں میں فعال ہے؟ اور عوام سے منتخب شدہ نمائندے عوامی فلاح وبہبود کیلئے فیصلہ سازی کر رہے ہیں یا نہیں؟ کیا وہاں تمام ریاستی ادارے اپنی ذمہ داریاں کامیابی سے انجام دے پا رہے ہیں ؟ کیا لوگوں کو اظہار اور تنقید کرنے کی آزادی ہے؟ کیا آئین و قانون کی حکمرانی ہے ؟ اور کیا وہاں ہر انسان کی جان اور مال محفوظ اور معاشی اور معاشرتی انصاف موجود ہے ؟ پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں کمزور جمہوریت کا فائدہ طاقتور ادارے بخوبی اٹھانا جانتے ہیں۔ ہماری تاریخ یہ حقیقت عیاں کرتی ہے کہ جمہوری نظام جس سے بہت سی امیدیں اور توقعات وابستہ تھیں اس کی موت واقع ہوچکی ہے ‘ وہ اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکی۔ جمہوری نظام نے پاکستان کو کونسا عوامی لیڈر دیا؟ اس نظام نے ہمیں نواز شریف دیا‘ آصف زرداری اور فضل الرحمن دیے‘ حکومتوں نے ماسوائے ایک دوسرے کو گرانے اور بنانے کے کیا کیا؟ کیا یہاں کبھی Parliamentary sovereignty رہی؟ پارلیمان میں سوائے تحریک عدم اعتماد‘ مائنس ون مائنس تھری‘ شورشرابوں‘ گالم گلوچ کے کونسی گونج سنائی دی؟ آئینی شقوں اور اختیارات کو صرف سیاسی ہتھیاروں کے طور پر استعمال میں لایا اور تبدیل کیا گیا۔ ملک میں امن و سکون اور نظم و ضبط باقی نہ رہا‘ شدت اور انتہا پسندی عروج پر پہنچ گئی‘ حکومتی سطح سے لے کر یونین کونسلز تک کرپشن ‘ لوٹ مار کا بازارگرم ہے۔ جمہوریت جس کی روح تو یہ تھی کہ نظام نچلی (مقامی) سطح تک منتقل کیا جائے جس کی تائید آرٹیکل 140 بھی کرتا ہے ‘مگر ایسا مثالی نظام پاکستان میں کبھی آنے ہی نہ دیا گیا‘ بہتری کا نعرہ تو سب نے لگایا مگر عوام ہرحکومت میں بدحال ہی رہے۔ آج ملک کے وسیع تر مفاد میں سوچنا ہوگا کہ جمہوری نظام نے پاکستان کو زیادہ فائدہ پہنچایا یا نقصان؟ہمیں حقیقت مان لینا ہوگی پاکستان کا جمہوری پارلیمانی نظام ملک چلانے کیلئے موزوں نہیں۔ یہ ماڈل تو شاید مغرب کیلئے ہی بنا تھا ‘ جہاں آبادی کم اور پڑھی لکھی ہے‘ اور ہیومن ڈویلپمنٹ کا تمام انتظام موجود ہے۔ مگر پاکستان جہاں ووٹ ایک بریانی کی پلیٹ پر بک جائے‘ جہاں ان پڑھ عوام کی بڑی تعداد غربت کی لکیر پر زندگی گزارنے پر مجبور ہو‘ وہاں بھلا کون جمہوریت کی اصل روح کو سمجھ سکتا ہے؟ 
دنیا کی بیشترریاستوں کی حکومتیں ایسے ماڈلز پر چل رہی ہیں جن کی کامیابیاں خود اپنے منہ بولتی ہیں۔ دو ممالک کا ذکر کرنا بے حد ضروری ہے۔ چین میں حکومت آزاد جمہوری روایات کی حامی نہیں ہے بلکہ وہاں تمام تر توجہ معاشی ترقی پر ہے۔ وہاں فیصلہ سازی ضرور حاکمانہ ہے ‘ مگر Meritocracy ہے ‘ اقتدارمیں کون آئے گا؟ یہ فیصلہ وہاں کی کمیونسٹ جماعت کی کمیٹی میرٹ پر کرتی ہے۔ وہاں لیڈرز اپنی کارکردگی کی بنا پر چنے جاتے ہیں۔ اگر وہاں کسی حکمران کو توسیع دی جانی ہو تو اس کے لیے بھی ٹھوس وجہ ہونا ضروری ہے ‘ جس طرح موجودہ صدر Xijinping اپنے تیسرے دور حکومت میں ہیں جس کی وجہ بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹس ہیں۔وہاں سماج میں پلنے والی معاشرتی بیماریوں‘ ناانصافیوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ کئی بار چین پر انسانی حقوق کی پامالی کے الزامات بھی لگے‘ مگر چین کے مطابق یہ فیصلے ان کے وسیع تر مفاد میں ہیں۔ چین کی معیشت Trickle-down approachپر چل رہی ہے۔سنگا پور حکومت کا ماڈل بھی قابلِ تعریف ہے‘ جہاں ون پارٹی نظام قائم ہے۔ وہاں کی پارلیمنٹ کی فقط تین ذمہ داریاں ہیں: قوانین بنانا‘ بجٹ اور مالی معاملات پر بحث کرنا اور حکومتی کارکردگی کا جائزہ لینا۔ جہاں تمام اراکین عام انتخابات سے منتخب ہو کر نہیں آتے ‘ بلکہ نان الیکٹڈ تجربہ کار اور نامی نیٹڈ ماہرین بھی میرٹ پر پارلیمان کا حصہ بنتے ہیں۔ کہنے کو تو سنگا پور کا نظام پاکستان کے پارلیمانی نظام سے ملتا جلتا ہی ہے‘ مگر دونوں ممالک کی کارکردگی تمام حقیقت عیاں کر دیتی ہے۔ 
آج ملک کے حکومتی نظام میں تبدیلی درکار ہے‘ اگر یہی بیڈ گورننس اور ذاتی پسند نا پسند کا نظام چلتا رہا تو بات مائنس ون سے آگے بڑھ جائے گی۔ آج ملک میں سوائے دو اداروں کے باقی ہر ادارہ تباہی سے دوچار ہے۔ آج نہ صرف وزیراعظم بلکہ سپیکر کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد اور پارلیمنٹ کے کمروں میں آئندہ چھ ماہ کے دوران مڈ ٹرم الیکشن کی باتیں بھی سننے کو مل رہی ہیں‘ یوں لگتا ہے کہ جیسے اب مائنس آل ہوگا‘ لہٰذا اس سیاسی کشمکش سے چھٹکارا حاصل کرتے ہوئے پاکستان میں تمام تر توجہ عوامی فلاح‘ معیشت ‘ گڈ گورننس اور میرٹ کی جانب دینا ہوگی‘ جس کیلئے معاشی ترقی پر مبنی کوئی نیا حکومتی نظام لانا ناگزیر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں