"MEC" (space) message & send to 7575

تحریک انصاف کے خیالی وعدے

29 اپریل 2018ء کی شام مینار پاکستان کا میدان امید کی کرنوں سے جگمگا رہا تھا‘ چاروں اطراف ''تبدیلی‘‘ کے فلک شگاف نعرے گونج رہے تھے۔ یہ الیکشن سے قبل تحریک انصاف کا عوامی پاور شو تھا‘ جس میں شریک ہزاروں بچے‘ بوڑھے‘ عورتیں اپنی آنکھوں میں روشن مستقبل کا خواب سجائے عمران خان پر نظریں جمائے کھڑے تھے۔ انھیں یقین تھا کہ یہی وہ مسیحا ہے جو ان کی تنگ حال زندگی کو خوش حال بنا دے گا۔ کپتان نے بھی اس جلسے میں عوامی امنگوں پر مشتمل بے شمار وعدے کئے‘ کہا: تحریک انصاف نیا پاکستان بنائے گی جس میں کرپشن کا خاتمہ کر دیں گے‘ معیشت کو سنوار دیں گے۔ تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو وزیر اعظم کے 100 روزہ ایجنڈے کے چھ نکات میں بھی ملک کے تمام مرکزی مسائل کا عکس واضح تھا۔ جن میں طرزِ حکمرانی کو بدلنا ‘ وفاق پاکستان کا استحکام ‘ معیشت کی بحالی‘ زرعی ترقی اور پانی کا تحفظ‘ سماجی خدمات میں انقلاب اور پاکستان کی قومی سلامتی کی ضمانت شامل تھے۔ مگر آج دو سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد یہ وعدے کتنے وفا ہوئے؟جائزہ لیتے ہیں۔
تبدیلی کے سفر میں سب سے پہلا پڑاؤ طرز حکمرانی کو بدلنا تھا‘ جس کیلئے آزاد اور کڑے احتساب‘ اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی‘ سول سروسز اور پولیس میں اصلاحات لانے جیسے وعدے کیے گئے۔ مگر دو سالوں میں حقیقی احتساب کس کا ہوا؟ ٹاسک فورسز تو بنائی گئیں پر عملاً کوئی کارروائی نہ ہوئی‘ لوٹا گیا ایک روپیہ بھی اس ملک میں واپس نہ آیا۔ اسی طرح بلدیاتی ادارے ختم کرکے مقامی حکومت کا ایسا قانون دیا گیا جو قابلِ عمل ہی نہیں۔ نہ کلرک بدلا‘ نہ ہی پٹواری بلکہ ان کی کرپشن کے ریٹ مزید بڑھ گئے۔ سول سروس میں تبدیلیاں لانے کی دیر تھی کہ بیوروکریسی حکومت سے بدظن ہوگئی۔ پولیس کو مثالی بنانے کا خواب بھی چکنا چور ہوا‘ سانحہ ساہیوال ‘ پی آئی سی کا واقعہ اور اب حال ہی میں موٹروے کا سانحہ اداروں کی کارکردگی پرسوالیہ نشان لگا گیاہے۔ صفائی کی ناقص صورتحال‘ خوراک کے مصنوعی بحران‘ اور مہنگائی کے طوفان بھی موجودہ سرکار کی ''گورننس ‘‘کی زندہ مثالیں ہیں۔ دوسرا بڑا مشن ملکی معیشت کی بحالی تھا‘ اس ضمن میں ایک کروڑ نوکریوں‘ 50 لاکھ گھروں اور ٹیکس اصلاحات جیسے بڑے وعدے کئے گئے‘ مگر بیشتر اہداف پورے نہ ہوئے۔ مہنگائی کی شرح 2018ء میں 6.2 فیصدتھی جو اب 9.3 فیصد ہو چکی ہے‘ معاشی ترقی کی شرح 2017 ء میں 5.5 فیصد تھی جو آج منفی0.38 فیصد ہے۔ ملکی قرضہ آج 35.5کھرب روپے تک جا پہنچا ہے‘ جس میں ڈومیسٹک قرضہ 23.4 کھرب اور بیرونی قرضہ 12.1 کھرب ہے‘ اقتدار سے قبل قرضوں پر لعن طعن کرنے والی پی ٹی آئی نے پہلے دو سال میں ہی 11.3 کھرب روپے کا قرض لے لیا‘ جبکہDebt Servicingبھی 2.6 کھرب روپے تک جا پہنچی ہے‘ جو آئندہ سال تین کھرب سے تجاوز کر جانے کا خدشہ ہے۔ 
ملک میں صوبائی کٹوتیوں کے بعدنیٹ ریونیو 3.3 کھرب ہو ‘اس میں بھی 80 فیصد صرف ڈیبٹ سروسنگ میں چلا جائے تو باقی کیا بچے گا ؟ خیر قرضے بڑھانے میں تو گزشتہ حکومتیں بھی برابر کی شریک ہیں‘ 2018ء میں جب پی ٹی آئی نے اقتدار سنبھالا تو زرمبادلہ کے ذخائر چھ ہفتوں کے باقی رہ گئے تھے جس کے پیش نظر نئے قرضوں کا حصول ناگزیر تھا۔ اسی طرح حکومت کا 50 لاکھ گھروں کا وعدہ اور دیگر تعمیراتی منصوبے بھی حقائق کے برعکس لگتے ہیں۔ حکومت نے نیا پاکستان ہاؤسنگ ایند ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی 30 ارب روپے کی سبسڈی کے ساتھ بنیاد تو رکھ دی مگر دو سال بعد بھی منصوبہ ابتدائی مراحل سے گزر رہا ہے‘ حالانکہ نئی اتھارٹی کی ضرورت کیا تھی ‘ ملک میں پہلے ہی سے نیشنل ہاؤسنگ اتھارٹی اور پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کام کر رہی ہیں۔حال ہی میں راوی ریور فرنٹ اربن ڈیو یلپمنٹ پروجیکٹ بھی شروع کیا گیا۔ اس منصوبے کا مستقبل کیا ہوگا؟ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ حکومت ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ بھی پورا نہ کر سکی‘ بیروزگاری کی شرح ہرروزبڑھ رہی ہے ‘مگر روزگار کا کوئی ٹھوس پروگرام عملاً دکھائی نہیں دیتا۔
اگر حکومت کی کسی بڑی معاشی کامیابی کی بات کریں تو وہ ملک میں سپیشل اکنامک زونز کو بڑھانا ہے‘ 2018ء تک صرف سات اکنامک زونز تھے‘ تحریک انصاف نے اپنے پہلے سال چھ نئے زونز کا اضافہ کیا اور رواں سال بھی وزیر اعظم 10 نئے زونز کی منظوری دے چکے ہیں۔ اسی طرح ایک اور بڑا مشن زرعی ترقی تھا‘ جس ضمن میں زرعی ایمرجنسی اور کسانوں کیلئے مالی سکیموں کا اعلان ہوا‘ مگر وہ وعدے بھی ہوا ہوگئے۔ سماجی خدمات میں انقلاب لانے کے مشن میں صحت اور تعلیم کی ترقی کے وعدے ہوئے تھے‘ مگر دونوں شعبہ جات کی ناقص صورتحال جوں کی توں ہے‘ نہ وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں بدلا گیا ‘ نہ ملک میں یکساں نظامِ تعلیم نظر آتاہے۔ مدرسہ اصلاحات بے شک اس حکومت کی ایک بڑی کامیابی ہے‘ مگر نجانے اس پر بھی عمل ہوتا ہے یا نہیں ؛ چنانچہ یہ تمام تلخ حقائق اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ تحریک انصاف اپنے زیادہ تر وعدوں کو پورا کرنے میں تاحال ناکام ہے۔ اس حکومت کے پاس پلاننگ اور منصوبے تو بہت سے ہیں مگر فقط کاغذوں کی حد تک‘ حکومت میں ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت نظر نہیں آتی۔حکومتی نیت پر کوئی شک نہیں مگر حکمران ٹیم میں عملی کارکردگی کا فقدان ہے۔ بقول داغ
غضب کیا تیرے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
اس حکومت کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ ملک میں معاشی بحالی کیلئے اقتصادی ترجیحات بدلنے کی ضرورت ہے۔ جیسے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے کیلئے حکومت نے توانائی کے سیکٹر میں پانچ ارب ڈالر کی درآمدات کم کر دیں‘ ترسیلات میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا‘ محصولات کو بھی بڑھا دیا گیا‘ ان عوامل سے خسارہ تو بیلنس ہوگیا مگر محصولات بڑھنے سے درآمد شدہ خام مال مہنگا ہوا اور ملک میں لارج سکیل مینو فیکچرنگ زوال پذیر ہوگئی؛ چنانچہ وہ مرکزی عمل جس سے معیشت پر مثبت اور دیرپا نتائج مرتب کیے جا سکتے تھے اسے نظر انداز کیا گیا‘ اور وہ ہے ملکی برآمدات کو بڑھانا۔ اگر حقیقی معنوں میں معیشت کو بحال کرناہے تو برآمدات بڑھانے پر زور دینا ہوگا‘ ہماری معیشت کو آج Export Led Growth Model کی ضرورت ہے‘ جس پر عمل پیرا ہوکر چین‘ جنوبی کوریا‘ تائیوان اور سنگاپور نے غربت کا خاتمہ کیا اور ملک کو ترقی کی منزلوں تک پہنچایا۔ اسی طرح پاکستان کو زیادہ سے زیادہ Foreign Direct Investment بھی لانی چاہیے۔ دور ِجدید میں معیشتیں 3D ماڈل پر چل رہی ہیں یعنی Deregulation‘ Devolution اور Digitalizationجن کے ذریعے کاروبار میں آسانی ‘ جدید خدمات کی فراہمی‘ اور عالمی سطح پر معاشی مقابلے کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ ہمیں بھی یہ ماڈل اپنانا ہوگا۔ اسی طرح پنجاب میں معاشی استحکام کیلئے نئے پروگرام Public Finance Management پر بھی کام ہورہا ہے‘ یہ جامع منصوبہ معیشت کی بحالی میں سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے جسے جلد از جلد فعال کیا جانا چاہیے۔ پاکستان کا ٹیکس نظام بھی اصلاحات کا متقاضی ہے‘گزشتہ پانچ سالوں میں ملک میں 1258 ارب روپے کے ٹیکس کی ہیرا پھیری کی گئی‘ لہٰذا ٹیکس نظام میں چور راستوں کو بند کیے بغیر معیشت کو راہ راست پرنہیں لایا جاسکتا‘ ہمیں اپنے شعبہ آئی ٹی پر بھی خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے‘گزشتہ سال پاکستان میں آئی ٹی کی برآمدات 3.5 بلین ڈالر رہیں جبکہ بھارت نے اس شعبہ میں 100 ارب ڈالر سے زائد کی برآمدات کیں‘ ہم بھی آئی ٹی کی برآمدات بڑھا کر معاشی انقلاب لا سکتے ہیں؛چنانچہ معیشت اور دیگر شعبوں کی ترقی حکومت کے ٹھوس عملی اقدامات سے مشروط ہے‘ فقط تقاریر اور فائلوں پر دستخط کر دینے سے کچھ نہیں ہوتا‘ منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا ہی حکومت کا اصل امتحان ہوتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں