پانی اور خوراک کے بعد انسان کی تیسری بنیادی ضرورت گھر کو سمجھا جاتا ہے‘ جو اس کی جسمانی‘ سماجی اور نفسیاتی تحفظ کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ کسی بھی ملک میں ہاؤسنگ باقاعدہ ایک عمل کا نام ہے جس میں عوام کو باعزت چاردیواری فراہم کرنا‘ آسان قرضے دینا‘ انفراسٹرکچربڑھانا‘ ملازمتوں کے وسیع مواقع پیدا کرنا‘ نجکاری اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ 1930ء کی دہائی میں Great Depression کے بعد امریکی صدر روز ویلٹ نے معیشت کی تعمیر نو کا بیڑہ اٹھایا تو ہاؤسنگ سیکٹر کو خاص اہمیت دی گئی۔ہاوسنگ کا شعبہ New Dealمیں شامل تھا‘ جس کے تحت 30 برسوں میں 50 فیصد امریکی شہری خوشحال زندگیوں کی طرف لوٹ آئے۔ دوسری عالمی جنگ کی تباہی کے بعد بھی متاثرہ ممالک نے ہاؤسنگ کے ذریعے تباہ حال معیشتوں کو سنوارا؛ چنانچہ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ہاؤسنگ سیکٹر براہ راست معاشی ترقی سے منسلک ہے۔ گھروں کی خرید و فروخت اور تعمیراتی شعبے میں ترقی کے اثرات ملکی معیشت پر پڑتے ہیں‘ ہاؤسنگ خاطرخواہ ٹیکس اور خدمات وسہولیات کی مد میں ریونیو اکٹھا کرنے کا بھی ذریعہ ہے‘ جبکہ قرضے دینے سے بینکنگ سیکٹر بھی ترقی کرتا ہے۔
دنیا میں ہاؤسنگ کے کامیاب ماڈلز میں چند کا جائزہ لیں تو امریکہ میں ہاؤسنگ کو کئی دہائیوں سے نجی سرمایہ کاری کے نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے‘ جہاں ہاؤسنگ میں حکومتی کردار فقط ریگولیشن‘ ٹیکسوں میں رعایت دینے اور چند خاص صورتوں میں مالی معاونت فراہم کرنے کا ہوتا ہے۔ برطانیہ میں کبھی ہاؤسنگ کو حکومتی ذمہ داری سمجھا جاتا تھا مگر 1979ء کے بعد کنزرویٹیو پارٹی نے یہ نظریہ بدلا اور نجکاری کو اہمیت دی گئی‘ چین کو 90ء کی دہائی میں ہاؤسنگ کی سرکاری سکیموں میں بے پناہ مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا جہاں اصلاحات کے ذریعے تعمیراتی شعبے میں انقلاب آ گیا اور آج چین پوری دنیا میں اپنی تعمیراتی خدمات سے بھاری ریونیو اکٹھا کررہا ہے۔ اسی طرح سنگاپور‘ چلی اور دیگر ممالک کے کامیاب ماڈلز بھی قابلِ تعریف ہیں۔ وطن عزیز کی بات کی جائے کی تو ہمیں اس وقت ایک کروڑ 20 لاکھ گھروں کی قلت کا سامنا ہے۔ سات افراد کیلئے ایک چھت دستیاب ہے اورپنجاب کی 12 کروڑ آبادی کیلئے صرف ایک کروڑ71 لاکھ گھر میسر ہیں۔ پاکستان میں ہاؤسنگ سیکٹر کا ارتقا کئی نشیب و فراز سے گزرا‘ ہاؤسنگ کی تاریخ نو (5 سالہ منصوبوں) پر مشتمل ہے۔ 1955ء سے 1960ء کے پہلے پلان میں ملکی بجٹ کا 10 فیصد حصہ گھروں کی تعمیر کیلئے مختص تھا‘ 196ء سے 1965ء کے دوسرے پلان میں بڑے شہروں میں عمارتوں کی تعمیر کو ترجیح دی گئی‘ 1965 ء سے 1970ء کے پلان میں ہاؤسنگ میں نجی شعبے کو لانے کی کوشش ہوئی‘ 1970ء سے 1988ء تک کے چوتھے ‘پانچویں اور چھٹے پلانز میں ہاؤسنگ سیکٹر دوبارہ حکومتی تحویل میں چلا گیا اور کڑے قوانین بنائے گئے۔ محمد خان جونیجو نے ''اپنی بستی‘‘ ہاؤسنگ سکیم بنائی جو اپنا ہدف پورا نہ کر سکی۔ 1988ء سے 1993ء کے ساتویں پلان میں کچی آبادی اپ گریڈیشن پلان سمیت گھروں اور کوارٹرز کے غیر رسمی منصوبوں کو منظور کیا گیا۔ 1996ء میں بینظیر بھٹوکے دوسرے دورِ حکومت میں نیشنل ہاؤسنگ اتھارٹی کے ''اسلام آباد نیو سٹی ہاؤسنگ پراجیکٹ‘‘میں بڑا سکینڈل سامنے آیا‘ جس میں تارکینِ وطن سمیت سینکڑوں افراد کا پیسہ خوردبرد ہوا اور حکومتی عہدہ داروں پر نیب کیسز بھی بنے‘ انہی سکینڈلز کے پیش نظر 1998-2002ء کے دوران ہاؤسنگ سیکٹر میں حکومتی کردارکو کم کیا گیا۔ 2002ء میں نیشنل ہاؤسنگ پالیسی کا نفاذ ہوا جس کا مقصد مقامی حکومتوں کو ہاؤسنگ سیکٹر میں شریک کرنا تھا‘ مگر یہ پالیسی بھی مثبت نتائج نہ دے سکی۔ 2010ء میں شہباز شریف نے آشیانہ ہاؤسنگ سکیم شروع کی جس میں بے ضابطگیاں آج نیب میں زیر تفتیش ہیں‘ جبکہ ملک میں PHA ‘ NHA ‘ DHA ‘ LDA‘ CDAاور KDA کی موجودگی میں تحریک انصاف کی ''نیاپاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی‘‘ کا قیام سمجھ سے بالاتر ہے‘ جس کے تحت پانچ برسوں میں 50 لاکھ گھر بنانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ماضی کی طرح ہاؤسنگ کا یہ منصوبہ بھی کامیاب ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ منصوبے کے تمام سٹیک ہولڈرز تحفظات کا شکار ہیں‘ بینکوں کے پاس قرضوں کیلئے وسائل موجود نہیں‘ قرضوں کی خواہش رکھنے والے نصف افراد غیررجسٹرڈ نجی کمپنیوں میں ماہانہ 30 ہزار کی نوکری کر رہے ہیں جو نہ قرضوں کے اصولوں سے واقف ہیں اور نہ ہی شرائط پوری کر سکتے ہیں‘ ویسے بھی پاکستان میں عام آدمی کو بینک کے قرضے فراہم کرنے کا کلچر موجودنہیں ہے ؛چنانچہ قرضوں کا تمام فائدہ بلڈرز اٹھائیں گے۔ اسی طرح عوام کو گھروں کی بھاری قیمتوں اور علاقوں کی ناپسندیدگی کی صورت میں جبکہ تعمیراتی شعبے کو میٹریل پر بھاری محصولات اور ناکافی حکومتی سہولیات پر تحفظات ہیں۔
حکومت نے راوی فرنٹ اربن ڈیویلپمنٹ پراجیکٹ کا سنگ بنیاد تو رکھ دیا ہے‘ مگر نئے شہرکی تشکیل کے لیے چھ لاکھ 13 ہزار 785 کنال اراضی ایکوائر کرنے کے عمل میں عدم مالی وسائل کے باعث کوئی ٹھوس پیشرفت نہیں ہوسکی۔ 90 کی دہائی میں بھی ایسے شہرکی بازگشت سنائی دی جو صرف زبانی جمع خرچ تک رہی‘ چودھری پرویز الٰہی اور شہباز شریف کے ادوار میں بھی ایسی اتھارٹی بنانے کا سوچا گیا جس پر خاصا ہوم ورک ہوا‘ مگر فنڈز نہ ہونے اور بیرونی سرمایہ داروں کی عدم دلچسپی کے باعث منصوبے پر پیشرفت نہ ہوسکی‘ اور اب اس حکومت میں بھی یہ منصوبہ حقیقت سے زیادہ فسانہ لگتاہے۔اسی طرح حکومت کراچی کے بنڈل اور بڈو جزائر کو آباد کرنے کی بھی خواہشمند ہے‘ جس پر سندھ حکومت کے شدید تحفظات ہیں‘ مگر کراچی یا لاہور جیسے بڑے شہروں کو کسی نئے پراجیکٹ سے زیادہ ضرورت پہلے سے جاری ماسٹر پلانز کی تکمیل کی ہے۔ حکومت کو پہلے ان شہروں کو Trunk Infrastructures فراہم کرنے چاہئیں‘ جس میں اربن پلاننگ‘ ویسٹ مینجمنٹ‘ سیوریج کا جدید نظام‘ سیلابی پانی کے اخراج کا درست نظام اورسڑکوں اورٹرانسپورٹ کے جامع منصوبے شامل ہوں۔
پاکستان میں نیو سٹی پراجیکٹس اور گھروں کی بیشمار سکیمیں پہلے بھی آئیں مگر اپنے اہداف پورے نہ کر سکیں‘ کیونکہ ہاؤسنگ میں حکومت کی اصل ذمہ داریاں Facilitation اور Regulationکی ہوتی ہیں‘ مگر ہماری حکومتیں تو شاید خود ہاؤسنگ اتھارٹیز چلانے کی خواہشمند ہیں جو عملی طور پر ممکن نہیں۔ حکومت کو ہاؤسنگ میں خود حصہ دار بننے کے بجائے نجی مقامی اور بیرونی سرمایہ داروں کو متعدد فوائد دے کر شامل کرنا چاہیے۔ اسی طرح وہ 42 انڈسٹریز جو بالواسطہ یا بلاواسطہ ہاؤسنگ سے منسلک ہیں‘ میں ترقی کی اشد ضرورت ہے۔ بینک قرضوں کے نظام میں قانونی اصلاحات لا کر اسے قابل عمل اور آسان بنایا جائے جس سے عام آدمی کو فائدہ پہنچے۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ وہ بلاخوف اپنا سرمایہ بینکوں کے ذریعے بھیجیں اورہاؤسنگ منصوبوں میں سرمایہ کاری کریں۔ پاکستان میں سستے گھروں کی تعمیر کی پالیسی اپنانی چاہیے‘ جیسے امریکہ‘ یورپ‘ چین‘ جاپان سمیت پوری دنیا میں گھر اینٹوں‘ کنکریٹ یا مہنگے ماربل کے بجائے Prefabricated Panels ‘ Concrete Sheets اور Stone Cladding وغیرہ سے تعمیر ہوتے ہیں۔ سرکاری اراضی پر وسیع انفراسٹرکچر تعمیر کرکے نجی کمپنیوں کے سپرد کر دینا چاہیے جس کی حکومت ریگولیشن کرے۔ الغرض آج ضرورت اس امر کی ہے کہ کاغذی اور خیالی منصوبوں کی دنیا سے نکل کر عملی اور حقیقی پروگرامز کو ترجیح دی جائے کیونکہ ہاؤسنگ کے ایسے منصوبوں میں عام آدمی کو فوائد تو نہیں البتہ بلڈر مافیا کی موجیں لگتی ضرور نظر آرہی ہیں اور ان غیر حقیقی منصوبوں سے گھر تو نہ بن سکیں گے البتہ نیب کیسز ضرور بن سکتے ہیں۔