"MEC" (space) message & send to 7575

’’اداروں کی تباہی‘‘

قدیم ایتھنز کے طرز حکمرانی میں تمام ریاستی ادارے مضبوط اور مؤثر ہوا کرتے تھے‘ جہاں پارلیمنٹ طرز کی اسمبلی اور بیوروکریسی کی طرح قابل نمائندگان کا بورڈ سلطنت کے انتظامی و مالی معاملات سنبھالتا‘ اور قوانین پر عمل درآمد یقینی بنایا جاتا تھا۔ تاریخ یہی سکھاتی ہے کہ ریاست کی مضبوطی اور مثالی گورننس کا حصول تمام ریاستی ستونوں کی ہم آہنگی اور بہترین کارکردگی سے مشروط ہے۔ آج پاکستان میں بیڈ گورننس کی وجہ یہ ہے کہ تینوں بنیادی ستون‘ جن کے بیچ ریاست کی تمام طاقت تقسیم ہوتی ہے‘ انحطاط کا شکار ہیں۔ یوں عام آدمی کی زندگی اجیرن ہے اور سیاسی بادشاہوں کے ڈیرے مضبوط ہو چکے ہیں‘ جہاں دولت اور لوٹ مار کے خزانوں کی ریل پیل ہے۔
سب سے پہلے مقننہ کو دیکھیں تو سپریم ادارہ پارلیمنٹ ہے‘ جہاں عوامی مفاد میں اجتماعی سوچ کے ساتھ نئے قوانین و پالیسیاں بنتی ہیں‘ مگر اس ادارے کے اپنے ہی نمائندوں نے اس کی ساکھ کا خیال نہیں رکھا۔ یا تو اس ادارے کو خاطر میں لایا ہی نہ گیا‘ جیسے ذوالفقار علی بھٹو نے پارلیمنٹ کو نظرانداز کرتے ہوئے ''اِدھر ہم اُدھر تم‘‘ کا سیاسی نعرہ لگایا اور ملک منقسم ہوا۔ اسی طرح دو جماعتوں نے لندن میں بیٹھ کر میثاق جمہوریت کے نام پر اقتدار کی باریاں بانٹیں اور جب کبھی اس ادارے کا متفقہ استعمال ہوا تو اس کے بھی خالصتاً ذاتی مقاصد محسوس ہوئے‘ جیسے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے ریاست کو کمزور اور سیاست کو تقویت پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ پارلیمنٹ آج بھی ایک مفلوج اور علامتی ادارہ لگتا ہے‘ جبکہ درجنوں پارلیمانی کمیٹیاں غیر مؤثر ہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ کے آج تک کوئی بھی انتخابات غیر متنازع نہ رہے‘ مگر مجال ہے کہ پارلیمنٹیرینز نے الیکشن کمیشن اور انتخابی عمل میں اصلاحات لانے کی کوئی کوشش کی ہو۔ انہوں نے اگر کوئی کوشش کی تو فقط احتساب سے بچنے کیلئے‘ جیسے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے نیب پر حالیہ الزامات سے احتسابی ادارے کی ساکھ کو ٹھیس پہنچی۔ پاکستان میں 280 شقوں کے جامع آئین کی پاسداری کہیں نظر نہیں آتی‘ جبکہ امریکہ میں فقط 7 شقوں اور 27 ترامیم کا آئین مقدس ہے اور برطانیہ میں تو کوئی تحریری آئین موجود ہی نہیں مگر حکمرانی بہترین ہے‘ لہٰذا کامیاب حکومت کا انحصار حکمرانوں کی نیت پر ہوتاہے۔
قانون ساز اسمبلیاں آج تک ملک میں ٹھوس تعلیمی پالیسیاں نہ بنا سکیں‘ آج بھی امیر اور غریب کا تعلیمی نظام الگ ہے جبکہ چاروں صوبوں کے مختلف نصاب نئی نسل میں صوبائیت و لسانیت بڑھا رہے ہیں۔ اسی طرح شعبہ صحت بھی کبھی حکمرانوں کی ترجیح نہ رہا‘ یہ صحت کی ناقص پالیسیاں ہی ہیں کہ نہ ہم پولیو سے چھٹکارا پا سکے نہ سرکاری ہسپتالوں کی حالت بدل سکے اور نہ کوئی فیملی پالیسی بنا سکے۔ اسی طرح پاکستان جیسے زرعی ملک میں کراپ رپورٹنگ اور زرعی تحقیق کا کوئی ٹھوس ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔ اسی عدم تحقیق ‘ غلط تخمینوں ‘صوبائی غفلتوں کے باعث آئے روز زرعی بحران پیدا ہو رہے ہیں۔ میری نظر میں تعلیم‘ صحت ‘ زراعت کو بدحال کرنے میں بڑا کردار اٹھارہویں ترمیم کا ہے۔ صوبائی خود مختاری کے بعد مرکز اور صوبوں کے درمیان ربط اور ہم آہنگی نہ ہونے سے پالیسی میکنگ اور ان پر عمل درآمد کے درمیان بڑا خلا پیدا ہو چکا ہے۔ متعدد قومی صنعتیں بھی غلط پالیسیوں کی بھینٹ چڑھی ہیں‘ جنہیں وقت کے ساتھ منافع بخش بنانے کے بجائے تباہ حال کر دیا گیا۔ پاکستان سٹیل ملز آج قومی خزانے پر بوجھ ہے‘ سالوں پہلے اس ادارے کی نجکاری ہو جاتی تو حالات مختلف ہوتے۔اسی طرح کبھی دنیا میں پہچان رکھنے والی پی آئی اے کو بھی لوٹ مار‘ اقربا پروری اور سیاسی بھرتیوں کے ذریعے تباہ کر دیا گیا۔ پوسٹل سروس کا ادارہ بھی بدحال ہے‘ جبکہ اس اہم ادارے سے فوڈ ڈلیوری‘ آن لائن شاپنگ سمیت مختلف خدمات لی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح ہمارے حکمران ہاؤسنگ سیکٹر میں قرضوں‘ تعمیرات اور محصولات کی مؤثر پالیسیاں بنانے سے قاصر ہیں‘ جبکہ موجودہ اداروں کو مضبوط کرنے کے بجائے50 لاکھ گھروں کے خیالی وعدے کی تکمیل کیلئے نت نئے ادارے بنارہے ہیں۔ فوج ہی واحد ایساادارہ ہے جس نے اپنی کارکردگی‘ نظم و ضبط اور اندرونی احتساب کے ذریعے اپنا وقار برقرار رکھا اور جو ہمیشہ موروثیت سے بھی پاک رہا ہے‘ مگر چند مفاد پرست پارلیمنٹیرنز اس ادارے کو بھی ناکام بنانے میں مصروف ہیں‘ مقصد صرف یہ ہے کہ یہ بھی پولیس کی طرح ان سیاستدانوں کو آکر سلیوٹ کریں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہماری ایٹمی تنصیبات کی حفاظت اور ملکی سالمیت فوج کے بغیر ممکن نہیں‘ اگر اسے کمزور کیا گیا تو پاکستان کسی عالمی سازش کا شکار ہو جائے گا۔
دوسرے ستون انتظامیہ میں سب سے پہلے بیوروکریسی کی بات کریں تو یہ ڈھانچہ Meritocracy کے تین مضبوط ستونوں پر کھڑا تھا‘ یعنی افسران کا میرٹ پرچناؤ‘ تعیناتی اور ترقی‘ مگربیوروکریٹس ہمیشہ ہمارے سیاستدانوں کے نشانے پر رہے‘ سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے Lateral Entry کے ذریعے بیوروکریسی میں متنازعہ اور سیاسی بھرتیاں کرکے اس سٹیل فریم کو توڑا۔ پھر نواز اور شہباز شریف نے منظورِ نظر اور جونیئر افسران کو تعینات کرتے ہوئے رائٹ مین فار رائٹ جاب کے اصول کی نفی کی اوربیوروکریٹس عوامی خدمت گار سے سیاسی سہولت کار بن گئے۔ اب بھی نالائق بیوروکریٹس کا ٹولہ پنجاب پر مسلط ہے۔ آج ملک بھر کے سرکاری افسران عدم تحفظ اور خوف و ہراس کا شکار ہیں۔ بیوروکریسی میں بھی کالی بھیڑیں ہوں گی مگر پورے ادارے کو بدنام کرنا مناسب نہیں‘ جبکہ افسران کی ناقص کارکردگی‘ مس کنڈکٹ یا کرپشن کی جوابدہی کیلئے کڑا قانون پہلے سے موجود ہے۔ اسی طرح گڈگورننس کے حصول کیلئے خود مختار مقامی حکومتوں کا قیام ناگزیر ہے‘ جس کی تائید آئین کا آرٹیکل 140 A بھی کرتا ہے‘ مگر پاکستان میں ایسا مثالی نظام کبھی آنے ہی نہ دیا گیا‘ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001ء جیسا قابل تعریف قانون بھی سیاسی مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھا اور تسلسل کے ساتھ نہ چل سکا جبکہ پوری دنیا میں صاف پانی‘ سیوریج سسٹم‘ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ سمیت تمام بنیادی سہولیات مہیا کرنا لوکل گورنمنٹ کے ہی کام ہوتے ہیں‘ مگر ہمارے حکمرانوں نے ہمیشہ مقامی اداروں کو اختیارات سے دور رکھا اور اپنی لوٹ مار کیلئے اداروں پہ ادارے بنائے۔ مقامی حکومتوں کو کمزور رکھنے کی بنیادی وجہ سیاسی موروثیت کی بقا بھی ہے‘ شاید حکمرانوں کو ڈر ہے کہ نئی لیڈر شپ ان کے مقابلے میں نہ آجائے۔ اسی طرح پولیس کا ادارہ بھی ناکام ہو چکا ہے‘ پولیس آرڈر 2002ء میں خود مختاری کا غلط استعمال کرتے ہوئے بعض پولیس افسران مادر پدر آزاد ہوگئے‘ اتنے سالوں میں نہ پبلک سیفٹی کمیشنزقائم ہوسکے اور نہ پولیس کے اندر احتساب نام کی کوئی چیز موجود ہے۔
تیسرے ستون عدلیہ کی بات کریں تو ہمارا عدالتی نظام مہنگا ‘پیچیدہ اور صبرآزماہے۔ کیسوں میں تاریخ پہ تاریخ کا کلچر ‘ فراہمی انصاف میں تفریق اور چھوٹی سے بڑی عدالتوں تک وکلا کے جارحانہ رویے نے نظام عدل کو کھوکھلا کر دیا ہے۔آج یہ عالم ہے کہ بار اور بینچ مشترکہ عدم توازن کا شکار ہو چکے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ آج ہم بنا کسی ادارے اور نظام کے جی رہے ہیں۔ ملک میں میرٹ‘ قانون کی عملداری اور نظم و ضبط نام کی کوئی چیز نہیں۔ ایسا ملک جہاں انصاف کے معاملات سیاستدانوں کے ڈیروں اور ملک کا سیاسی نظام لٹھ برداروں کے ہاتھوں میں ہو وہاں عوام قوم نہیں بلکہ بے قابو‘ بے لگام ہجوم ہی رہتے ہیں۔جبکہ اداروں کے بغیر کسی ریاست‘ کسی صوبہ‘ کسی نظام کی بقا ممکن نہیں۔ ہمارے حکمران آج ریاست کو محصور کرکے اپنی موروثیت کو طاقتور بنا چکے ہیں‘ اگر میرٹ اور اداروں کی بالادستی ہوتی تو سیاست پر یوں حکمرانوں کے بچے قابض نہ ہوتے۔ آج اگر ہماری سیاست اور اس جمہوری نظام کا مستقبل مبینہ طور پر لوٹ مار پر پلنے والوں کی صورت میں ہے تو اس گلشن کا خدا ہی حافظ!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں