"MEC" (space) message & send to 7575

غربت کا خاتمہ کیسے ممکن؟

کسی بھی ریاست میں موجود ایسے افراد جن کے پاس بنیادی ضروریات یعنی غذا و خوراک، صاف پانی، کپڑے و چاردیواری اور بنیادی صحت کے مالی وسائل موجود نہ ہوں، ان کا شمار 'غریب طبقے‘ میں ہوتا ہے۔ ورلڈ بینک کے متعین کردہ معیار کے مطابق یومیہ 1.9 ڈالر (304 پاکستانی روپے) آمدن والے افراد 'انتہائی غربت‘ (Extreme poverty) کے شکار لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جنہیں بہ آسانی خوراک تک میسر نہیں‘ جبکہ یومیہ 3.1 ڈالر (496 روپے) آمدن والے 'متوسط غربت‘ (Moderate Poverty) کے زمرے میں آتے ہیں، جنہیں جیسے تیسے دو وقت کی روٹی تو نصیب ہے مگر یہ دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ 
دنیا بھر میں دولت کی تقسیم نہایت غیر منصفانہ ہے۔ گلوبل ویلتھ رپورٹ بتاتی ہے کہ دنیا کی 85 فیصد دولت صرف 10 فیصد افراد کے ہاتھوں میں ہے‘ جبکہ فقط 15 فیصد دولت باقی 90 فیصد آبادی کو میسر ہے۔ اب اس عدم مساوات کے پیچھے کیا معاملات ہیں یہ کوئی نہیں جانتا، مگر یہ حقیقت ہے کہ عالمی آبادی کا کثیر حصہ کھلے آسمان تلے ہی آنکھ کھولتا اور بھوکے پیٹ ہی مر جاتا ہے۔ 1990 تک اس کرہ ارض پر 1.9 ارب انسان 'انتہائی غربت‘ کی زندگی جی رہے تھے، جس کے بعد غربت پر قابو پانے کی سنجیدہ کوششیں شروع ہوئیں، اور فی سال 1 فیصد کمی لاتے ہوئے 2015 تک یہ تعداد 6 کروڑ 80 لاکھ تک پہنچ گئی۔ 2030 تک دنیا سے 'انتہائی غربت‘ کے مکمل خاتمے کا ہدف مقرر تھاکہ اچانک 2020 میں بڑا دھچکا عالمگیر وبا 'کورونا‘ کی صورت میں لگا، جس نے امیر اور غریب ممالک کی تمیز و تفریق کیے بغیر معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ کاروبار بند ہوگئے، روزگار ختم ہوگئے اور خوراک کے شدید بحران پیدا ہوئے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ کے مطابق کورونا کے باعث غریب ممالک میں تاحال 32 ملین افراد دوبارہ 'انتہائی غربت‘ میں جا چکے ہیں، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔
ایک فلاحی ریاست میں عوام کو روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت، انصاف، جان و مال کا تحفظ، روزگار اور دیگر بنیادی ضروریات فراہم کرنا ریاستی ذمہ داری ہے‘ مگر اس تناظر میں پاکستان کا جائزہ لیں تو ہماری 24.3 فیصد آبادی (تقریباً 5 کروڑ 10 لاکھ افراد) آج بھی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں سے 76 لاکھ افراد 'انتہائی غربت‘ کا شکار ہیں۔ اندازہ اس بات سے لگائیں کہ گلوبل ہنگر انڈیکس میں پاکستان کا 117 ممالک میں 94واں نمبر ہے۔ ہمارے 82 فیصد بچے غذائی قلت جبکہ 37 فیصد آبادی 'خوراک کے عدم تحفظ‘ کا شکار ہے۔ صرف 35 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر ہے۔ 4 کروڑ 20 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ 1 کروڑ 70 لاکھ بچے بنیادی ویکسین سے محروم ہیں۔ ایک کروڑ 20 لاکھ گھروں کی قلت ہے۔ 30 فیصد عوام بجلی سے محروم ہیں جبکہ بیروزگاری کی شرح 4.5 فیصد ہے۔ جہاں حالات ایسے ہوں وہاں غربت کا خاتمہ کیسے ممکن ہو؟
غربت کے بنیادی اسباب میں سب سے بڑی وجہ ہماری بے لگام، بے ہنگم 'کثیر آبادی‘ ہے۔ انسانوں کے جم غفیر کیلئے ملکی و قدرتی وسائل کم پڑتے جا رہے ہیں۔ خوراک کی طلب اور حصول متصادم ہو چکے ہیں، لوگ بھوک وافلاس کا شکار ہیں۔ سویڈش معیشت دان Gunnar Myrdal کا کہنا ہے: ''جنوبی ایشیاء کے ممالک میں لیبر کی کم آمدن، انسانی سرمایہ کاری میں عدم مساوات اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم غربت کے بنیادی اسباب ہیں‘‘ یہ عکس پاکستانی معاشرے میں نمایاں ہے، جہاں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہے ہیں، لیبر کلاس کا مالی استحصال جاری ہے، متوسط طبقہ معدوم ہو چکا ہے۔ اسی طرح مہنگائی اور نظام محاصل بھی غربت بڑھا رہے ہیں۔ سالوں سے ہماری معیشت کا انحصار Direct Taxesکے بجائے Indirect Taxes پر ہے، جن کا مجموعی محصولات میں 75 فیصد حصہ ہے۔ اس کے باعث مہنگائی اور غربت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اسی طرح جہالت اور بیروزگاری بھی غربت کے مرکزی اسباب ہیں۔ 
آج اصل امتحان یہی ہے کہ ہم غربت سے کس طرح چھٹکارا حاصل کرتے ہیں؟ عالمی شہرت یافتہ پاکستانی معیشت دان ڈاکٹر محبوب الحق اپنی کتاب The Poverty Curtainمیں لکھتے ہیں ''معاشی ترقی کی اولین ضرورت انسانی ترقی ہے، انسانوں کو کارآمد بناتے ہوئے اقتصادی دھارے میں ان کا مفید استعمال کیا جائے‘‘ جیسے 1970 تک چین کے دیہی علاقوں میں غربت کی شرح 97 فیصد تھی، جس کے بعد وہاں اصلاحات کا سنہری دور شروع ہوا، انسانوں کی تعلیم و تربیت اور صحت پر بہترین سرمایہ کاری کرکے انہیں ہر شعبے میں کارآمد بنایا گیا، اور اب چین ملک سے انتہائی غربت کا 100 فیصد خاتمہ کر چکا ہے، مگر یہ سب تبھی ممکن ہوا جب چین نے اپنی آبادی پر قابو پایا؛ چنانچہ غربت کے خاتمے کیلئے پاکستان کو بھی اپنی 'آبادی کے سمندر‘ کو مزید پھیلنے سے روکنا ہوگا، جس کے لیے قومی سطح پر 'ٹھوس فیملی پالیسی‘ کے نفاذ کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان غربت کے خاتمے کیلئے اقوام متحدہ، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک سے سالانہ امداد حاصل کرتا ہے، جبکہ ملک کے اندر بھی بینظیر انکم سپورٹ، احساس پروگرام، EOBI، اور پاکستان بیت المال جیسے متعدد پروگرام چل رہے ہیں، پھر بھی لاکھوں مستحق افراد مالی فائدے سے محروم ہیں، کیونکہ لوگوں تک امداد پہنچانے کا نظام شفاف نہیں۔ امداد کا بڑا حصہ یا تو خوردبرد ہو جاتا ہے یا ان کو ملتا ہے جو حقدار نہیں ہوتے؛ چنانچہ آج ملک میں ایک مضبوط 'ڈیٹا بیس پروگرام‘ کی ضرورت ہے، جو نادرا کے ساتھ مل کر تمام غربا، مستحقین اور متاثرین کا ریکارڈ نئے سرے سے اکٹھا کرے اور اس کی سخت مانیٹرنگ بھی ہو، جبکہ امداد کی تقسیم کیلئے 'مقامی اداروں‘ کو فعال اور مضبوط بنایا جائے، کیونکہ غریبوں کے اصل حالات و ضروریات سے وہی واقف ہوتے ہیں۔ غربت کے خاتمے کی پالیسی پورے ملک کیلئے یکساں نہیں بلکہ علاقے کے حساب سے مختلف ہونی چاہیے، جیسے اندرون سندھ اور بلوچستان کیلئے ترجیحات اپر پنجاب سے مختلف ہونی چاہئیں۔ غریبوں کی سب سے بڑی ضرورت 'خوراک کا تحفظ‘ ہے، جسے یقینی بنانے کیلئے حکومت کو 'راشن کارڈ‘ جیسی سکیمیں دوبارہ شروع کرنی چاہیے، جس طرح بھارت میں آج بھی چل رہی ہیں۔ غریبوں کو آسان اقساط پر بلا سود قرضے دینے کے متعدد چھوٹے بڑے پروگرامز بھی شروع کیے جانے چاہئیں۔ اسی طرح اگر ہم اپنے لوگوں (خاص طور پر کسان اور لیبر) کو ہنرمند بنا لیں تو چھوٹی صنعتیں، زراعت اور مختلف شعبہ جات آباد ہو سکتے ہیں جس سے روزگار کا مسئلہ حل ہو گا، جبکہ جدید دنیا کے ساتھ چلتے ہوئے ہمیں بھی 'آن لائن ملازمت یا کاروبار‘ کو فوقیت دینی چاہیے کیونکہ حالیہ کورونا وبا کے بعد نظام زندگی یکسر تبدیل ہو چکا ہے۔ اگر دیگر ممالک کی طرح ہمارے عوام بھی آن لائن کام کرنے کی صلاحیتیں رکھتے تو اتنی بیروزگاری نہ ہوتی۔ اسی طرح ہمارا دین 'اخوت و بھائی چارے‘ کا سبق دیتا ہے۔ اسلام میں زکوٰۃ فرض ہے۔ اگر سب اجتماعی طور پر یہ فرض پورا کریں تو بلاشبہ غربت کے خاتمے میں مدد مل سکتی ہے۔ بینکوں کے ذریعے زکوٰۃ کی ادائیگی کو بھی شفاف بنانا ضروری ہے جس پر ہمارے عوام کو اکثر شبہ رہتا ہے۔ معاشرے کے امیر طبقے کو اپنی دولت غریبوں کے ساتھ بانٹنی چاہیے۔ عالمی سطح پر اس کی بہترین مثال 'بل گیٹس‘ ہیں۔ پاکستان میں بھی بڑی کاروباری شخصیات کو اس حوالے سے آگے آنا ہوگا، جیسے 'اخوت‘ ایک قابل تحسین پروگرام ہے۔ ایسے مزید پروگرام شروع ہونے چاہئیں۔ ایسی سنجیدہ کوششیں وقت کی اولین ضرورت ہیں، کیونکہ 'غربت‘ کے باعث ہی پاکستان ہر گزرتے دن جبر، جرائم، دہشتگردی، نسلی تعصب اور سماجی و اقتصادی تنزلی کی دلدل میں دھنس رہا ہے۔ اگر اس ناسور پر جلد قابو نہ پایا گیا تو کوئی سماجی نظم وضبط باقی نہیں رہے گا اور معاشرہ جنگل کی صورت اختیار کر جائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں