"MEC" (space) message & send to 7575

عوامی نہیں ذاتی مفادات کی جنگ

قیادت ایک عظیم ذمہ داری ہے‘ پختہ نظریات‘ ٹھوس عوامل‘بے غرض نیت اور صدق ِدل کے ساتھ ریاست کی درست فیصلہ سازی اور قوم کی حقیقی رہنمائی کرنا کسی عبادت سے کم نہیں۔جو قیادت اس سوچ اور عزم پر پورا اُترجائے وہ تاریخ رقم کردیتی ہے اور جو قیادت ذاتی مفادات کی خاطر فلاح ِعامہ کو بھلا دے گویا وہ ملک اور قوم کا مستقبل تباہ کر دیتی ہے۔ حقیقی قیادت کا عکس ہم ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام کی حیاتِ مبارکہ میں باآسانی دیکھ سکتے ہیں‘ جنہوں نے تجدید اور اصلاحات کے پیغام کے ذریعے بھٹکے انسانوں کی فکری اصلاح اور سماجی درستی کا فریضہ بخوبی انجام دیا اور آنے والے قائدین کیلئے مشعل راہ بن گئے۔ مثالی قیادت کی سب سے بڑی صفت اس کا بے غرض ہونا ہے‘ جو بغیر کسی ذاتی مفاد اور لالچ کے اپنی تمام تر جدوجہد خلقِ خدا کی بھلائی میں صرف کر دے۔ مختار مسعود اپنی کتاب ''لوح ایام‘‘ میں لکھتے ہیں کہ قائداعظم نے شدید بیماری میں پسندیدہ کھانے کی ضرورت کے باوجود سرکاری باورچی یہ کہتے ہوئے واپس کر دیے کہ یہ ریاست کا کام نہیں کہ گورنر جنرل کو اس کی پسند کا کھانا (سرکاری خرچ پر) فراہم کرے۔ اسی طرح سابق وزیراعظم ملک معراج خالد کی عاجزی بھی بھلائے نہیں بھولتی‘ انہیں ایک بار گورنمنٹ کالج لاہور کی تقریب میں جاناتھا اور گاڑی نہیں تھی تو رکشے میں ہی بیٹھ کر تقریب میں جا پہنچے۔ اسی طرح امریکہ کے موجودہ صدر جو بائیڈن جب 2017ء میں نائب صدارت سے سبکدوش ہوئے تو وائٹ ہاؤس سے نکل کر سیدھے عوامی ٹرین پر بیٹھے اور بغیر کسی سازو سامان کے اپنے آبائی گھر چلے گئے۔کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اپنا بچہ اٹھائے اکثر خود گاڑی میں سامان رکھتے دکھائی دیے‘ اسی طرح غیر ملکی صحافی جب نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈن کا انٹرویو لینے آیا تو وہ خود گاڑی چلاتے ہوئے اسے دوستوں کی طرح ایئرپورٹ پر لینے گئیں اور گھل مل گئیں‘ اسی طرح حلیمہ یعقوب سنگاپور کی صدر بننے کے بعد بھی ایک فلیٹ میں رہتی ہیں اور ایوان صدر استعمال نہیں کرتیں۔
افسوس کہ و طن عزیز پاکستان میں ‘نیک نیت اور بے غرض قیادت نام کی کوئی چیز نہیں۔ پاکستان کے عوام بڑی چاہ سے جن نمائندوں کو ایوانوں میں بھیجتے ہیں وہ نام نہاد قائدین ایوان میں قدم رکھتے ہی گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیتے ہیں‘ عوامی مطالبات کو بھلا کر اپنی جیبیں گرم کرنے لگتے ہیں اور ذاتی مفادات کیلئے ریاستی مفادات کو بیچ ڈالتے ہیں۔ اس کی تازہ جھلک ہم نے حالیہ سینیٹ انتخابات میں دیکھ لی جہاں قومی اسمبلی میں حکومتی اکثریت کے باوجود سینیٹ کی مرکزی نشست اپوزیشن کے ہاتھ میں چلی گئی‘ یہ انتخاب بلاشبہ بدترین ہارس ٹریڈنگ کا شاخسانہ تھا‘ افسوس کہ وزیر اعظم کے ساتھ چند پوشیدہ مفاد پرست کھلاڑی بے وفائی کر گئے‘ جو نااہل قرار دے کر وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے والے یوسف رضا گیلانی کے وفادار نکلے۔ سینیٹ کی خفیہ رائے شماری میں اپوزیشن نے حکومت کے 16 اراکین خریدے اورحیران کن طور پر دو ہی دن بعد اوپن ووٹنگ میں انہی 16 اراکین نے دوبارہ وزیراعظم پر اعتماد کر دکھایا؛ چنانچہ یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ 16 اراکین کون ہیں؟ تو سن لیں‘ یہ اراکین وہی سیاسی مافیا ہے جو الیکٹ ایبلز کے نام پر 2018ء میں عمران خان کی مجبوری بنے تھے‘ اصل میں الیکٹ ایبلز کسی کے سگے نہیں ہوتے‘نہ ان کا کوئی نظریہ ہوتا ہے‘ نہ کوئی سیاسی جماعت‘ بلکہ یہ اپنے ذاتی مفادات کے مطابق اپنے تمام آپشنز کھلے رکھتے ہیں‘ سینیٹ اور اعتماد کی ووٹنگ میں بھی ان الیکٹ ایبلز نے آئندہ انتخابات کیلئے دونوں پارٹیوں کی ٹکٹیں پکی کیں‘ اگر انہیں لگا کہ آئندہ تحریک انصاف کے ساتھ جیتنا مشکل ہوگا تو وہ دوسری جماعتوں میں جاتے دیر نہیں کریں گے۔ اسی طرح حکومتی امید وار حفیظ شیخ پر بھی کئی سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ وزیراعظم کے دیرینہ ساتھی جہانگیر ترین نے بھی حفیظ شیخ پر کھل کر تنقید کی اور کہا کہ حکومتی امیدوار کمزور تھا اور تحریک انصاف پنجاب میں اپنی گرفت کھو چکی ہے۔ شاید دبے الفاظ میں وہ یہ باور کرارہے تھے کہ تحریک انصاف میں ان کے علاوہ سیاسی جوڑ توڑ کرنے والی کوئی شخصیت نہیں اور انہیں دوبارہ پاور میں لانا ضروری ہے۔
اس ساری صورتحال میں ادارے بارہا وضاحتیں دے چکے ہیں کہ سینیٹ انتخاب میں انکا کوئی کردار نہیں ‘ دراصل یہ سارا کھیل تماشا مفاد پرست سیاستدانوں کا اپنا ہی رچایا ہوا ہے۔ یہ سب روایات‘ سازشیں اورچالیں ہماری ‘بدترین سیاسی تہذیب‘ ہے جسے ماضی میں ہر سیاسی محاذ پر دہرایا گیا۔ چھانگا مانگا کی سیاست کو کون بھول سکتا ہے۔ گزشتہ سینیٹ انتخابات میں بھی بڑے پیمانے پر ووٹوں کی خرید و فروخت ہوئی تھی۔ ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان جیسی ریاست میں فوج کا اندرونی و بیرونی معاملات میں اور شفاف اور پرامن انتخابات کرانے میں اہم کردار ہوتا ہے‘ جس کو ہمارے چند کم فہم‘ مفاد پرست سیاستدان 'مداخلت‘ کا نام دے کر بلاوجہ اداروں کو بدنام کرتے ہیں‘ جبکہ امریکہ جیسی سپر پاور میں بھی حکومت کے ساتھ ساتھ پینٹاگون کی بھی ریاستی سوچ اور کردار ہے۔امریکی اداروں کو ڈونلڈ ٹرمپ کے میکسیکو وال جیسے متنازع فیصلوں‘ آئین کے منافی اقدامات‘ سیاست اور کاروبار کے ملاپ اور نسلی تعصب پر شدید تحفظات تھے‘ یہی وجہ ہے کہ 2020ء کے امریکی انتخابات میں امریکی سکیورٹی اداروں کے کردار کی باز گشت سنائی دی۔ پاکستان کی سیاسی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی ہے؛ چنانچہ اس میں اداروں کا کردار اور عمل دخل انوکھی بات نہیں۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن اور حکومت کے مابین اختلافات بڑھ چکے ہیں‘ بڑے سیاسی اپ سیٹ کے سبب حکومت الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا رہی ہے‘ لیکن حقیقت میں فقط 1550 بیلٹ پیپرز پر سیریل نمبر یا نشاندہی کیلئے کوئی مینوئل ٹیکنالوجی استعمال کرنا الیکشن کمیشن کیلئے بڑا کام نہ تھا۔بیشک آئین کا آرٹیکل 226 خفیہ رائے شماری کا حکم دیتا ہے مگر کسی ضروری کارروائی یا تحقیقی عوامل کیلئے سکریسی کی بھی کوئی حد لازمی ہونی چاہیے۔ جیسے چند روز قبل عدالت نے قابل عمل رائے دی کہ انتخابات خفیہ ہوں گے‘ لیکن سکریسی کبھی مطلق نہیں ہوسکتی اور ووٹ ہمیشہ کیلئے خفیہ نہیں رہ سکتا‘ لیکن اس فیصلے پر جزوی عمل کیا گیا۔
2006ء میں پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ نے میثاقِ جمہوریت میں خفیہ رائے شماری کی بھرپور مخالفت کی تھی مگر اچانک اب اپنے فیصلے سے یوں مکر جانابھی ذاتی مفادات کا اشارہ لگتا ہے۔ اگلا مرحلہ اب چیئر مین سینیٹ کے انتخاب کا ہے جس کیلئے حکومت نے 'بائی دا بک‘ چلنے سے انکار کر دیا ہے‘ جبکہ اپوزیشن بھی ق لیگ اور ایم کیو ایم کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔ مگر حقیقتاً سیاستدانوں کی یہ تمام تر جدوجہد‘ جوڑ توڑ ‘ اتحاد اور دشمنیاں ملکی مفاد میں نہیں بلکہ اپنے اور اپنے بچوں و پارٹی کے مفاد میں ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عوام کی پارٹی ہے کون سی؟ سیاست کی اندھیر نگری میں تو یہی کرپٹ مافیا مختلف جماعتوں کے ساتھ اقتدار میں آتا رہا اور غریبوں کی جنگ کے نام پر غریبوں کو ہی کنگال کرتے ہوئے خود امیر ہوتا گیا۔ وہی مافیا آج بھی سرگرم ہے‘ کیا ان کی کرپشن‘ لوٹ مار کا کبھی احتساب ہوگا؟ ریاست‘ قیادت اور سیاست کا مقصد تو عوام کی بہتری اور ان کی زندگیوں میں آسانی لانا ہوتا ہے مگر ہماری قیادت نے ہمیشہ عوام کی زندگی میں مسائل کے انبار لگائے۔ عمران خان تبدیلی کے نام پر اقتدار میں آئے تو عوام میں امید کی کرن پیدا ہوئی کہ اب حالات بدل جائیں گے ‘ مگر یہ تبدیلی بھی بیڈگورننس‘ مہنگائی اور سیاسی چپقلش کی دلدل میں دھنس گئی کیونکہ موجودہ قیادت بھی اسی سیاسی ٹولے پر مشتمل ہے جو پہلے بربادی لایا تھا؛ چنانچہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اس روایتی سیاسی مافیا کو پاکستانی سیاست کی جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے کیونکہ ان کے سیاست میں رہتے ہوئے بہتری کی امید کرنا دیوانے کا خواب ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں