نوآبادیاتی دور کو عموماً استحصال، جبر اور کڑی سزاؤں کی روایات کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ عام تاثر ہے کہ انگریزوں نے اپنی حاکمیت اور سلطنت کو وسیع کرنے کی خاطر برصغیر پر قبضہ جمایا اور سب کو اپنا غلام بنا لیا۔ یہ تمام تنقیدیں اپنی جگہ بجا ہیں، یقیناً وہ ایک استحصالی، استعماری اور غلامی کا دور تھا، مگر تب کی 'مضبوط ریاستی رٹ‘، 'بہترین سروس ڈلیوری‘ اور 'انصاف کی فوری فراہمی‘ سے کسی صورت انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس دور میں 'اجتماعی عوامی فلاح‘، 'قانون کی بالادستی‘، 'سہولیات کی بروقت فراہمی‘ 'میرٹ اور شفافیت‘ ریاست کی اولین ترجیحات تھیں۔ مسعود مفتی اپنی کتاب 'دو مینار‘ میں لکھتے ہیں ''کلونیل دور میں ریاستی حکم پتھر پر لکیر ہوتا تھا، ہر ادارے میں قابل ترین افراد میرٹ پر شامل تھے، اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہوتے، جہاں افسران بہترین طرزِ حکمرانی سے عوام کو مطمئن رکھتے تھے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ اُس دور کے بنائے بیشتر ریاستی نظام اور سہولیات ہم آج تک اپنائے ہوئے ہیں۔ سماجی قوانین، بیوروکریسی کا ڈھانچہ، پختہ سڑکیں، ریلوے کا وسیع جال، کاشتکاری و نہری نظام، سیوریج سسٹم، مقامی حکومتوں کا نظام سب کچھ اسی انگریز دور کے مرہون منت ہے۔
آزادی کے وقت یہی ریاستی وقار، میرٹ اور نظام ہمیں وراثت میں ملے۔ ابتدائی سالوں میں حکومت و انتظامیہ کی باہمی کوششوں کے باعث پاکستان صنعتی، سماجی و معاشی ترقی کی جانب گامزن تھا‘ مگر پھر نظام مفاد پرست حکمرانوں کی بھینٹ چڑھتا گیا۔ سب سے پہلے سول سروس کا ڈھانچہ‘ جو ہر طرح سے ریاستی ترقی کیلئے کوشاں تھا‘ کو ایوب خان کے دور سے 'لیٹرل انڈکشن‘ کے ذریعے کمزور کیا گیا۔ یہی روایت جنرل یحییٰ خان نے دہرائی جبکہ ذوالفقار علی بھٹو نے تو لیٹرل انٹری کی آڑ میں سول سروس کا سٹیل فریم ہی توڑ کر رکھ دیا۔ دراصل Lateral Induction کا عمل Spoils Systemسے مماثلت رکھتا ہے، مگر اُس میں تو افراد کا چناؤ ٹھوس میرٹ پر ہوتا ہے، جبکہ پاکستان میں اس چناؤ کی اہلیت اقرا پروری، تابعداری اور ذاتی وفاداری ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ ایف پی ایس سی میں ٹاپ کرنیوالا افسر میرٹ اور سنیارٹی لے لحاظ سے بنا کسی امتحان اور قابلیت کے سروس میں شامل کیے جانے والے فوجی افسروں سے نیچے ہوا کرتا تھا۔ یہیں سے میرٹ کی تباہی شروع ہوئی اور سول سرونٹس بتدریج 'عوامی خدمت گار‘ سے 'سیاسی سہولت کار‘ بنتے گئے۔
کہنے کو تو ہم 'فلاحی ریاست‘ ہیں، مگر نہ عوام تک سروس ڈلیوری ہے، نہ انصاف کی فراہمی۔ ہر ادارے میں مفاد پرستی، رشوت خوری، کام چوری اور کرپشن کا کلچر عام ہے۔ ریاست کا سب سے سپریم ادارہ 'پارلیمنٹ‘ ہوتا ہے، مگر اس ادارے پر بھی چند ہی خاندانوں کی حکمرانی رہی، جو عوامی فلاح تو دور‘ ہمیشہ ذاتی بقا کی تگ و دو میں مصروف رہے۔ اسی طرح نوآبادیاتی دور کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 میں خود مختار مقامی حکومتوں کے قیام پر خاص زور دیا گیا تھا، کیونکہ وہی عوام تک سروس ڈلیوری کی اصل ذمہ دار ہوتی ہیں مگر پاکستان کی بدقسمتی دیکھیں کہ یہاں کبھی خود مختار مقامی حکومتیں بن ہی نہ پائیں۔ آج مہنگائی کی چکی میں پسا عام آدمی دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے، بجلی و گیس جیسی بنیادی سہولیات کے محکموں میں بھی اندھیر نگری چوپٹ راج ہے، نئے کنکشنز اور ٹرانسفارمرز کی تنصیب کیلئے بھاری رشوت وصول کی جاتی ہے۔ کچہریوں کا پٹواری نظام، تعمیرات، رجسٹریشن اور نقشے پاس کروانے کا طریقہ کار بھی رشوت زدہ ہے۔ لاہور میں یہ مسائل ختم کرنے کی غرض سے ایک اتھارٹی قائم کی گئی ‘ مگر اس ادارے میں بھی بدترین سروسز اور کرپشن کے واقعات زبان زد عام ہیں۔ اسی طرح ملک میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کا کلچر لینڈ مافیا کا روپ دھار چکا ہے، جن میں لوگوں سے لوٹ مار کے ساتھ عدم منصوبہ بندی کے باعث زرعی زمینوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔
پولیس اور بدعنوانی کا بھی چولی دامن کا ساتھ ہے۔ عوام کے یہ محافظ اکثر عوام کے قاتل بھی بن جاتے ہیں۔ کبھی سانحہ ماڈل ٹاؤن میں اندھا دھند گولیاں برسا دی جاتی ہیں۔ کبھی سانحہ ساہیوال میں بے گناہ خاندان کو قتل کر دیا جاتا ہے اور کبھی گاڑی نہ روکنے پر جواں سالہ لڑکے کو مار دیا جاتا ہے، مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ نوآبادیاتی دور کا پولیس ایکٹ 1861 پولیسنگ کا ایک مؤثر اور مضبوط نظام تھا لیکن اس میں بھی چھیڑچھاڑ کرکے پولیس کو مادر پدر آزاد کر دیا گیا۔ ہمیں ہمسایہ ملک بھارت سے کچھ سیکھنا چاہیے، جہاں 2006 میں Prakash Singh Vs Union of India کیس میں سپر یم کورٹ نے ریاست کو فوری طور پر سٹیٹ سکیورٹی کمیشن، شفاف اور میرٹ پر مبنی ٹرانسفر اور پوسٹنگ کا نظام، پولیس کمپلینٹ اتھارٹی اور دیگر احتسابی کمیٹیاں بنانے کا حکم دیا، جن کے قیام سے 'پولیسنگ آف پولیس‘ کو یقینی بنایا گیا اور ادارے کی کارکردگی بہتر ہو گئی۔ اسی طرح ہمارا نظام عدل مہنگا، پیچیدہ اور صبر آزما ہو چکا ہے۔ عدالتوں میں وکلا گردی عروج پر رہتی ہے، جبکہ امیر کے لئے قانون الگ اور غریب کے لئے الگ ہے۔ جیسے کوئٹہ میں ایک ایم پی اے کی گاڑی سے ٹریفک وارڈن کی موت فقط ایک اہلکار کی موت نہیں بلکہ ریاست اور نظامِ عدل کی اخلاقی موت تھی، مگر ہمارا 'نظام عدل‘ ایسا پیچیدہ ہے کہ متاثرین کے اہل خانہ سمجھوتہ کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ اسی طرح صحت و تعلیم کی سہولیات دینا ریاستی ذمہ داری ہے مگر ہمارے سرکاری ہسپتال و تعلیمی ادارے عوامی اعتماد کھو چکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج تمام صاحب استطاعت یا تو نجی اداروں کا رخ کرتے ہیں یا بیرون ملک علاج اور بچوں کی تعلیم کو فوقیت دیتے ہیں۔ ہمارے کئی اداروں کیلئے ذاتی مفادات ترجیح ہیں جبکہ عوام کہیں Misplaced Priority بن چکے ہیں۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ Democracy Index 2020 رینکنگ میں ہم افغانستان کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے 105ویں نمبر پر ہیں، Governance Efficiency Index 2020 میں پاکستان 180 ممالک میں سے 151ویں نمبر پر ہے جبکہ Civil Justice System 2020 کی عالمی رینکنگ میں پاکستان 128 ممالک میں سے 118 ویں نمبر پر ہے۔
گڈگورننس کے حصول کیلئے چند مؤثر اقدامات کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ سب سے پہلے چھوٹے صوبوں کا قیام یقینی بنایا جائے تاکہ انتظامی معاملات احسن طریقے سے چل سکیں۔ اب جیسے 'پنجاب‘ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بارہویں بڑے ملک کے برابر ہے، تو یہاں عوام کے جم غفیر کیلئے فقط ایک سرکاری مشینری کیسے موثر کارکردگی دکھا سکتی ہے؟ اسی طرح ریاست میں منظم سوشل آرڈر کے قیام، سروس ڈلیوری یقینی بنانے کیلئے خود مختار مقامی حکومتوں کا قیام عمل میں لانا ہوگا۔ اس حوالے سے مشرف کا لوکل گورنمنٹ نظام قابل تعریف تھا جس میں عوامی نمائندگی اور اونرشپ شامل تھی، مگر اب جو نیا نظام لایا گیا ہے وہ پیچیدہ اور ناقابل عمل لگتا ہے۔ اسی طرح اشیائے خورونوش کی قیمتوں پر قابو پانا ضروری ہے۔ جس طرح لیگی دور میں پروفیسر سجاد حیدر مرحوم کی سربراہی میں پرائس کنٹرول کا باقاعدہ ڈھانچہ بنایا گیا تھا، ویسا ہی مضبوط ادارہ اب بھی بنایا جائے۔
لب لباب یہ کہ ہم 'انتظامی آمریت‘ کے حامل نوآبادیاتی نظام سے تو نکل آئے‘ مگر آج 'انتظامی تباہی‘ کی دلدل میں بری طرح دھنس چکے ہیں۔ قوم کی آخری امید 'تبدیلی سرکار‘ بھی نظام میں کوئی تبدیلی نہ لاسکی، بلکہ اس دور میں تو نظام پر عوام کا 'عدم اعتماد‘ زیادہ بڑھ رہا ہے؛ چنانچہ یہ ساری صورتحال اس بات کے طرف اشارہ کرتی ہے کہ شاید ہمارا موجودہ نظام حکومت اور 'سماجی معاہدہ‘ عوامی خدمت، ریاستی مضبوطی کی قابلیت نہیں رکھتا، جسے تبدیل کرنا ناگزیر ہے، کیونکہ اگر نظام یونہی چلتا رہا تو ہم 'ریاست مدینہ‘ تو کبھی نہیں؛ البتہ کسی دن 'بنانا ریاست‘ ضرور بن جائیں گے۔