قوانین اور عدل و انصاف کا نظام انسانی وجود کے ساتھ چلا آ رہا ہے۔ قرونِ وسطیٰ کے ادوار میں بادشاہوں کے فرامین سلطنت کا قانون اور ان کے دربار عدالتیں ہوا کرتے تھے‘ مگر تب قوانین فقط رعایا تک محدود تھے‘ بادشاہ خود اِن سے مستثنیٰ تھے۔ پھر 1215ء میں میثاق حقوق یعنی میگنا کارٹاتحریری طورپرسامنے آیا جس میں عوامی قوانین کی تشکیل و نفاذ پر زور دیا گیا اور بتدریج ایسے قوانین بنے جنہوں نے دنیا کا نظام بدل دیا جیسے 1689ء میں Bill of Rights آیا جس میں عوامی و پارلیمانی حقوق حاصل ہوئے اورAct of Settlementآیا جس کے بعد ظلم و ستم کا خاتمہ ہوا۔ قدیم ریاستوں کی مضبوطی کا راز یہی تھا کہ وہاں ہمیشہ عدل و انصاف اور قانون کی بالادستی کا بول بالا رہا۔ برصغیر بھی جب نوآبادیاتی نظام کا حصہ بنا تو انگریزوں نے اپنی مضبوط انتظامی طاقت اور درست قانونی و عدالتی نظام کی بدولت یہاں ٹھوس ریاستی رٹ اور بہترین طرزِ حکمرانی قائم کی‘ پھر 1948ء میں آنے والے UN Declaration of Human Rightsکی شق نمبر سات کے مطابق تمام ریاستوں کو اس کا پابند بنا دیا گیا کہ قانون کے سامنے سب برابر ہیں اور قانون رنگ‘ نسل ‘ رتبے ‘ عہدے سب سے بالاتر ہو کر ایک جیسا لاگو ہوگا۔موجودہ دور میں 'قانون کی حکمرانی‘ کا مفہوم سمجھیں تو معروف برطانوی قانون دانTom Bingham اپنی کتاب Rule of Lawمیں لکھتے ہیں کہ اگر ریاست میں یہ آٹھ چیزیں موجود ہوں ‘ یعنی قانون تک باآسانی رسائی‘ قانون کے سامنے برابری‘ قانونی اختیارات کا صحیح استعمال‘ صوابدید کے بے غرض استعمال سے اجتناب‘ مقدمات میں شفافیت‘ عوامی مسائل و تنازعات کا جلد از جلد اور احسن حل‘ انسانی حقوق کی بالادستی اور عالمی قوانین کی پاسداری‘ تو وہاں قانون کی حکمرانی کی صورتحال بہتر کہلاتی ہے۔ مگر 'رول آف لاء ‘ کی کسوٹی یقینی بنانے میں عدلیہ کا کردار دیگر اداروں پر افضل تصور ہوتاہے۔ عدلیہ آئین کی تشریح کرتی ہے اور قانون کی محافظ ہے۔ونسٹن چرچل نے جب دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے دوران اہل برطانیہ سے سوال کیا کہ کیا عدالتیں اپنا کام کر رہی ہیں ؟ جواب 'ہاں‘ میں ملا‘ تو انہوں نے کہا ‘ پھر پریشانی کی کوئی بات نہیں؛ چنانچہ کسی بھی ریاست میں عوام و حکمران کا عدلیہ کے ساتھ اعتماد و اعتبار کا رشتہ ہوتا ہے اور یہی رشتہ قانون کی حکمرانی کی اساس ہے۔
آج پوری دنیا میں یہ بحث چل رہی ہے کہ نظام عدل لوگوں کی امیدوں پر پورا اتر رہا ہے یا نہیں؟ کیا انسان کو بلا تفریق انصاف میسر ہے؟ کیا قانون سب کیلئے برابر ہے؟ تو شاید ان سب کا جواب اب 'ناں‘ میں ہوگا۔ افسوس کہ آج ہر جگہ قانون و انصاف کے دہرے معیار دکھائی دیتے ہیں‘ امیر کیلئے قانون الگ اور غریب کیلئے الگ ہے ‘ حکمران کیلئے الگ اور عوام کیلئے الگ ہے ‘ اپنوں کیلئے الگ اور غیروں کیلئے الگ ہے۔ بیشک سپر پاور امریکہ کی مثال لے لیں جہاں مانا جاتا ہے کہ عدالتیں آزاد اور قانون کی حکمرانی ہے‘ مگر وہاں کے نظام میں بھی نسلی تعصب اور انتہاؤں کو چھوتی قومیت صاف جھلکتی ہے۔ اس کا تازہ عکس ہم سیاہ فام جارج فلائیڈ کے مقدمے میں دیکھ سکتے ہیں جس میں پولیس افسر کو قاتل قرار دے کر گرفتار کر لیا گیا۔ یہ فیصلہ 'احتساب‘ تو ثابت ہوا مگر نا انصافی کا کلچر نہ بدل سکا۔ آج بھی امریکہ میں سیاہ فاموں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے‘ جہاں سیاہ فام آ کر بس جائیں سفید فام وہ جگہ چھوڑنے کو ترجیح دیتے ہیں؛چنانچہ اصل ضرورت اس تعصبانہ کلچر کو بدلنے کی ہے‘ جو کہ بدلا نہیں جا سکا۔ اسی طرح سابق صدر ٹرمپ کے دور ِاقتدار میں میکسیکو دیوار سے لے کر تارکین وطن پر پابندی تک‘ ہراسگی کے سخت الزامات سے لے کر نسل پرستی بڑھانے تک کیا کچھ سامنے نہ آیا‘ مگر اس طاقتور شخصیت کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟ یورپ میں بھی کم و بیش ایسی ہی صورتحال ہے۔ اسی طرح کیا بھارتی عدالتوں میں مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم کے مقدمات کے فیصلے میرٹ پر ہوتے ہیں؟ بابری مسجد کا فیصلہ دیکھ لیں‘ کئی سال لٹکتا رہا اور آخر کار فیصلہ مسلمانوں کے مکمل خلاف آیا؛ چنانچہ انصاف کے دہرے معیار اور دو قانون کی روایت کسی نہ کسی صورت میں ہر ریاست میں موجود ہے۔
پاکستان کی بات کریں تو ہمارا نظام عدل مہنگا ‘ پیچیدہ اور صبر آزما ہے‘ کیسوں میں تاریخ پہ تاریخ کا کلچر اور فراہمی انصاف میں تفریق نے نظام عدل کو کھوکھلا کر رکھا ہے۔معمولی مقدمات میں سزا پانے والے کئی سال قید میں گزارنے کے بعد بے گناہ ثابت ہوتے ہیں جبکہ اصل مجرم اپنی طاقت کے بل بوتے پر آزاد دندناتے پھرتے ہیں۔ جب کمزور کو ہتھکڑیاں لگا کر کٹہروں میں پیش کیا جائے اور طاقتور کو سرکاری پروٹوکول کے ساتھ تو ایسے دہرے معیار میں اس نظام کا مقدر کیا ہوگا؟ یہاں تو سانحہ ماڈل ٹاؤن جیسے واقعے میں بھی انصاف نہیں مل پایا تو مزید کیا توقع رکھی جائے؟ اسی طرح کوئٹہ میں ایم پی اے کی گاڑی سے کچلے جانے والے ٹریفک وارڈن کی موت ‘ مگر کوئی تفتیش نہ ہو سکی اور بالآخر لواحقین کی غربت بک گئی۔ اسی طرح ملک کا شوگر اور آٹا مافیا جو عوام کو لوٹ کر کھا گئے‘ جب ان کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے تو قانونی مو شگافیوں میں ان کے تمام جرائم چھپ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ فیصلے جو وقت کے ساتھ غلط ثابت ہوئے ان کا جواب کون دے گا؟ جیسا کہ سٹیل مل کی نجکاری روکنے اور ریکوڈک کیس کے فیصلوں کا خمیازہ ریاست کو بھگتنا پڑا۔ گزشتہ برس پی آئی سی کی عمارت میں سسکتے مریضوں اور انسانیت کے مسیحاؤں (ڈاکٹروں) پرحملہ کیا گیا مگر حملہ کرنے والوں پر قانون نافذ کیوں نہ ہوسکا؟ جب نیب قانون کی شق 4 کے مطابق یہ قانون پورے ملک پر لاگو ہوتا ہے تو پھر امتیاز کیوں؟ لگتا ہے شاید اب احتساب کیلئے صرف سیاستدان اور افسران ہی باقی رہ جائیں گے۔ المیہ یہ ہے کہ آج Civil Justice System کی رینکنگ میں پاکستان 128 ممالک میں سے 118 ویں نمبر پرجبکہ Rule of Law کی رینکنگ میں 120 ویں نمبر پر ہے۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ہمارے ہاں تو حکمران اپوزیشن میں ہوں تو قانون مختلف اور جب پاور میں آجائیں تو قانون کچھ اور ہو جاتا ہے‘کیا ہمارے اداروں میں اتنی ہمت ہے کہ قانون کو یکساں لاگو کرتے ہوئے طاقتوروں کو پکڑ سکیں؟ عمران خان جب کہتے ہیں کہ ہمارا نظام انصاف طاقتور کو پکڑنے کی سکت نہیں رکھتا‘تو شاید وہ ٹھیک کہتے ہیں۔ جب وہ ہر تقریر میں یہ جملہ دہراتے ہیں کہ یہاں صرف غریب جیل میں جاسکتا ہے اور امیر کے احتساب کیلئے کوئی تیار نہیں‘ وہ تب بھی سچے لگتے ہیں۔ مگر اس ملک کے پیچیدہ ماحول میں ان کی آواز سننے کو کوئی تیار نہیں اور ان کی آواز شاید Cry in the Wilderness ثابت ہو رہی ہے۔ بلاشبہ 'دو نہیں ایک قانون‘ کی جنگ آسان نہیں ہے‘ مگر یہ جنگ جیتنا انسانیت کی بقا اور وقار کیلئے ناگزیر ہے۔
وزیر اعظم کیلئے یہ ایک اہم چیلنج ہے کہ وہ اس حوالے سے کس حد تک اور کتنی جلدی کوئی تبدیلی لا تے ہیں۔ ماضی کے حکمرانوں کے برعکس انہوں نے انصاف کے معاملے میں امیر اور غریب کی تفریق کا بڑے کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔ اس طرح مسئلے کی نشاندہی تو کی گئی مگر یہی کافی نہیں‘ بلکہ مسئلے کا حل ڈھونڈنا بھی ضروری ہے۔ دو نہیں ایک قانون کا عملی صورت میں نظر آنا ضروری ہے۔ جیسا کہ پہلے کہا ہے کہ یہ کام مشکل ہے ‘ مگر اس کی ضرورت و اہمیت عوام اور قومی اداروں کے اپنے مفاد میں ہے ۔ عوام کیلئے اس کا فائدہ ظاہر ہے یہ نظر آتا ہے کہ لوگوں کو انصاف ملے گا اور قانون کی نظر میں حقیقی برابری ہو گی‘ جس کی ضمانت ملک کا آئین بھی دیتا ہے۔ انسانیت اور قومی اداروں کے وقار اور بقا کیلئے ناگزیر اقدام کو عملی صورت دینے میں حکومت کو دیر نہیں کرنی چاہیے ۔ زبانی دعووں کو عمل میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام وقت طلب اور طویل ہی سہی مگر پہلا قدم تو اٹھایا جائے۔