"MEC" (space) message & send to 7575

یہ بجٹ کس کا ہے ؟

بجٹ کسی بھی ملک کی خوشحالی‘ بہبود اور دولت کی منصفانہ تقسیم کا روڈ میپ ہوتا ہے جس کے چھ بنیادی مقاصد ہوتے ہیں: وسائل کو ملک بھر کے لیے مختص کرنا‘ کمائی اور دولت کے لحاظ سے عدم مساوات کو دور کرنا‘ معاشی استحکام کی راہ ہموار کرنا‘ عوامی کاروباری اداروں کو منظم کرنا‘ معاشی نمو کے لیے مثبت کردار ادا کرنا اور علاقائی مالی تضادات کو دور کرنا۔ کورونا کی تباہ کاریوں کے بعد ہر ملک کیلئے تین چیلنجز سے نمٹنا ترجیح ہے یعنی صحت‘ بیروزگاری اور گرتی ہوئی معیشت۔ چاہے بھارت ہو جس نے رواں سال بجٹ کا ایجنڈا ہی عوامی صحت رکھا یا برطانیہ ہو جس نے اپنے بجٹ میں ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے تھری پوائنٹ ایجنڈا پیش کیا ہے‘ مگر پاکستان میں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بجٹ میں ہماری حکومت عوام کو سبز باغ دکھانے میں مصروف رہی۔ماضی کی طرح اس سال کا بجٹ بھی خسارے کا بجٹ ہے‘ جس کا کل حجم 8 ہزار 487 ارب روپے رکھا گیا ہے‘ این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو 3412 ارب روپے منتقل کیے جائیں گے‘ مجموعی طور پر 3060 ارب روپے قرضوں کی واپسی اور ان پر واجب الادا سودکی مد میں چلے جائیں گے‘ وفاقی حکومت کو چلانے کیلئے 479 ارب روپے مختص ہیں‘ دفاعی اخراجات کیلئے 1370 ارب روپے‘ سول ملازمین کی پنشن کیلئے 120 ارب روپے جبکہ ترقیاتی بجٹ 964 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
بجٹ کے چیدہ چیدہ نکات کا جائزہ لیں تو سب سے پہلے محصولات کو دیکھناضروری ہے۔ نئے مالی سال میں حکومت 7909 ارب روپے کی وصولیوں کا ارادہ رکھتی ہے‘ جس میں ٹیکس وصولیوں کی مد میں 5829 ارب روپے جبکہ نان ٹیکس وصولیوں کی مد میں 2080 ارب روپے اکٹھے کیے جائیں گے۔لیکن اگر ہم اپنی موجودہ ٹیکس وصولیوں جو کہ 4497 ارب روپے ہیں‘ کا بجٹ کے کل حجم (8487) ارب روپے‘ سے موازنہ کریں تو 3990 ارب روپے کا فرق آتا ہے‘ جس کا بندوبست کرنے کیلئے حکومت نیا قرض لینے کا ارادہ رکھتی ہے‘ جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ خسارہ پورا کرنے کیلئے ملک میں محصولات کا دائرہ وسیع کرنے کے نئے اقدامات کیے جاتے مگر ایسا نہیں ہو پایا۔ ہمارے ہاں محصولات جمع کرنے کا طریقہ کار بھی نہایت جارحانہ ہے کیونکہDirect Taxکے بجائے Indirect Taxپر زیادہ توجہ دی جاتی ہے جن کی شرح بالترتیب 35 اور 65 فیصد ہیں۔ ملک میں بالواسطہ ٹیکس کا کلچر عام ہونے کے باعث ہی مہنگائی اور غربت میں اضافہ ہو رہا ہے‘ مگر حکومت نے آئندہ سال ٹیکس کولیکشن کا ہدف 24 فیصد زیادہ رکھا ہے جس کے حصول کے لیے کوئی ٹھوس اور حقیقی پالیسی بھی بیان نہیں کی گئی۔ اسی طرح بجٹ سے قبل تاجروں کی جانب سے حکومت کو ٹیکسوں کے حوالے سے جو تجاویز پیش کی گئی تھیں‘ جیسا کہ نئے ٹیکس پیئرز کو سامنے لانا‘ صنعتوں کی ترقی کیلئے بجلی کے ٹیرف میں رعایت دینا وغیرہ‘ ان تجاویز پر بھی خاطر خواہ عمل نظر نہیں آیا جبکہ بینکنگ ٹرانزیکشنز‘ کیش نکالنے اور ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈز کے ذریعے بین الاقوامی ٹرانزیکشنز پر ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کرنا خوش آئند ہے‘ اس سے لوگ بینکنگ سیکٹر میں زیادہ دلچسپی لیں گے اورPlastic Money کی طرف آئیں گے؛ چنانچہ زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت کو محصولات کے حوالے سے چند ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں: سرکاری اداروں کو عوام دوست بنایا جائے جیسا کہ حکومت کا انکم ٹیکس آرڈیننس میں ترمیم کے بعد ایف بی آر سے گرفتاری کے اختیارات واپس لینا خوش آئند ہے‘ اس سے ٹیکس دہندگان اور تاجروں کی تشویش زائل ہو گی۔ ٹیکس کا دائرہ وسیع کرنے کیلئے عوام میں Tax Morality پیدا کرنا ہوگی‘ عوام کی سوچ کو بدلتے ہوئے انہیں یقین دلانا ہوگا کہ ان کا پیسہ انہی کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو رہا ہے۔ نچلی سطح پر ٹیکس اکٹھے کرنے کیلئے مقامی حکومتوں کا نظام مضبوط کرنا ناگزیر ہے‘ مقامی ادارے جن کا ہمارے ہاں فقط سیاسی استعمال ہوتا ہے‘ کو مالی و انتظامی طور پر خود مختار بنانا ہوگا اور ہر علاقے سے جمع ہونے والا پیسہ اسی علاقے کی خوشحالی پر صرف کرنا چاہیے۔ پاکستان میں کئی ایسی بڑی مارکیٹیں ہیں جو کروڑوں روپے کما رہی ہیں مگر ان کی ڈاکومنٹیشن نہیں ہے جس کے باعث وہ ٹیکس سے بچ نکلتی ہیں‘ ان کی ڈاکومنٹیشن کرتے ہوئے انہیں بھی ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے۔ ماہرین معیشت موجودہ بجٹ کو متوسط طبقے کیلئے خوش آئند قرار نہیں دیتے‘ کیونکہ متوسط طبقے کو درپیش دو بڑے مسائل مہنگائی اور بیروزگاری سے نمٹنے کیلئے ٹھوس اور طویل المدتی حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ زراعت کی بات کریں تو گزشتہ مالی سال زرعی ترقی کی شرح 2.77 فیصد تھی جو پچھلے مالی سالوں کی شرح سے کم ہے‘ مگر حالیہ بجٹ میں زرعی شعبے میں اصلاحات کیلئے فقط 12 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ حکومت کو چاہیے کہ چین کی مدد سے معیاری بیج‘ فرٹیلائزر اورکیڑے مار ادویات کی مقامی سطح پر تیاری پہ خصوصی سبسڈی دی جائے‘ جبکہ ٹھوس زرعی تحقیق کیلئے بھی خاص بجٹ مختص کیا جانا چاہیے۔اسی طرح لارج سکیل مینو فیکچرنگ میں رواں سال ترقی کی شرح 9.3 فیصد رہی جو پچھلے مالی سالوں کے مقابلے میں زیادہ ہے‘ اس میں بنیادی کردار ٹیکسٹائل‘ مشروبات‘ دوا سازی ‘ کیمیکلز اور آٹوموبائل انڈسٹری نے ادا کیا ۔ چین کے پاس اب اس شعبے کو مزید وسعت دینے کیلئے انسانی سرمایہ کم ہو چکا ہے مگر پاکستان اپنی 63 فیصد نوجوان آبادی کو تربیت کے ذریعے کارآمد بناتے ہوئے بڑی صنعتوں میں انقلاب لا سکتا ہے‘ جس کے لیے حکومت کو آسانیاں پیدا کرنا ہوں گی۔حالیہ بجٹ میں الیکٹرک گاڑیوں کے سیلز ٹیکس میں کمی و دیگر سہولیات دینے کا عندیہ دیا گیا ہے مگر اس پر ناقدین کا خیال ہے کہ اس اقدام سے چینی مصنوعات تیار کرنے والے کسی پاکستانی تاجرکو ذاتی فائدہ پہنچایا جا رہا ہے۔ واللہ اعلم۔
ملکی شرح نمو میں خدمات کے شعبہ کا حصہ 62 فیصد ہے‘ کورونا کے باعث سال 2019-20 ء میں خدمات میں ترقی کی شرح منفی 0.55 فیصد پر چلی گئی تھی‘ لیکن سال 2020-21ء میں کچھ بہتری کے ساتھ یہ شرح اب 4.43 فیصد پر ہے؛ چنانچہ خدمات کے شعبہ کا بھی بہتر طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے‘ جس طر ح بھارت اور بنگلہ دیش کی لیبر اور نوجوان دنیا کیلئے ایک ضرورت بن چکے ہیں‘ اسی طرح ہمیں بھی Skill Based لیبر تیار کرنے کیلئے مربوط پروگرامز شروع کرنا ہوں گے‘ جس کے لیے خصوصی فنڈز جاری کیے جائیں تاکہ ہمارے لوگ دنیا میں کہیں بھی جا کر اپنی خدمات دے سکیں اور ملک میں ترسیلاتِ زر جو ہماری معیشت کی لائف لائن ہے‘ میں اضافہ ممکن ہو سکے۔ شعبہ صحت شاید اب تک ہمارے لیے ترجیح نہیں بن پایا‘ اسی لیے تو کھربوں کے بجٹ میں صحت کیلئے فقط 30 ارب مختص ہیں‘ کورونا وبا سے نمٹنے کیلئے حکومت 1.1 ارب ڈالر کی ویکسین خریدنے کا ارادہ تو رکھتی ہے مگر ویکسی نیشن تیز کرنے کیلئے حکومت کو مقامی سطح پر بھی معیاری ویکسین بنانے کیلئے خاص فنڈز مقرر کرنے چاہئیں۔ غربت کے خاتمے کیلئے ملک میں فقط ایک ''احساس پروگرام‘‘ چل رہا ہے جبکہ ملک کی ایک چوتھائی آبادی غربت کا شکار ہے ؛چنانچہ سوشل اور مالی سکیورٹی کے مزید پروگرامز شروع کرنا ہوں گے‘ جبکہ غربت کے خاتمے کیلئے حکومت کو موثر فیملی پالیسی و پلاننگ کیلئے خصوصی فنڈز جاری کرنے چاہئیں کیونکہ چین اور بنگلہ دیش کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جنہوں نے آبادی پر قابو پا کر ہی معاشی ترقی کی راہ متعین کی۔ پاکستان کو بھی انہی کے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔ مختصریہ کہ حالیہ بجٹ میں غریب اور متوسط طبقات کی فلاح و بہبود اور خوشحالی کیلئے کوئی خاص اقدامات نظر نہیں آتے‘ تاہم اس میزانیے میں معاشی ترقی کا عنصر ضرور موجود ہے اور امید یہی کی جا رہی ہے کہ ان پالیسیوں کا غریب اور متوسط طبقات پر Trickel down effect ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں