"MEC" (space) message & send to 7575

افغانستان کی بدلتی صورتحال اور پاکستان

افغانستان نے بھی کیا قسمت پائی ہے‘ جہاں کئی دہائیوں سے خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ 70ء کی دہائی میں یہاں روس نے قبضہ جمایا‘ جس کی گرم پانیوں تک رسائی کی سعی امریکہ کیلئے بڑا جھٹکا تھی؛ چنانچہ روس کو شکست دینے کیلئے امریکہ اور پاکستان کی مدد سے افغان مجاہدین کو تیار کیا گیا۔ 1989ء میں سوویت افواج کا انخلا تو ہو گیا مگر مجاہدین اور دوسرے جنگجو گروہوں کے اختلافات کے باعث افغانستان خانہ جنگی کی جانب چلا گیا۔ اسی دوران طالبان ایک نئی قوت بن کر ابھرے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ اور اتحادیوں نے طالبان کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے War on Terror کا آغاز کر دیا۔ اس جنگ کا مشن الائیڈ فورسز کے ذریعے دہشتگردی کا خاتمہ کرتے ہوئے نئے نظام اور انفراسٹرکچر کے ساتھ افغانستان کو ترقی کے دھارے میں واپس لانا تھا‘ لیکن چند ہی سالوں میں یہ جنگ اپنا مقصد کھو بیٹھی۔ اس بیس سالہ جنگ سے نہ افغانستان میں معاشی اور نہ ہی سماجی تبدیلی آ سکی۔ سالہا سال خونریزی جاری رہی‘ دو لاکھ 41 ہزار جانیں گئیں جن میں 71 ہزار سویلین شامل ہیں۔ امریکی مصنف Carter Malkasian اپنی کتاب The American War in Afghanistan میں لکھتے ہیں کہ 2008ء تک امریکی اور نیٹو افواج کے جرنیل یہ حقیقت تسلیم کر چکے تھے کہ مسئلہ افغانستان جنگ سے حل نہیں ہو سکتا‘ مگر یہ جنگ تب کی قیادتوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے جاری رکھی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ بیس سال بعد بالآخر یہ کہتے ہوئے نکل گیا کہ افغانستان کا مستقبل افغان خود طے کریں گے۔
افغانستان کے ساتھ 1640 میل طویل سرحد ہونے کے باعث وہاں کے تمام حالات کا اثر پاکستان پر پڑتا ہے۔ جب روسی تسلط کے خلاف جنگ شروع ہوئی تو 40 لاکھ افغان شہریوں نے پاکستان کا رخ کیا اور یہ مہاجرین پاکستان کے ہر علاقے میں آباد ہوگئے۔ ان میں سے کئی لوگوں نے یہاں منشیات فروشی‘ غیر قانونی اسلحے کی فروخت شروع کر دی۔ 1988ء میں جب میں ڈی جی خان میں پولیٹیکل اسسٹنٹ تعینات تھا تو مجھے لورالائی میں مہاجر کیمپ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ جب میں کیمپ میں پہنچا تو وہاں اسلحے اور منشیات کی منڈیاں دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ گوریلا جنگ کا تمام اسلحہ ان کیمپوں میں موجود تھا‘ ایمونیشن‘ کلاشنکوف کوڑیوں کے بھاؤ بک رہی تھیں‘ جبکہ چرس‘ ہیروئین کی سرعام فروخت جاری تھی۔ میرے سوال کے جواب پر لیویز اہلکار (خاصہ دار) نے بتایا کہ مہاجرین کی کثیر تعداد کے باعث مقامی پولیس ان کے ساتھ محاذ آرائی کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ انہی میں سے کئی لوگ اغوا برائے تاوان اور فرقہ واریت میں بھی ملوث تھے‘ بعض دہشتگردی کے واقعات میں سہولت کاری کا کردار ادا کرتے رہے جبکہ اس زمانے میں سینکڑوں مطلوب دہشتگرد افغانستان میں پناہ لیتے رہے۔ ان مہاجرین نے سمگلنگ کے دھندے اور شعبہ ٹرانسپورٹ پر بھی اجارہ داری قائم کر لی‘Temporary Residence in Pakistan کے نام پر یہ لوگ ہر قسم کے محصولات سے مستثنیٰ تھے‘ وہ بغیر کسی کسٹم ڈیوٹی کے غیرقانونی اشیا کے ٹرک بھرکر پاکستان اور افغانستان کے درمیان سمگل کرتے۔ بلاشبہ افغان مہاجرین مالی بوجھ بننے کیساتھ پاکستان میں اخلاقی‘ معاشی اور معاشرتی مسائل پیدا کرنے کے ذمہ دار بھی ہیں۔
آج ہر کوئی اسی شش و پنج میں ہے کہ امریکہ اور اتحادی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان کے حالات کس کروٹ بیٹھیں گے‘ اور اس کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ امریکہ نے انخلا کیلئے 31 اگست کی تاریخ دی ہے‘ جس کے بعد سے طالبان گوریلا وارفیئر کی حکمت عملی کے تحت مختلف حصوں پر حملے اور قبضے کرکے حکومت کو غیرمستحکم اور مفلوج بنا رہے ہیں۔ 34 صوبوں میں سے 20 میں طالبان کی پوزیشن مضبوط ہے۔ بلاشبہ طالبان آج اپنی مفاہمتی پالیسی کے ساتھ ایک نئے روپ میں سامنے تو آ رہے ہیں مگر حقیقتاً نہ ان کے پاس کوئی ٹھوس نظریہ و منصوبہ بندی نہیں ہے۔ پھر ملا عمر کے بعد طالبان کو کوئی ایسا سربراہ نصیب نہیں ہوا جو سب کو ساتھ لے کر چل سکے؛ چنانچہ افغانستان جیسے پیچیدہ معاشرے میں ہم آہنگی لانا نہایت ہی مشکل عمل ہوگا کیونکہ وہاں بسنے والے نسلی دھڑوں میں تقسیم پائی جاتی ہے‘ ایک طرف تاجک اور ازبک اکثریت والا شمالی اتحاد ہے‘ جس کے وار لارڈزکے مطابق وہ طالبان سے ممکنہ جنگ کیلئے ہزاروں مسلح افراد کو دوبارہ اکٹھا کر رہے ہیں‘ دوسری جانب ہزارہ کمیونٹی ہے جن کے قائدین کہتے ہیں کہ وہ ہزارہ برادری کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کی تاریخ کو دہرانے نہیں دیں گے اور اپنا مسلح دفاع کریں گے۔ حال ہی میں ایک نئی ملیشیا بھی کابل کے ہزارہ اکثریتی محلوں میں نمودار ہوئی ہے‘ جو طالبان سے لڑنے کی تیاری کر رہی ہے۔ اسی طرح پشتون اکثریتی گروہوں میں گلبدین حکمت یار اپنی جماعت حزب اسلامی کے سائے تلے اب تک حکومت مخالف درجنوں اجتماعات کر چکے ہیں۔ ان سب دھڑوں کی سوچ اور نظریات میں زمین آسمان کا فرق ہے؛ چنانچہ طالبان اگر افغانستان میں مضبوط اور مستحکم حکمرانی کے خواہاں ہیں تو انہیں سب دھڑوں کو ایک پیج پر لانا ہو گا جو کہ عملی طور پر مشکل نظر آتا ہے۔
زاہد حسین اپنی کتاب No Win War میں لکھتے ہیں کہ افغانستان کا مسئلہ صرف افغان حکومت‘ امریکہ اور طالبان کا نہیں بلکہ بہت سی طاقتیں اس پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ موجودہ صورتحال بھی یہی بتاتی ہے کہ خطے کے تمام ممالک کے افغانستان میں ذاتی مفادات ہیں‘ عجب سی صورتحال ہے کہ کیا پتا کون کیا کھیل کھیل رہا ہے مگر ان غیر یقینی حالات میں پاکستان کی پالیسی قابلِ تعریف ہے۔ ہماری سویلین و عسکری قیادت متفق ہے کہ پاکستان اب کسی صورت افغان جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔ شاید ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ لیا ہے کیونکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہم نے 75 ہزار جانیں گنوائیں اور 123 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کیا‘ دوسری جانب افغان حکومت مسلسل پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا رہی ہے جو قابل مذمت ہے۔ کبھی افغان صدر پاکستان پر 10 ہزار جنگجو بھیجنے اور کبھی افغان نائب صدر ہم پر طالبان کی دفاعی معاونت کا الزام لگاتے ہیں۔ قیادت کے فیصلے اپنی جگہ مگر اس کے برعکس کچھ زمینی حقائق بھی ہیں: ہمارے قبائلی علاقوں میں بسنے والے افراد کا افغان شہریوں کے ساتھ لسانی و ثقافتی رشتہ ہے؛ چنانچہ باڑ لگانے کے باوجود پاکستان کو افغانستان سے داخلی و خارجی خطرات بدستور لاحق ہیں‘ افغانستان میں دہشتگردی ویسے بھی ایک انڈسٹری بن چکی ہے‘ جس کا فائدہ بھارت یا کوئی اور دشمن اٹھا سکتا ہے‘ کیونکہ پاکستان پہلے ہی ٹارگٹ پر ہے۔ بھارتی صحافی یاتش یادیو اپنی کتاب: Raw: A History of India's Covert Operations میں یہ انکشاف کر چکے ہیں کہ ماضی میں بھارت نے افغانستان میں تین وار لارڈز کی باقاعدہ خدمات حاصل کی تھیں۔ بھارت دوبارہ ایسا کر سکتا ہے؛ چنانچہ پاکستان افغانستان کے سیاسی حالات سے براہ راست جڑا ہے‘ اور وہاں مؤثر‘ مضبوط اور مستحکم گورننس کا سب سے بڑا حامی ہے کیونکہ ان تمام حالات میں ہمارے لئے دو عوامل اہم اور قابلِ غور ہیں: پہلا یہ کہ اگر افغانستان میں عدم استحکام آیا تو مہاجرین کا مزید بوجھ ہماری جانب آسکتا ہے‘ دوسرا یہ کہ اگر طالبان کے حاوی ہونے سے پاکستان میں ٹی ٹی پی کو تقویت ملی تو یہ ہمارے لیے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہوگا کیونکہ پاکستان نے لازوال قربانیوں کے ذریعے ان دہشتگردوں پر قابو پایا ہے۔ پاکستان کسی صورت افغانستان میں کوئی غیر مستحکم اور مخالف حکومت برداشت نہیں کر سکتا۔ گویا افغانستان میں ایک غیرجانبدار حکومت ہی آج پورے خطے کے مفاد میں ہے کیونکہ افغانستان کی 50 سالہ جنگ دیکھنے کے بعد یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ ملک صرف مصالحت سے چل سکتا ہے 'محاذ آرائی‘ سے نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں