"MEC" (space) message & send to 7575

استحقاق یا ہراسگی

پاکستان کی موجودہ بیوروکریسی کا نظام برطانوی راج سے جڑا ہے‘ نوآبادیاتی دور میں فولادی ڈھانچہ( Steel Frame) کہلانے والی ٹھوس سول سروس کو تب کے سیاستدانوں میں قانونی و انتظامی تجربے کی کمی‘ نچلی سطح تک عوامی مسائل کے حل اور مذہبی و سماجی طور پر منقسم معاشرے میں قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کی غرض سے تشکیل دیا گیا تھا۔اس مضبوط اور منظم سروس کی بدولت برطانوی حکمران برصغیر پر ایک صدی تک برسر اقتدار رہے۔ تقسیم ہند کے بعد انگریز تو چلے گئے مگر ان کادیا ہوا بیوروکریسی کا نظام ہم نے بطور وراثت قبول کیا۔ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے سول سرونٹس کو عوام و ریاست کا خادم قرار دیا اور انہیں غیر جانبدار رہتے ہوئے اپنا کام جاری رکھنے کی تلقین کی تھی؛ چنانچہ 50ء اور 60ء کی دہائی تک بیوروکریسی سیاسی دباؤ سے ماورا‘ بطور عوامی خدمتگار اپنا کام کرتی رہی۔ مگر یہ ماڈل 1971ء تک ہی چل سکاجس کے بعد ذوالفقارعلی بھٹو نے بیوروکریٹس کو ریاست کے بجائے حکومت کے تابع کرنے کی کوشش کی۔ Lateral Entry کر کے 1400سرکاری افسران کو نوکری سے جبری برخاست کیا گیا جبکہ حکومتی فیصلوں پر بیوروکریٹس کا آئینی تحفظ ختم کر کے افسران کو سیاستدانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ اس کے بعد ضیاء الحق نے بھی اس آئینی تحفظ کو بحال نہ کیا بلکہ کوٹہ سسٹم کے تحت ملٹری افسران بیوروکریسی میں بھرتی ہوتے رہے۔ پھر بینظیر اور نواز شریف کے ادوار میں بیوروکریسی کو دو پارٹیوں میں بدل دیا گیا۔ نواز شریف نے افسران کے سیاسی استعمال کی روایت ڈالی پھر مشرف کے زمانے میں ڈی سی آفس کو ختم کر دیا گیا جو کہ عوامی سطح پر سروس ڈلیوری کا واحد نظام تھا۔ اسی طرح شہبازشریف نے اپنے ادوار میں تمام انتظامی اختیارات سی ایم سیکرٹریٹ منتقل کر کے انتظامی آمریت قائم کی جبکہ اس وقت کے افسران بھی قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کے بجائے سیاسی قائدین کی اطاعت و فرمانبرداری میں جٹے رہے اورعوامی خدمت گارسے حکومتی سہولت کاربن گئے۔
2018ء میں'' تبدیلی سرکار‘‘ آئی تو بہتری کی نئی امید جاگی مگربڑے صوبوں میں نااہل تعیناتیوں کے باعث ملک میں گورننس کا شدید فقدان نظر آتا ہے۔اس حکومت نے تین سالوں میں بیوروکریسی میں فقط کنفیوژن‘ اکھاڑ پچھاڑ اور عدم تحفظ کی فضا قائم کی ہے۔ ابھی موجودہ حکومت کے پچھلے وار (سول سروس ریفارمز 2020ء)کے زخم تازہ تھے کہ حال ہی میں پنجاب میں ارکانِ اسمبلی استحقاق ترمیمی بل 2021 ء کی منظوری نے بیوروکریسی میں نیا اضطراب پیدا کر دیا ہے‘ جس کے بعد گمان ہوتا ہے کہ افسران جنہیں پہلے عوامی خدمتگارسے حکومتی خدمتگار بننا پڑا تھا‘ اب نہ چاہتے ہوئے انہیں منتخب نمائندوں کا ذاتی خدمتگار بننا پڑے گا۔
پنجاب میں پیش کیے جانے والے ارکان اسمبلی استحقاق ترمیمی بل 2021ء کے مطابق کوئی بیوروکریٹ یا صحافی‘ اسمبلی یا معزز ارکان کے استحقاق کو مجروح کرتا ہے تو اسے جرمانہ اور سزا بھگتنا ہوگی۔ بل پیش ہونے کے بعد صحافتی حلقوں کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا جنہوں نے پنجاب اسمبلی کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا‘ جس کے بعد ان ترامیم کا اطلاق صرف بیوروکریٹس تک محدود کر دیا گیا۔ ترامیم کے تحت پنجاب اسمبلی استحقاق کمیٹی کو مجسٹریٹ جبکہ جوڈیشل کمیٹی کو فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کے اختیارات دے دیئے گئے ہیں جو خود ہی سزا و جزا کا فیصلہ کریں گے۔سپیکر کے کنڈکٹ پر کوئی بات نہیں کی جاسکے گی جبکہ سرکاری محکموں کے افسران اگر اسمبلی بلانے پر نہ آئے تو وہ بھی قابل گرفت ہوں گے۔اگر کسی محکمے کی طرف سے غلط جواب اسمبلی کو بھیجا گیا تو اس کے خلاف بھی کارروائی ہوگی جبکہ کمیٹی کے اراکین کا چناؤ اور تعداد کا اختیار بھی سپیکر کے پاس ہوگا۔
اس متنازع بل‘ جسے گورنر کے اعتراضات کے باوجود حکومت و اپوزیشن نے متفقہ طور پر منظور کیا‘ نے کئی شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ سب سے پہلے تو اس بل کو نہایت خفیہ طریقے سے پیش کیا گیا اور بغیر کسی بحث کے منظور کر لیا گیا جو کہ ہر گز آئینی اور جمہوری طریقہ کار نہیں۔اسی طرح بل کے تحت سپیکر اور استحقاق کمیٹی کو دیے گئے اختیارات آئین کے آرٹیکل 66(3) 10(A) اور آرٹیکل 25 کے متصادم ہیں جو کہ منصفانہ و شفاف انصاف‘ قانون کی برابری اور سزا و جزا کیلئے عدالتوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ اقدام واضح طور پر بیوروکریسی کو ہراساں کرنے کے مترادف ہے؛ چنانچہ اس بل سے اراکین کا استحقاق تو شاید محفوظ بنا لیا جائے مگر افسران کے استحقاق کی گارنٹی کون دے گا؟
فرانسیسی فلاسفر مونٹیسکو نے اپنی کتاب The Spirit of Laws میں ریاستی طاقت کو تین ستونوں میں تقسیم کیا ہے: مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ‘ جن کے پاس خاص صوابدیدی اختیارات ہیں اور آئین و قانون کے مطابق وہ اپنے فرائض سرانجام دینے میں آزاد اور خود مختار ہیں۔ کہنے کو تو دیگر ریاستوں کی طرح پاکستان بھی اسی بنیادی فلسفے کو اپنائے ہوئے ہے‘ آئین پاکستان کے آرٹیکل 41(1) ‘ 90(1) ‘ 48(1) ‘ 58(1) ‘ 58(2)(a) ‘ 58(2)(b)‘ 91(5) ‘ 50 اور 175 واضح الفاظ میں Separation of Power کی تائید کرتے ہیں‘ مگر اس سب کے باوجود ہمارے ریاستی ستون ہر لمحہ تقسیم طاقت کا اصول توڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کے کام میں مداخلت‘ ایک دوسرے پر اجارہ داری قائم کرنے کی چاہ ہمارے اداروں کا مشغلہ بن چکا ہے۔ مقننہ کا کام تو عوامی مفاد اور فلاح و بہبود پر مبنی قانون سازی ہے‘ انتظامیہ ان قوانین پر احسن طریقے سے عمل کرواتی ہے‘ جبکہ عدلیہ ان قوانین کی محافظ ہوتی ہے۔ مگر پاکستان میں تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ہمارے نمائندگانConflict of Interest کا شکار ہو کر عوامی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد کی قانون سازی میں مصروف ہیں‘ جن کی تمام تر توجہ قومی سیاست کے بجائے حلقے کی سیاست پر مرکوز ہے‘ اور جب کوئی سیاستدان حلقے اور ووٹروں کی سیاست میں پڑ جائے تو پھر اس کیلئے کوئی میرٹ معنی نہیں رکھتا۔وہ اپنے تمام جائز ناجائز کاموں میں افسران کو بطور ہتھیار استعمال کرنا چاہتے ہیں‘ ان کیلئے وہی بیوروکریسی میرٹ پر ہوتی ہے جو انکے تمام سیاسی و ذاتی مقاصد میں کام آ سکے اور جس کے ذریعے وہ انتظامیہ پر قابض ہو سکیں۔اب تو حالیہ بل دیکھنے کے بعد یہ لگتا ہے کہ مقننہ شاید عدلیہ کے اختیارات بھی حاصل کرنیکی خواہشمند ہے۔
میری نظر میں اس بل کی منظوری سے پارلیمان کی حکمرانی اور منتخب نمائندوں کا وقار مجروح ہوا ہے‘ جس کی نظیر نہیں ملتی۔اسی طرح کیا یہ مناسب ہے کہ مقننہ بات بات پر انتظامی اداروں کے سربراہان کو جوابدہی کیلئے بلائے؟ پوری دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا اور نہ ہی انتظامیہ مقننہ کو جوابدہی کی پابند ہے‘ انتظامیہ کا رتبہ‘ وقار ‘ عزت اور اہمیت بھی اتنی ہی ہے جتنی کہ مقننہ کی۔ انتظامیہ پر مقننہ کے حوالے سے ذمہ داری فقط قوانین کی عملداری میں معاونت کی حد تک ہے جبکہ افسران کی ناقص کارکردگی‘ مس کنڈکٹ یا کرپشن کی جوابدہی کیلئے گورنمنٹ سرونٹس (ایفیشنسی اینڈ ڈسپلن) رولز 1973 جیسے کڑے قانون کیساتھ نیب‘ ایف آئی اے اور دیگر ادارے پہلے سے موجود ہیں۔ یہاں ناکام طرز حکمرانی کی سب سے بڑی وجہ حکومت و بیوروکریسی کے درمیان مسلسل چلنے والی چپقلش‘ عدم استحکام‘ عدم اعتماد اور ناکام ورکنگ ریلیشن شپ کوہی قرار دیا جا سکتا ہے‘ اور حالیہ بل نے اس مسئلے کو مزید ہوا دی ہے۔ کبھی پکڑ دھکڑ کا خوف تو کبھی تبادلوں کا خوف‘ کبھی جبری برخاست ہو جانے کا خوف تو اب انتقامی کارروائی کا خوف‘ ایسی غیر یقینی کی فضا میں بیوروکریسی بہترین کارکردگی کیسے دکھائے؟ حکمرانوں کوایک بات جان لینا ہوگی کہ جس طرح کاروباری طبقے میں عدم تحفظ کی صورت میں معیشت کا پہیہ نہیں چل سکتا ٹھیک اسی طرح عدم تحفظ واعتماد کا شکاربیوروکریسی بھی کبھی ملک کو بہترڈلیورنہیں کرسکتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں