بھارتی حکومت نے حالیہ کچھ عرصے میں اوپر تلے دو فاش غلطیاں کی ہیں۔ پہلی غلطی یہ کی کہ نتائج کے بارے میں صحیح طرح جانچ پرکھ کیے بغیر انڈین آئین میں مقبوضہ کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کا سٹیٹس تبدیل کر دیا اور ابھی اس معاملے پر عالمی برادری اور خود بھارت کے اندر جنم لینے والا ردِ عمل اپنے عروج پر تھا‘ اور یہ ایسا ردِ عمل نہیں جسے باآسانی نظر انداز کر دیا جائے‘ کہ انڈیا نے دوسری مہلک غلطی کر دی۔ وہ مہلک غلطی یہ تھی کہ تلخی سے بھرپور شہریت ایکٹ بھارتی عوام پر تھوپ دیا گیا۔ اس ایکٹ نے نہ صرف عالمی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی بلکہ اس سے ہٹ کر غیر متوقع طور پر خود انڈیا کے اندر سے اس کی سخت مذمت دیکھنے میں آئی۔ لیکن شاید اتنی حماقتوں سے بھارتی حکومت کا جی بھرا نہیں اور ابھی ان معاملات کی دھول بیٹھی نہیں تھی کہ اس نے آزاد کشمیر یا باالفاظِ دیگر پاکستان پر حملے کے ارادے ظاہر کرنا شروع کر دیے۔ یوں محسوس ہوتا ہے‘ انڈیا چاہتا ہے کہ حماقتوں کی ایک جھڑی باندھ دی جائے۔ اسی حوالے سے ایک معروف مقولہ ہے کہ ''جب تمھارا دشمن غلطیاں کر رہا ہو تو تم مداخلت مت کرو۔‘‘ پی ٹی آئی کی حکومت‘ شاید لا شعوری طور پر‘ لیکن بظاہر اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
جہاں تک سفارت کاری کے میدان میں حکومتی کاوشوں کی بات ہے تو اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ یہ قابل تعریف ہیں اور پاکستان کی سفارتی کوششوں نے ساری دُنیا میں اپنا اثر پیدا کیا ہے۔ لیکن قانونی لڑائی ہو یا نفسیاتی دائرہ عمل‘ عسکری محاذ ہو یا سیاسی میدان ان تمام پہلوئوں پر حکومتِ پاکستان موزوں اقدامات کرنے میں کامیاب نہیں رہی۔ ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جب تک ہم بھارتی حکومت پر کامل دبائو نہیں ڈالتے اور اس کی عسکری مہم جوئی کو لگام نہیں دیتے تب تک اس کے مخاصمانہ رویے میں تبدیلی کی ہماری خواہش پوری ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ خالی خولی عالمی اخلاقی دبائو‘ وہ بھی کمزور اور جزوی‘ انڈیا کی موٹی کھال پر اثر انداز ہونے والا نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر پاکستان زیادہ جارحانہ انداز اختیار کرے تو یہ چیز عالمی برادری کو ٹھوس اقدامات کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ ہماری جانب سے مستقل طور پر 'اچھا بچہ‘ بنے رہنے کا جو رویہ اختیار کیا گیا ہے اُس کا اب تک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نہ صرف عالمی برادری خاموش اور لا تعلق ہوتی جا رہی ہے بلکہ انڈیا کے جارحانہ رویے میں بھی مزید شدت آتی جا رہی ہے۔ اگر کوئی نیوکلیئر طاقت ہمیشہ ڈرانے دھمکانے کا انداز اختیار کیے رکھے تو اس کے جواب میں دوسری نیوکلیئر طاقت کو‘ جو اس سے بہتر نہ سہی اُس سے کم بھی نہیں‘ جوابی رد عمل بھی اُتنا ہی مساویانہ اور اُتنا ہی تگڑا ظاہر کرنا چاہیے۔ اگر اس خطے میں کوئی ہنگامی صورت حال جنم نہیں لیتی تو اہم عالمی قوتیں انڈیا کے اس بھیانک قدم کو ہضم کر جائیں گی۔ ہماری سیاسی و عسکری قیادت کو صورتحال کا اس تناظر سے بھی ضرور جائزہ لینا چاہیے اور اس حوالے سے غوروفکر کرنا چاہیے۔ سرحد پار سے جس طرح کے بیانات کا سلسلہ جاری ہے اور ہمارے ہاں سے اُن کا جو جواب دیا جا رہا ہے‘ اُسے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن یہ بات مد نظر رہنی چاہیے کہ کسی بھی سیاسی تزویراتی نوعیت کے بیان کا اندرون ملک سامعین اور دشمن کے مائنڈ سیٹ پر جو اثر مرتب ہوتا ہے اُن اثرات کا جائزہ بغور لیا جانا چاہیے۔ ہر گھڑی ہر پل عالمی سامعین کو ہی راضی رکھنے کی کوشش ایک نا مکمل سی حرکت پذیری ہے‘ اور تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے بس کچھ ایسا ہی طرزِ گفتار و طرزِ عمل اختیار کر رکھا ہے۔
امن سے محبت کے داعیوں کی جانب سے اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ‘ ''پاکستان اور کیا کر سکتا ہے؟‘‘ کیا ہمارے پاس اس سوال کا مطمئن کر دینے والا جواب موجود ہے؟ شاید یہ سوال اُٹھانے والوں کو بھی علم نہیں کہ یہ سوال بذات خود دانش و تزویراتی دیوالیہ پن کا شاہکار ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ سیاست و حکمت کے میدان میں کوئی بند گلی نہیں ہوتی۔ سفارت کاری کے علاوہ دیگر میدانوں میں ہم نے جو بے عملی اختیار کر رکھی ہے اُس کے لیے جواز ہم اپنی کمزور معیشت کا بناتے ہیں‘ لیکن ہماری اس بے عملی کا نتیجہ صرف یہ نکلے گا کہ ایک طرف اس کی بدولت انڈین مائنڈ سیٹ پر دبائو کم ہوتا چلا جائے گا اور دوسری جانب عالمی برادری کشمیر اور ہندوتوا کے بارے میں غیر سنجیدہ رویہ ہی اپنائے رکھے گی۔
اب اُن اقدامات کی فہرست حاضر ہے جو پاکستان کی جانب سے کیے جا سکتے ہیں:
1۔ قانونی محاذ پر ہمیں چاہیے کہ کشمیر میں انڈیا کی قابض افواج جن جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہی ہیں ہم اُن کا ریکارڈ مرتب کریں اور اسے مناسب عالمی فورمز پر پیش کریں۔ انڈین آرمی جنرلز کے بیانات اور ان کے وادی میں کیے جانے والے عملی اقدامات خود انڈیا کو موردِ الزام ٹھہرانے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
2۔ اگر ہم ریڈ کریسنٹ کو اس بات پر آمادہ کر سکیں کہ وہ مقبوضہ وادی میں خوراک و ادویات کی فراہمی کی صورتحال کا جائزہ لے تو یقین کریں یہ کشمیریوں کی بہت بڑی خدمت ہو گی۔ اس کے لیے ہمیں عالمی برادری پر دبائو ڈالنا چاہیے کہ وہ اس انسانی مسئلے کے حوالے سے لازماً ایک غیر جانبدار جائزہ مشن تشکیل دے۔
3۔ سیاسی میدان میں ہم یہ کر سکتے ہیں کہ شملہ معاہدے کی خلاف ورزی کو جواز بنا کر لائن آف کنٹرول کو دوبارہ سیز فائر لائن میں بدل دیں۔
4۔ انڈین مقبوضہ کشمیر کی نمائندگی کرنے والی ایک جلا وطن حکومت کے قیام کے بارے میں غور و فکر کرنا چاہیے۔
5۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ جہاں جہاں ممکن ہے (گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں) حق خود ارادی کے حوالے سے رائے شماری کرائے‘ اس حوالے سے تفصیلات جگہ کی قلت کے سبب یہاں بیان نہیں کی جا سکتیں۔
6۔ اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب موجود کشمیری آبادی کی رجسٹریشن کرے‘ اس میں بیرونی ممالک میں موجود اور مقیم کشمیریوں کو بھی شامل کیا جائے تاکہ کشمیری آبادی کے تناسب میں تبدیلی کی کسی بھی کوشش کو روکا جا سکے۔
7۔ پاکستان اور آزاد کشمیر میں نوجوانوں کے لیے ایک وسیع تربیتی پروگرام شروع کیا جائے تاکہ بوقت ضرورت یہ لوگ اپنی مسلح افواج کے شانہ بشانہ مادرِ وطن کا دفاع کر سکیں۔
8۔ پاکستان نے یہ یک طرفہ اعلان کر رکھا ہے کہ ہم کبھی بھی کوئی جارحانہ قدم اٹھانے میں پہل نہیں کریں گے، اس پاکستانی اعلان کو انڈین مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم کے فوری خاتمے سے مشروط کر دیا جانا چاہیے۔ امن کے متلاشی ہمارے کمزور قومی بیانیے کی جگہ جارحانہ نفسیاتی اور میڈیا مہم چلائی جانی چاہیے۔
وہ لوگ جن کے خیال میں صرف مذاکرات ہی پیچیدہ عالمی سیاسی معاملات کا حل ہیں انہیں افغانستان‘ شام‘ عراق‘ یمن اور لیبیا وغیرہ کی حالیہ تاریخ پر کم از کم ایک اُچٹتی ہوئی نظر ڈال لینی چاہیے۔ اور خدا را امریکہ کی ثالثی کے جال میں پھنسنے سے پہلے یہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہ فلسطین کے معاملے میں اس امریکی ثالثی سے کیا نتیجہ نکل رہا ہے۔
وہ ممالک جو اپنی قوت و صلاحیت سے مکمل طور پر فائدہ نہیں اٹھاتے وہ ہمیشہ غالب‘ طاقت ور اور بے مہر عالمی سیاسی اور معاشی (ڈس) آرڈر کے شکنجے میں جکڑے رہتے ہیں۔ ہمیں ہرگز یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ راہنمائوں کا مائنڈ سیٹ ہی قوموں کی تقدیر کا تعین کرتا ہے۔