چیزیں اچانک اور سب کی سب واضح طور پر درست سمت میں گامزن ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر سیزفائر، وزیر اعظم اور آرمی چیف کی جانب سے امن کی پیشکش، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے مثبت ردِ عمل، پاکستانی انڈس واٹر کمشنر کا دورہ بھارت، بنگلہ دیش کا یومِ پاکستان پر مبارکباد پیش کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اور دعا کریں کہ یہ مثبتیت برقرار رہے۔ خطے کے ڈیڑھ ارب غربت زدہ لوگوں کیلئے یہ نیک شگون ہے۔ یہ جادو کیسے ہوا؟ اگر تاریخ ایک اشارہ ہے تو دو پڑوسی اپنے معمولی معاملات کو بھی دو طرفہ طور پر حل نہیں کر سکے، اس سے لگتا ہے کہ پسِ پردہ کچھ حوصلہ افزائی‘ سہولت، مددگاری وغیرہ کارفرما ہو گی۔ ٹریک ٹو کی کوششوں کی کچھ غیر مصدقہ اطلاعات ہیں تو سہی‘ کچھ اہم حکام کی خفیہ میٹنگیں، امریکہ اور متحدہ عرب امارات کی حوصلہ افزائی وغیرہ۔ جس نے بھی ان معاملات میں مدد کی، یہ واضح ہے کہ اس کا حتمی کریڈٹ پاکستان اور بھارت کی قیادتوں کو جاتا ہے۔ آگے بڑھنے کے حوالے سے یہ ایک عظیم جست ہے بشرطیکہ کافی کام پہلے کیا جا چکا ہو تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ پٹری سے نہ ہٹ جائے‘ جیسا کہ متعدد بار ہو چکا ہے۔
وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی معید یوسف نے نیشنل سکیورٹی ڈائیلاگ کا اہتمام کرکے وزیر اعظم عمران خان کو ایسے اہم صلح آمیز اقدام کیلئے ایک مناسب پلیٹ فارم مہیا کیا‘ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بعد ازاں جس کی تائید کی۔ دونوں رہنمائوں نے سلامتی کے حقیقی تصور پر روشنی ڈالی جو یہ ہے کہ اس خطے کے عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جائے جبکہ عوامی فلاح و بہبود کی جڑیں معاشی اور معاشرتی ڈومینز میں مضبوطی سے پیوست ہیں۔ ملکی سطح پر الگ تھلگ ترقیاتی منصوبوں کے بجائے علاقائی نقطہ نظر بہتر کام کر سکتا ہے۔ عدم اعتماد اور باہمی تلخیوں کا خاتمہ آگے بڑھنے کے کسی بھی اقدام کیلئے اولین اور اہم ترین شرط ہوگی۔ اس خطے کے لوگ ظالمانہ نقطہ نظر کے یرغمال بن کر نہیں رہ سکتے۔ اب تک تو سب کچھ خوشگوار ہی محسوس ہوتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین بات چیت کے حوالے سے آگے بڑھنے کیلئے کچھ اور ضروری شرائط کا تذکرہ کیا‘ یعنی مقبوضہ کشمیر کے بے بس عوام پر ہونے والے مظالم کا خاتمہ‘ اور مقبوضہ کشمیر کے اگست 2019 سے پہلے والے سٹیٹس کی بحالی۔ چیف آف آرمی سٹاف نے اس میں اس تجویز کا اضافہ کیا ہے کہ 'ماضی کو دفن کریں اور آگے بڑھیں...‘ اور ان کے اس بیان نے کچھ حلقوں کو حیرت میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ ایک مثبت سوچ ہے‘ اگر اس کا مطلب دیرینہ عدم اعتماد، کمزوری کا باعث بننے والے ملٹری سٹینڈ آف اور تلخ سفارتی مخاصمت کو دفن کرنا ہے۔ لیکن خدشات لاحق ہیں کہ یہ سب کشمیریوں کی تکالیف، آبادیاتی تبدیلیوں کے تسلسل، اقلیتوں کے خلاف انتہا پسند ہندوؤں کے رویہ وغیرہ کی قیمت پر ہو سکتا ہے‘ لیکن اگر ان تمام سرگرمیوں کا خاتمہ اس بنیادی کارروائی میں طے پا چکا ہے جو یقینی طور پر پہلے ہی انجام پا چکی ہونی چاہئے‘ تو پھر یہ ایک شاندار کام ہے۔ ہم یہ امید کرتے ہیں کہ مغربی سرحدوں سے وہ تمام بھارتی جارحیت بھی فوری طور پر بند کر دی جائے گی‘ جو ان کی 'این ایس اے‘ کی قیادت میں ہوتی ہے‘ کیونکہ ایک طویل عرصے سے پاکستان نے اس صلاحیت کا حامل ہونے کے باوجود بھارتی سرزمین پر ہونے والے واقعات کے بارے میں استحصالی انداز کو ختم کرنے کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ یہاں تک کہ ہم نے کشمیریوں کی جدوجہد کو کسی بھی قسم کی فزیکل مدد فراہم کرنا بھی ترک کر دیا ہے؛ چنانچہ ہماری جانب سے تو نیک خواہشات اور رعایتوں کا مظاہرہ پہلے ہی کیا جا رہا ہے۔
اور جو چیز دفن نہیں کی جانی چاہئے یا دفن نہیں کی جا سکتی وہ امریکہ اور بھارت کے ساتھ ہمارے جھولتے ہوئے تعلقات کے حوالے سے کچھ تاریخی اسباق ہیں۔ یہ سبق ہمیں یاد ہو چکا ہے کہ پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات مکمل طور پر عبوری نوعیت کے اور لین دین پر مبنی ہوتے ہیں۔ جب ان کے مفادات ہوتے ہیں‘ ہمیں گلے لگا لیتے ہیں اور اپنی مرضی سے استعمال کرتے ہیں۔ ہم آگاہ ہیں کہ انہوں نے بھارت کو طویل المیعاد سٹریٹیجک پارٹنر کے طور پر منتخب کیا ہے اور ایسا کوئی امکان نہیں کہ وہ بھارتی مفادات کے خلاف کوئی قدم اٹھائیں گے۔ چونکہ انہیں افغانستان سے اپنے محفوظ انخلا کیلئے ایک بار پھر ہماری ضرورت ہے؛ چنانچہ فی الحال پاکستان ان کیلئے ایک اہم ملک ہے ۔ کوئی شک نہیں کہ یہ دوستانہ سلوک عارضی ہو گا اور بالآخر بھارتی مفادات کو ہی آگے بڑھایا جائے گا۔
پاکستان کے ساتھ بھارت کا تعلق بے وفائی‘ پیٹھ میں چھرا گھونپنے اور گہرائی تک موجود دشمنی کی داستان ہے۔ یہ حقائق برصغیر کی تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس بار وہ کیوں مختلف سلوک کریں گے؟ امید ہمیشہ منطقی اور عقلی ہونی چاہئے۔ سرحد کے اس پار موجودہ سیاسی و عسکری اقدامات اور دیئے جانے والے بیانات کا مشاہدہ کریں تو مذموم منصوبوں کے پختہ اشارے ملتے ہیں۔ مودی کی قیادت میں قائم بھارتی حکومت کی طرف سے مثبت سمت میں ذہنیت کی تبدیلی انتہائی ناممکن ہے‘ لہٰذا بھارت کے تبدیل ہونے کے بارے میںکسی کی یقین دہانیوں پر انحصار کرنا، ایک بڑی غلطی ہوگی۔
جنوبی ایشیا کے دو بڑے ممالک کے مابین وجہ تنازع تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے‘ جو مسئلہ کشمیر کی شکل میں موجود ہے۔ قائد اعظم نے کشمیر کو بجا طور پر پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ ہم جنگیں کر چکے ہیں اور بہت سارے کشمیریوں اور پاکستانیوں نے اس مقصد کیلئے لڑتے ہوئے شہادت پائی۔ اب سمجھداری اسی میں ہے کہ مزید خونریزی کو روکاجائے اور اس تنازع کا ایک ایسا حل تلاش کیا جائے جو تمام فریقوں کیلئے قابل قبول ہے، جن میں کشمیری سب سے اہم اور متاثرہ وجود ہیں۔ موجودہ پیشرفتوں میں کشمیریوں کو شامل کرنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے؛ چنانچہ سب سے زیادہ متاثرہ پارٹی کو شامل کئے بغیر تلاش کیا گیا مسئلہ کشمیر کو کوئی حل‘ چاہے وہ دوسروں کیلئے کتنا ہی منطقی اور امید افزا کیوں نہ ہو‘ قابلِ قبول نہ ہو گا‘ اور اس کے مسترد کر دیئے جانے کے اندیشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا ہوا تو مستقبل میں اس مسئلے کے حوالے سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں گی۔
چین ہمارا قابل اعتماد، آزمودہ اور لائقِ اعتبار دوست ہے۔ امید ہے کہ خطے میں امن اور اس سے منسلک شرائط پر بات چیت کرتے ہوئے اسے اعتماد میں لیا گیا ہو گا۔ جو کچھ بھی کشمیر اور اس خطے سے متعلق ہے، خاص طور پر جس میں بھارت اور امریکہ شامل ہے، چین کی توجہ کا باعث ہے۔ بعد میں بریفنگ کے ارادے کے ساتھ چین کو ان معاملات سے باہر رکھنا، سیاسی طور پر درست اقدام نہ ہوگا۔ اس طرح کے اہم منصوبوں پر کام کرنے سے پہلے پاک چین مشاورت بے حد ضروری ہے۔
یہ مشاہدات ہو سکتے ہیں کہ اس دلیل کو بہت زیادہ بڑھاوا دیا جا رہا ہے اور پاک بھارت درجہ حرارت کو ٹھنڈا کرنا محض ایک چھوٹا سا اقدام ہے‘ جس میں مذکورہ بالا معاملات کی محدود مطابقت ہو سکتی ہے۔ بدقسمتی سے ہر چیز قریبی طور پر ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے کہ ایک کو تھوڑا تبدیل کرنے سے دوسرے میں ریلیف ملے گا یا دبائو پیدا ہو گا۔ کسی بھی اہم سیاسی یا معاشی منصوبے‘ جس کے بین الاقوامی سرحدی مضمرات ہوں، پر عمل کرنے سے پہلے اس کی کامیابی کے امکانات کا اندازہ لگانے کیلئے سارے تناظر کو سامنے رکھنا ناگزیر ہے۔ ایسا نہیں کہ مضمون میں جو بھی اشارہ دیا گیا ہے اس پر ان تمام لوگوں نے غور نہیں کیا ہوگا جنہوں نے اتنی بڑی مثبت حیرت کا باعث بننے والی سوچ اپنائی ہے، لیکن زیادہ سے زیادہ معلومات کی عدم موجودگی میں، مذکورہ بالا تمام چیزوں کو پیش کرنا مفید سمجھا گیا۔
آئیے عدم اعتماد اور مخاصمت کو دفن کر دیتے ہیں‘ لیکن تاریخ کے اسباق اور کشمیریوں کی قربانیوں کوہرگز نہیں۔