برطانوی اخبارات کا انکشاف

19مئی بعد دوپہر۔ مرکزی لندن‘ کرام ویل روڈ‘ (جہاں 1968ء میں مرحوم بھٹو صاحب پناہ گزین تھے اوروہاں اپنے فلیٹ سے ایک گمنام ( بدستور گمنام) شخص کے ساتھ کتابیںخریدنے جایا کرتے تھے)‘ مقام: اسماعیلی مرکز (اسماعیلی فرقہ کی عبادت گاہ) موجودہ آغا خان (پرنس کریم) کی شہرہ آفاق روایت کے مطابق اسلامی فن تعمیر کا شاندار نمونہ۔ (یہ اعزاز آغا خان کی سرپرستی میںبننے والی کئی اور عمارات کو حاصل ہے مثلا ً ملتان میں شاہ رکن عالم کا مزار)۔ اس دن اور اس وقت اس عمارت میں لندن اور اس کے گردونواح میں رہنے والے وہ تمام لوگ جمع ہوئے جو اُردو کا ادبی ذوق رکھتے ہیں۔ مہمان خصوصی تھے جناب انتظار حسین ۔ صدارت شمالی لندن میں رہنے والے شاعر ساقی فاروقی نے کی جو ن م راشد سے لے کر فیض صاحب تک تما م بڑے بڑے شاعروں کے ہم رکاب اور ہم پیالہ رہ چکے ہیں۔ سا قی فاروقی بڑ ے ادیبوں پر لاٹھی چارج قسم کی تنقید کرنے میں اتنے مشہور ہیں کہ بقول انتظار حسین: اگر اقبال ؔ ان کے دور میں زندہ ہوتے تو وہ انہیں بھی نہ بخشتے اور اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتے۔ اس یادگار تقریب میں ناصر کاظمی کو خراج ِ عقیدت پیش کیا گیا۔ یہ کام انتظار حسین اور باصر کاظمی ( نا صر کاظمی کے فرزند ۔ شمالی برطانیہ میں معلّم۔ دندان سازخاتون کے شوہر ) سے بہتر کون سر انجام دے سکتا تھا۔ ہر سال مئی کے آخر ی ہفتہ میں گزرے سال میں انگریزی میں شائع ہونے والے بہترین ناول کو 60ہزار پائونڈ کے انعام کے ساتھ Booker Prizeکا اعزاز دیا جاتا ہے۔ انتظار حسین کے بے حد اچھے ناول (بستی) کا انگریزی ترجمہ ایک نیک بخت کے ہاتھوں مکمل ہوا اور ولایت (انتظار حسین کا پسندیدہ لفظ) میں پذیرائی ملی ۔ اتنی دھوم تو نہ مچا سکا کہ انعام مل جاتا مگر انعام ملنے یا نہ ملنے کوئی اہمیت نہیں ۔ انتظار حسین کو برطانیہ میں اتنی عزت ملی (اور ان کے توسط سے اہل زبانِ (اُردو) کو اور ان کے پسینہ میں شرابور ہم وطنوں کو)۔ 18مئی کے روز نامہ گارڈین کے ادبی صفحات پر انتظار حسین کی شاندار تصویر چھپی اور ’’بستی‘‘ کے ادبی محا سن گنوائے گئے۔ ہمارے لیے یہ ہفتہ دو اچھی خبریں لایا۔ ہماری ایک بہادر بچی نے مائونٹ ایورسٹ کی بلند و بالا چوٹی کو سر کر لیا اور اپنے بھائی کے ساتھ مل کر اس پر پاکستان کا پرچم لہرایا۔ (پرچم کا لفظ لکھیں تو کانوں میں ناہیداختر کے خوبصورت ترانے کی آواز گونجنے لگتی ہے) دوسری طرف انتظار حسین برطانیہ کے ادبی محاذ کی اس چوٹی تک جا پہنچے جہاں آج تک قرۃ العین حیدر بھی قدم نہ رکھ سکیں۔ ’’آگ کا دریا‘‘ کی مصنفہ نے یہ ناول تو کمال کا لکھا اور بھی کئی اچھے ناول لکھے مگر ان میں انگریزی الفاظ کا اتنا استعمال کرتی ہیں کہ ان کے ناولوں کے چند حصوں کا اردو ترجمہ کرنے کی ضرورت پیش آ جاتی ہے۔ مگر یہ طرزِ تحریر صرف انہیں جچتا تھا۔ نہ کوئی اس کی کامیابی سے ان کی نقل کر سکا اور نہ کرسکتاتھا۔ قارئین کی خوشنودی کی خاطر اس کالم کا آغاز اچھی خبروں سے کیا گیا مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ یورپ کے اخباروں میں ہمارے ملک کے بارے میں کسی بری خبرکو نمایاں طور پر شائع نہ کیا گیا۔ برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی اور یورپ کے ہر ملک (یہاں تک کہ غیر معیاری اور غیر سنجیدہ اطالوی اخبارات) میں تحریک ِانصاف کی رہنما زہرہ آپا کے قتل کے حوالہ سے کراچی میں عرصہ سے بڑے پیمانہ پر ہونے والی خون ریزی کا تفصیل سے ذکر کیا گیا۔ اس قتل نے جناب نواز شریف کے بارے میں شائع ہونے والے تعارفی اور تعر یفی مضامین کی آب وتاب کوبھی دھندلا دیا۔ زہرہ آپا کے اقربا خون کا دعویٰ کس پر کریں؟ بقول فیضؔ ع یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا حکیم محمد سعید کے قتل کے سانحہ سے جو سلسلہ شروع ہوا وہ صلاح الدین احمد‘ جسٹس نظام اور ہزاروں بے گناہوں سے ہوتا ہوا زہرہ آپا کے کراچی ڈیفنس میں ان کے بد نصیب گھر کی دہلیز تک آ پہنچا۔ جوئے خون ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتی۔ کوئی نہیں جانتا کہ آگ اور خون کا یہ سیلاب بلا اب کس کے گھر جائے گا؟ نئی حکومت کے لیے یہ سب سے بڑی آزمائش ہوگی اور سب سے بڑا چیلنج۔ …………………… دل پر چاہے کتنا جبر کرنا پڑے ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے قارئین کو اچھی صحت کے حوالہ سے دوتوجہ طلب خبریں ضرور سنائیں۔ اول‘ بازار میں دستیاب ہونے والی چینی (جس کا روایتی شکر سے دور کا بھی واسطہ نہیں) کے بعد سب سے زیاد ہ مُضر صحت چیز کا نام ہے نمک۔ جس طرح چینی کا زیادہ استعمال ذیابیطس کا ذمہ دار ہے‘ اسی طرح نمک کا زیادہ استعمال بلڈپریشر (فشارِ خون) کا موجب ہے۔ برطانوی طبّی ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ آپ کھانے میں نمک کااستعمال اس حد تک کم کر دیں کہ آپ کا نام (اچھے معنوں میں) ’’نمک حراموں‘‘ میں لکھا جاسکے۔ دوسری بڑی خبر کا تعلق قارئین کی اکثریت کے پسندیدہ کولا مشروب سے ہے۔ یہ مشروب اتنی زیادہ کیلوریوں (حرارے) سے بھرپور ہوتا ہے کہ برطانوی سکولوں میں اس کا استعمال ممنوع کر دیا گیا ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب کولا مشروب ہر ڈبہ اور ہر بوتل پر اس قسم کے خون خشک کر دینے والے الفاظ لازماً شائع کرنے پڑیں گے جو ان دنوں سگریٹ کے پیکٹ پر نظر آتے ہیں۔ امریکہ کی طرح برطانوی سائنس دانوں کی تحقیق سے اب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ کولا مشروبات نہ صرف وزن بڑھاتے ہیں‘ نظام ہاضمہ کو بری طرح متاثر کرتے ہیں بلکہ بے تحاشا موٹاپا کا شکار بنا دیتے ہیں۔ اگر ہمارے قارئین کولا مشروب کی ہر بوتل کے باہر لکھے ہوئے وہ الفاظ غور سے پڑھیں تو اجزائے ترکیبی میں چھوٹے حروف میں لکھے ایک ایسے کیمیائی عنصر کا نام پڑھیں گے جو فینائل کے نام سے جانا جاتا ہے اور گندی نالیوں (Drains) کو صاف کرنے کے کام آتا ہے۔ وہ دن زیادہ دور نہیں جب کولا مشروب میزبان کی طرف سے صرف ان مہمانوں کی خدمت میں پیش کیا جائے گا جو امیر کبیر ہوں اور ان کی (قبل ازوقت) وفات کی صورت میں میز بان کو اپنے مہمان کی جائیداد بطور ورثہ ملنے کی امید ہو۔ …………………… آج بابائے اُرود مولوی عبدالحق مرحوم زندہ ہوتے تو وہ ہمیں تعلیمی فلسفہ کی ایک اہم اصطلاح Cognitiveکا اُردو ترجمہ بتاتے۔ اس لفظ کے معنی ہیں‘ وہ ذہنی عمل جس کا تعلق سیکھنے اور ادراکِ علم کی صلاحیت سے ہے۔ برطانوی اخباروں میں یہ انکشاف پڑھ کر میرے جسم میں خوف کی لہر دوڑ گئی کہ اگر ایک شخص بچپن میں (جوان سطور کے لکھنے والے پر بالکل صادق آتا ہے) حساب کے مضمون میں اتنا کمزور ہو کہ اگر صفر نمبرنہ لے (جومیں ہمیشہ لیتاتھا) تو فیل کم از کم ضرور ہو تاہو ۔ اس دماغی کمزوری کا علاج بجلی کے جھٹکے دینے سے کیا جا سکتا ہے۔ تفصیل یہ ہے۔ (اگر آپ پڑھنے کی ہمت رکھتے ہیں) کہ ننھی منی برقی لہریں انسانی دماغ سے گزاری جائیں تاکہ وہ دماغ کے نازک ترین حصوں کو اتنا سر سبز و شاداب کردیں کہ وہاں حساب‘ الجبرا اور جیومیٹری کے پھول کھلنے لگیں۔ بڑھاپے کے لاکھ عذاب سہی مگر ایک فائدہ یہ ہوا کہ میں مذکورہ بالاعلاج کرانے والوں کے زمرہ سے محفوظ فاصلہ پر پہنچ گیا ہوں۔ ……………………

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں