آئیے ایک نیا معاہدہ عمرانی لکھیں …(2)

آج کا کالم وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں پچھلا کالم ختم ہوا تھا۔ کاش کہ ہم نظامِ کہن (Status Quo) سے جلد از جلد نجات حاصل کریں۔ کاش کہ ہم چہرے بدلنے (اگرچہ ضیا الحق کے بعد سے چہرے بھی وہی ہیں) کے بجائے نظام بدلنے پر توجہ دیں۔ کرپشن اور نالائقی (جو سمندروں سے گہری اور پہاڑوں سے اونچی ہے) اپنی جگہ مگر اصل خرابی ہمارے نظام میں ہے جو ہر قسم کی بدعنوانی اور نالائقی‘ قانون کی خلاف ورزی اور آئین کی پامالی‘ میرٹ اور احتساب کی مکمل نفی‘ شفافیت اور جواب دہی کے زریں اصولوں (جو مغربی ممالک کے سیاسی نظام کی کامیابی کے ضامن ہیں) کے پرخچے اڑانے کی شرمناک روایات کو جنم دیتا‘ ان کی پرورش کرتا اور پروان چڑھاتا ہے۔ کاش کہ ہم اپنے مذہب کو اپنا ہتھیار بنائیں یعنی مذہب کو صرف عبادات تک محدود کر دینے کے بجائے اسے اپنی سماجی اقدار کا محافظ اور مرتب کرنے والا بنائیں۔ کاش کہ ہم مسجد کو محض عبادت گاہ کے بجائے سماجی خدمت اور اصلاح کا مرکز و محور بنائیں۔ کاش کہ ہم شاہ ولی اللہ‘ جما ل الدین افغانی اور علامہ اقبال کے افکار کو نہ صرف غور سے پڑھیں بلکہ ان کی روشنی میں اپنے ذہنی روّیوں کی ترتیبِ نو کریں۔ تقلید (جسے اقبال نے خودکشی سے بھی بدتر کہا) کے بجائے اجتہاد (جو بہت مشکل مگر روح افزا ہے) کی تخلیقی روش پر چلیں۔
مائوزے تنگ ایک اچھا جرنیل اور سیاستدان ہونے کے ساتھ بلند پایہ فلسفی بھی تھا۔ اُس نے بہت سے عالمانہ مقالے لکھے مگر میرے خیال میں سب سے زیادہ فکر انگیز اور ذہنوں کو روشن کرنے والی تحریر وہ تھی جس کا عنوان ہے:On Contradictions۔ اگر آپ نے یہ پہلے نہیں پڑھی تو اب پڑھ لیں۔ مائوزے تنگ نے طبقاتی جنگ کی وجہ سماج میں محنت اور سرمائے کے درمیان تضاد بتائی ہے۔ جب تک محنت کرنے والے کو سرمایہ لگانے والے پر بالادستی حاصل نہیں ہوتی‘ طبقاتی جنگ جاری رہے گی۔ یہ تو تھا اشتراکی نظریے کا بیانیہ۔ اب آپ دورِ جدید کے جمہوری نظام کی ساخت پر غور کریں۔ جب تک سلطانیٔ جمہور کا ا صول پوری طرح قبول اور نافذ نہیں کیا گیا‘ معاشرے میں نہ امن و سلامتی تھی اور نہ ہی سماجی انصاف۔ وہ تمام قوتیں (پہلے جاگیردار اور پھر سرمایہ دار) جو عوام کو‘ محنت کشوں کو‘ کسانوں مزدوروں کو‘ اساتذہ اور پیشہ ور لوگوں کو یہ حق نہیں دیتی تھیں کہ وہ اپنے نمائندوں (جو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات میں چنے گئے ہوں) کو حکومت چلانے‘ اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے اور قانون سازی کا فرض سونپیں‘ انقلابِ فرانس کی طرح خونیں انقلاب یا خاموشی سے پُرسکون اور پُرامن ارتقائی عمل‘ دونوں میں سے کسی ایک یا فرانس کی طرح دونوں‘ کے ذریعے وہ تمام قوتیں‘ وہ سیاسی اور سماجی نظام اس طرح بدلا کہ کوئی منفی قوت اور کوئی تضاد باقی نہ رہا۔ میں ایک مثال دے کر اپنا مؤقف واضح کروں گا۔ قیامِ پاکستان سے پہلے ہندوئوں کے طبقاتی مفادات (دکاندار‘ کاروباری اور متوسط طبقہ اور مقابلتاً تعلیم یافتہ) اور مسلمانوں کے طبقاتی مفادات (زیادہ تر زراعت پیشہ‘ نچلا متوسط طبقہ اور مقابلتاً کم تعلیم یافتہ) کے درمیان ٹکرائو اتنا شدید تھا کہ ہندوستان دو ملکوں میں تقسیم ہو گیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان کے عوام (مقابلتاً زیادہ تعلیم یافتہ‘ زیادہ باشعور‘ جاگیرداری سے پاک) کے مفادات اور مغربی پاکستان کے مجموعی مفادات (طاقتور جاگیردار‘ بالادست‘ مقابلتاً زیادہ خوشحال مگر کم تعلیم یافتہ لیکن سول سروس میں غالب) کے درمیان اتنا بڑا تضاد تھا کہ وہ قومی تشخص‘ 1947ء میں جو قیامِ پاکستان کا موجب بنا تھا‘ وہ 1971ء میں ملک کے دو حصوں کو یکجا رکھنے میں ناکام رہا۔ یہ مقامِ عبرت ہے کہ نہیں؟
پاکستان بنانے والی مسلم لیگ قائداعظم کے ساتھ ہی ستمبر 1948ء میں وفات پا گئی تھی۔ پنجاب اور مشرقی پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں اس کی بدترین شکست نے اس کی وفات پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ۔ مغربی پاکستان میں ریپبلکن پارٹی اور مشرقی پاکستان میں پہلے جگتو فرنٹ اور پھر عوامی لیگ نے اس کی جگہ لے لی۔ تبدیلی کا عمل یہاں نہیں رکا۔ پنجاب میں مسلم لیگ کی جگہ ریپبلکن پارٹی اور اُس کی جگہ پیپلز پارٹی نے اور پھر مسلم لیگ (ن‘ ق) نے اور پھر تحریک انصاف نے لے لی۔ یہ اُبھرتے ہوئے نئے طبقے کی ترجمان تھیں۔ ایم کیو ایم (کراچی اور حیدر آباد میں رہنے اور اُردو بولنے والے مہاجرین‘ جن کا تعلق نچلے اور متوسط طبقہ سے تھا) کو بھی ان سیاسی کرداروں میں جمع کر لیں۔ تاریخ کی ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے کہ جو جماعت ایک وقت سب سے آگے‘ ہراول دستے میں ہوتی ہے‘ وہ آگے چل کر سب سے پیچھے چلی جاتی ہے اور (قائداعظم کی حقیقی مسلم لیگ کی طرح) سیاسی نقشے ہی سے مٹ جاتی ہے۔ یہ حشر صرف مسلم لیگ کا نہیں ہوا بلکہ ایک طرف مولانا بھاشانی اور دوسری طرف ولی خان کی عوامی نیشنل پارٹی کا بھی ہوا۔ نام بھی ایک اور انجام بھی ایک۔
فیض صاحب نے جس داغ داغ اُجالے اور شب گزیدہ سحر کا نوحہ لکھا تھا‘ اُس کی ایک بے حد آسانی سے سمجھ میں آجانے والی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں (خصوصاً مغربی پاکستان میں) سیاسی شعور بہت کم تھا۔ مزاحمتی سیاست کی روایت کمزور تھی۔ جاگیرداروں (جن کی تعداد خاصی زیادہ تھی) کو بے پناہ سیاسی اثر و رسوخ حاصل تھا۔ اعلیٰ سرکاری افسروں اور ریاستی اداروں میں مغربی پاکستان کی عددی برتری تھی اور یہ سب سے زیادہ فیصلہ کن عنصر تھا۔ ملک کے دو حصوں میں یہی تضاد ہمیں لے ڈوبا۔ اگر ہمارا حکمران طبقہ مشرقی پاکستان کے عوام کا چھ نکات کی صورت میں مکمل صوبائی خودمختاری کا مطالبہ خوش دلی سے مان لیتا تو شاید آج تاریخ مختلف اور قائداعظم کا پاکستان درخشندہ ہوتا۔ صد افسوس کہ ہم نے کوئی سبق نہ سیکھا۔ تاریخ کا قاضی (بقول اقبال) ازل سے فتویٰ دیتا آرہا ہے۔ شیخ مجیب الرحمن کے قتل کو ایک عرصہ گزر چکا ہے مگر فیصل آباد کی جیل اُسی جگہ ہے جہاں وہ پہلے تھی۔ اب اس کے قیدیوں میں شیخ مجیب الرحمن شامل نہیں‘ اب اُس کی مسند کس نے سنبھالی ہے؟ اگر ہم نے زندہ رہنا ہے تو ہمیں اگرتلہ سازش کیس‘ حیدر آباد سازش کیس اور راولپنڈی سازش کیس جیسی فاش اور مہلک غلطیاں کرنے سے سخت اجتناب کرنا ہو گا۔ بقول اقبال سخت ہیں فطرت کی تعزیریں۔ اب قوم میں مزید صدمے اُٹھانے کی نہ ہمت ہے اور نہ سکت۔ براہِ مہربانی اس کی حالتِ زار پر رحم فرمائیں۔ ہماری خارجہ پالیسی میں بھی بہت بڑا تضاد ہے اور وہ ہے ہمارے قومی مفادات اور امریکہ سے تعلقات کے درمیان تضاد۔ ہمارا موجودہ آئینی بندوبست درپیش مسائل کے حل میں ناکام ہو چکا۔ آئیے ہم دیانتداری سے نیا معاہدۂ عمرانی لکھیں۔ عوام اور حکمران طبقے کے درمیان بقائے باہمی کا نیا معاہدہ! ہم مساجد اور اپنی عبادتگاہوں میں جا کر حلف اُٹھائیں کہ ہم اس نئے معاہدے کا احترام کریں گے۔ ضمانت اور وہ بھی Cast Iron۔
میں بانی پی ٹی آئی کا سابق اُستاد ہونے کے ساتھ سب سے بڑا نقاد بھی ہوں۔ اُن کی فاش غلطیاں بزدار سے شروع ہو کر 190 ملین پائونڈ سکینڈل تک جاتی ہیں مگر پی ٹی آئی کو مسلسل زیر عتاب رکھنے سے سیاسی بحران حل نہ ہو گا۔ نئی حکومت کا سب سے بڑا امتحان یہ ہو گا کہ وہ سیاسی رزم آرائی کو سیاسی مفاہمت میں تبدیل کرے۔ ایک خوفناک معاشی بحران ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ کیا نئی حکومت خطرے کی گھنٹی سن نہیں رہی؟ جہاز ڈوب رہا ہے اور ہمارے سیاسی لیڈر‘ ہماری آنکھوں کے سامنے عرشۂ جہاز پر بچھائی گئی کرسیوں کی ترتیب پر دست و گریباں ہیں۔ مجھے تو اپنی بوڑھی آنکھوں پر اعتبار نہیں آتا‘ کیا آپ کو آتا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں