سی آئی اے کی سازش بے نقاب -تین منفرد افراد کی موت

ممکن ہے کہ آپ نے یہ خبر پڑھ لی ہولیکن اسے دوبارہ پڑھنا بھی سبق آموز ہوگا۔ 20 اگست کو امریکہ کے رُسوائے زمانہ جاسوسی ادارہ سی آئی اے نے پہلی بار تسلیم کیا کہ 1953 ء میں ایران کی جمہوری اورمنتخب حکومت کے وزیراعظم کا تختہ اُلٹنا اس کا کارنامہ تھا۔ جو دستاویزات منظر عام پر آئی ہیں اُن سے پتہ چلتا ہے کہ نہ صرف برطانوی حکومت اس شرمناک سازش کا حصہ تھی بلکہ اُس نے پوری کوشش کی کہ اس ’’کارخیر‘‘ میں اس کا کردار بدستور پردۂ راز میں رہے۔ محمد مصدق کا وہی حشر ہوا جو ساٹھ برس بعد مصر میں صدرمرسی کا۔ مصدق کا جرم یہ تھا کہ اُس نے تیل کی صنعت کو ،جس پر انگریزوں کا قبضہ تھا، قومی ملکیت میں لے لیا۔ ان کے وزیر خارجہ فاطمی کو جھوٹا الزام لگا کر پھانسی دی گئی۔ جب طلبااحتجاجی مظاہروں کا ہر اول دستہ بن کر تہران کی سڑکوں پر نکلے تو اُن پر گولیوں کی بارش کی گئی۔ فیض صاحب نے دست صبا میں ایرانی طلبا کے نام جو نظم لکھی وہ مرثیہ نہیں بلکہ رجز ہے۔ فیض صاحب کی نظم کا عنوان تھا:…’’ایرانی طلبہ کے نام… جو امن اور آزادی کی جدوجہد میں کام آئے۔‘‘ پوری نظم شاعرانہ فصاحت وبلاغت کی معراج ہے۔ آپ اس کا پہلا حصہ یہاں پڑھ لیں۔ وہ آپ کے قلب کو گرمائے اور رُوح کو تڑپائے گا، اور شاید آپ کے بجھے ہوئے دل میں وہ زندہ تمنا پیدا کر دے جس کی اقبال نے دُعا مانگی تھی: یہ کون ہیں جن کے لہو کی اشرفیاں چھن چھن، چھن چھن دھرتی کے پیہم پیاسے کشکول میں ڈھلتی جاتی ہیں کشکول کو بھرتی ہیں یہ کون جواں ہیں ارضِ عجم یہ لکھ لٹ جن کے جسموں کی بھرپور جوانی کا کندن یوں خاک میں ریزہ ریزہ ہے یوں کوچہ کوچہ بکھرا ہے اے ارضِ عجم! اے ارضِ عجم! ساٹھ سال پہلے کا ارضِ عجم (ایران) ہو یا آج کا پاکستان، امریکہ اور برطانیہ کے خفیہ جاسوسی ادارے اپنے کارندوں کے ذریعے خون کے دریا بہانے،بدامنی پھیلانے، نظم و نسق کو تباہ وبرباد کرنے اور ان مُلکوں کو غیر مستحکم کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ ایران میںسی آئی اے کی مذکورہ سازش کا کوڈ تھاTPAJAX جبکہ برطانوی جاسوسی ادارہ ایم آئی6- نے آپریشن بوُٹ کا کوڈ استعمال کیا۔ یہ سازش ساٹھ سال بعد بے نقاب ہوئی۔ مصر، پاکستان اور دُوسرے اسلامی ممالک میں ان کی کارستانیوں کا پتہ بھی چل جائے گا مگرشایدساٹھ سال بعد۔ گزشتہ ہفتے کئی یورپی ممالک کے اخباروں میں تین افراد کی وفات پر تعزیتی مضامین شائع ہوئے۔ ایک بے حد امیر خاتون تھی، دُوسرا ایک مشہور اور متنازعہ وکیل اور تیسرا ایک مرد دِرویش۔ آغاز امیر خاتون سے کرتے ہیں۔ نام Meera تھا، عمر صرف 69 سال۔ ساحل سمندر پر غسل آفتابی کر رہی تھی کہ دماغ کی شریان پھٹ جانے سے ساڑھے تین سوملین پائونڈ کی مالکہ خالق حقیقی کے پاس چلی گئی۔ پندرہ برس پہلے اُنہوں نے اپنے جس شوہر اور کاروبار میں حصہ دار سے طلاق لی تھی وہ دُنیا کا چوتھا امیر ترین شخص سمجھا جاتا تھا۔ Meera نے گیارہ سال کی عمر میں سکول جانا چھوڑ دیا چونکہ اُس کے غریب والدین سکول کی فیس ادا نہ کر سکتے تھے۔ اگلے گیارہ برس بطور معمولی درزن کپڑے سینے اور رُفو کرنے میں گزارنے کے بعد اُن کی شادی ہوئی تو میاں بیوی نے کپڑے فروخت کرنے کے لئے Zara کا نام چنا۔ اب اس کمپنی کی دُنیا بھر میں 1700 دُکانیں ہیں۔ قدرت نے اس خوش نصیب جوڑے کودولت چھپڑ پھاڑ کر دی۔ کامیابی کا نسخہ یہ تھا کہ ڈیزائن کئے گئے مہنگے لباس کی سستی نقل کر کے مناسب قیمت پر فروخت کیا جائے۔ بھلا ہو میری بیوی کا کہ روایتی کفایت شعاری نے اُنہیں پینتالیس برسوں میں ایک بار بھی Zaraلیبل کا لباس نہ خریدنے دیا۔ اب آئیے وکیل صاحب کی طرف۔ چونکہ فرانسیسی تھے اس لئے نام تھا Jacqves Verges جو لکھا تو جا سکتا ہے، بآسانی بولا نہیں جا سکتا۔ 88 سال عمر پائی۔ ماں تھائی لینڈ کی رہنے والی اور با پ فرنچ تھا۔ دُنیا کے جنگی مجرموں مثلاًنازی کلوس باربی، اور سربیا کے سلازووچ سے لے کر صدام حسین تک کی وکالت کی اور افسانوی شہرت پائی۔ جرمنی کے مشہور دہشت گرد گروپ ریڈ آرمی کی Magdalena،جو پیرس میں دھماکہ خیز مواد کے ساتھ پکڑی گئی،کی وکالت کرتے کرتے اس خاتون کی محبت میں گرفتار ہو گئے مگر محبت کا یہ رشتہ انہیں ونیزویلا کے Ramirez Sanchez جو Carlos The Jackal کے نام سے مشہور ہو اور ایک زمانہ میں دُنیا بھر میں ہر دہشت گرد تنظیم کا رُوح رواں تھا، کی وکالت کے راستہ میں رُکاوٹ نہ بن سکا۔ حالانکہ موصوف اُن کی محبوبہ کے پہلے سکہ بند عاشق رہ چکے تھے۔ ایک بار اُن سے اخباری نمائندوں نے پوچھا کہ کیا وہ ہٹلر کا دفاعی وکیل بن جانے پر تیار ہو جاتے؟ جواب ملا:’’ میں جارج بش کا وکیل بھی بن سکتا ہوں مگر شرط یہ ہے کہ وہ اپنے جرائم کا اعتراف کر لے۔‘‘ الجزائر کے حریت پسندوں اور فرانس کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والوں کی وکالت میں اس حد تک گئے کہ پیرس میں وکالت سے معطل کر دیے گئے۔ نوبت الجزائر کی مشہور ترین مجاہد خاتون جمیلہ کی محبت میں گرفتار ہونے تک پہنچی۔ جمیلہ کو اُنہوں نے سزائے موت سے بچا لیا۔1963 ء میں جمیلہ کو قید سے رہائی ملی تو وہ ان کی دوسری بیوی بن گئیں۔ اس رشتہ ازدواج نے جو زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا، انہیں الجزائر کی شہریت دلوائی اور وہ اپنے نئے ملک کی وزارت خارجہ کے اہم مقام تک پہنچے۔ 1970 ء آیا تو وہ غائب ہو گئے۔ آٹھ برس بعد پیرس میں نمودار ہوئے اور جہاں پریکٹس ختم کی تھی وہاں سے دوبارہ شرو ع کردی۔ فرانس کے خفیہ ادارے اُنہیں جان سے مارنے کی کوشش کرتے رہے تاہم ان کی وفات حرکت قلب بند ہونے سے ہوئی۔ آخر میں مرد درویش ۔اُس کا نام تھا نکولائی ۔رومانیہ کے رہنے والے تھے ، ساری عمر اپنے قبیلہ کے خانہ بدوشوں کی خدمت کرتے اور اُن کے حقوق کی حفاظت کرتے گذری۔ان کا پورا مال ومتاع ایک لیپ ٹاپ تھا جو ہمہ وقت ان کی کمرپر لٹکارہتا ۔ اس کے علاوہ ایک دو فائلیں اور تین قمیضیں۔ نہ گھر نہ گھاٹ۔ مستقل پتہ کی قید سے محروم رہے، پوری عمر رُومانیہ کے طول و عرض کے سفر کرتے گزار دی جہاں اُن کے قبیلہ کے خانہ بدوش بکھرے ہوئے تھے۔ زندگی کے آخری چار برسوں میں کینسر کا موذی مرض بھی اُنہیں یہ طرز زندگی بدلنے پر مجبور نہ کر سکا۔ وہ گرجا گھروں کے دروازوں پر کھڑے ہو کر خیرات مانگ کر گزارہ کرتے تھے۔ ہیمنگو ے (Hemingway)سے لے کر عصر حاضر کے بڑے فلاسفرلیوی سٹراس کی کتابیں زیر مطالعہ رہتیں۔ انگریزی، فرانسیسی اور رُوسی زبانیں بول سکتے تھے۔ رُومانیہ پر سوویت یونین کا قبضہ اور سخت گیر اشتراکی نظام بھی اُن کی آزاد اور تمام پابندیوں سے بالا تر زندگی کو متاثر نہ کر سکا۔ ساری عمر سڑکیں ناپتے، صحرانوردی کرتے، در در کی خاک چھانتے گزری۔آج یہاں، کل وہاں۔وفات پائی تو یورپ کے ہر بڑے اخبار نے تعزیت میں تعریفی اور تعارفی مضامین لکھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں