برصغیر میں مصوری کی روایت اور یوگا

آپ نے پچھلے کالم میں لندن کے برٹش میوزیم میں ہزار سال پہلے مغربی دُنیا کو تاخت و تاراج کرنے والے بحری قزاق قبیلے کے بارے میں ہونے والی ایک بے حد معلوماتی اور دلچسپ نمائش کے بارے میں پڑھا ہوگا۔ یہ پڑھ کر آپ کو نادر شاہ اوراحمد شاہ ابدالی ضرور یاد آئے ہوں گے جنہوں نے مغلیہ سلطنت کے زوال سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے پنجاب (خصوصاً لاہور) اورہندوستان کے دارالحکومت دہلی پر بار بار حملے کیے۔اگر ہندوستان ان کی آمد اور اُس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی اور قتل عام سے محفوظ رہتا تو زیادہ امکان یہ تھا کہ صوفیائے کرام کی تعلیمات کے فیض سے پنجاب کی زیادہ آبادی اسلام قبول کر لیتی۔ حماقت کی حد ہوگی اگر یہ باورکرلیا جائے کہ پنجاب میں اسلام ان حملہ آوروں کی مار دھاڑ سے پھیلا۔ صداقت یہ ہوگی کہ یہ مان لیا جائے کہ یہ معجزے سے کم نہیں کہ ان پے در پے حملوں کے باوجود پنجاب میں آبادی کی اکثریت نے اپنا قدیم مذہب (ہندو مت) چھوڑکر اسلام قبول کر لیا۔جب میں 1974-75ء میں افغانستان سے اپنی گاڑی چلاتے گزرا تو میں نے غزنی سے ہٹ کر مضافات میں کئی میل مزید سفرکیا تاکہ ہندوستان پرسترہ حملے کرنے والے محمودغزنوی کے مزار پرحاضری دینے کے صدمے سے اپنے آپ کو بچا سکوں۔ یہ ہیں افغانوں کے تاریخی گناہ جن کی اُنہیںآج تک سزا مل رہی ہے۔افغان قبائل صدیوں تک اپنے پڑوسیوں پرصرف اس لیے حملہ آور ہوتے رہے کہ وہ بڑے خوشحال تھے اور فوجی اعتبار سے طاقت ور۔ اب تاریخ کا پہیہ چلتے چلتے اُنہیں اس جگہ لے آیا ہے جہاں وہ جغرافیائی اورسیاسی اعتبار سے بہت اہم سمجھے جاتے ہیں مگر وہ رُوس اورامریکہ کے مقابلے میں کمزور ہیں۔اب وہ جرم ضعیفی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ 
1600ء کے لگ بھگ مغل آرٹ میں ایک ڈرامائی تبدیلی آئی۔ سترہویں صدی کے شروع میں مغل سلطنت دُنیا میں سب سے طاقتور تھی اوررعایا کی آبادی دس کروڑسے زائد تھی۔ اُس زمانے میں اُس کی واحد قابل ذکرحریف سلطنت عثمانیہ تھی جس کی آبادی مغل سلطنت کاصرف بیس فیصد تھی۔ مغل دورکی جو تصویرکشی کی جاتی تھی اُس کا موضوع حکمران کی شان و شوکت کو اُجاگرکرنا ہوتا تھا۔ بابر اوراکبر کی سوانح عمریوں کو نہایت عمدہ تصویروں سے مزین اور مرصع کیا جاتا تھا۔ مغل سلطنت کا سورج نصف النہار پر تھا کہ بادشاہوں کی سر پرستی میں بنائی جانے والی تصویروں کا رُخ ایک نوجوان ہندو مصورگوروھن (جو شاہی دربار میں پرورش پانے کے باوصف خانہ زادکہلاتا تھا) نے بدل دیا۔اُس نے بادشاہوں کے شکار، جنگوں کے مناظر، شاہی لشکروں کی پیش قدمی اور شاہی درباروں کی تصویریں بنانے کے بجائے اُن سادھوئوں کی تصویریں بنائیں جو رُوحانی خوشی اور داخلی سکون کی خاطر یوگا کی مشق کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ واشنگٹن کی Freer and Sackler Galleries میں ان تصویروں کی نمائش کی جا رہی ہے۔ بعدمیں ان تصویروں کی امریکہ کے دُوسرے بڑے شہروں میں بھی نمائش کی جائے گی۔ لگتا ہے کہ عہد سازگوروھن اُن تصاویر سے متاثر ہوا جو ان دنوں عیسائی مبلغوں کے ذریعے ہندوستان پہنچیںاوراُن میںانجیل مقدس کے واقعات کی کمال ہنرمندی سے تصویرکشی کی گئی تھی۔گوروھن نے جھونپڑیوں کے باہر بیٹھے ہوئے سادھوئوں کی تصویریں اس اعلیٰ معیارکی بنائیں کہ دیکھنے والا عش عش کر اُٹھتا ہے۔ ناک نقشہ ،چہرے کے تاثرات اور یوگا کے آسن سمیت تصویر کاہر پہلو تصویر کشی کے فن کی معراج تک پہنچتا ہے۔
آیئے ہم پیچھے مڑکر دیکھیں کہ سترہویں صدی کے شروع میں ہندوستان کا سیاسی منظر نامہ کیا تھا؟جن دنوں اکبرکی ساری توجہ جنوبی ہندوستان میں احمد نگرکی اسلامی ریاست کو فتح کرنے پر مرکوز تھی ، اُس کے ولی عہد شہزادہ سلیم نے اپنے باپ کے خلاف بغاوت کر دی۔ شہزادہ سلیم کی یہ کوشش تھی کہ وہ شمالی ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کرے ، تاج پہنے اورتخت پر بیٹھے۔ شہزادہ سلیم کی بغاوت1600ء کے شروع سے لے کر نومبر1604ء تک جاری رہی۔ انہی دنوں گوروھن کی تصویرکشی کے نئے موضوع یعنی سادھو اور اُن کے یوگا نے جنم لیا۔ شہزادہ سلیم نے پریاگ (موجودہ الٰہ آباد،نہرو گھرانے کی جنم بھومی)کو اپنا دارالحکومت بنایا۔ہندواس شہرکو اس لیے مقدس (سنسکرت میں پوتر) سمجھتے ہیں کہ یہاں اُن کے دومتبرک دریائوںگنگا اورجمنا کا سنگم ہے۔ سترہویں صدی کے شروع میں یہاں سادھوئوں کا پہلا بڑا اجتماع ہواجو ہر پانچ سال کے بعدہوتاہے اوراب ہر بارہ سال کے بعد کمبھ (Kumbh) میلہ کی صورت میں بہت بڑے پیمانے پر منعقد ہوتا ہے۔ راتوں رات ایک چھوٹے سے شہرکی آبادی لندن اور نیویارک سے تجاوزکر جاتی ہے۔ ہر فرقے اورمسلک کاسادھواس میلے پراپنے تفرقات بھلا کر، کپڑے اُتارکر اور بدن پر راکھ مل کر بہتے دریا میں نہانا اورغوطے لگانا شروع کر دیتا ہے۔کتنا اچھا ہوتاکہ جب ہم نے ہندومت چھوڑکر اسلام قبول کیا توہم نے ہندودھرم کی فرقہ پرستی کی گٹھڑی اپنے سر پر نہ اُٹھائی ہوتی۔اب تو اس گٹھٹری کا بوجھ بڑھتے بڑھتے اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ ہم سے چلا نہیں جاتا۔ ترکی، شمالی افریقہ اور عرب دُنیا کی اکثریت آج بھی فرقہ پرستی کی لعنت سے بچی ہوئی ہے جو بہت بڑی نعمت خداوندی ہے۔
شہزادہ سلیم کا ذہنی رُجحان روایتی اور رواجی مذاہب کی طرف نہ تھا۔ بارہویں صدی میں ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت کے آغاز سے پہلے ہی ہندو رہبانیت اور مسلمانوں کے باہمی ارتباط سے صوفی مسلک کی کونپل پھوٹ چکی تھی۔ وسط ایشیاء سے ہندوستان کی سیاحت پر آنے والے عظیم مفکراوردانشور البیرونی (متوفی 1048ء) ہندو مسلم مفاہمت کے علمبردار تھے۔ اُنہوں نے ہندوئوں کی کئی مذہبی کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کیا۔ البیرونی کے دوسال بعد اجمیر شریف کے خواجہ معین الدین چشتیؒؒ نے انسائیکلو پیڈیا جتنی بڑی کتاب یوگا کے موضوع پر لکھی۔ اُن کا موقف یہ تھا کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے تصوف میں تصادم کی بجائے ہم آہنگی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سولہویں صدی میں ہندوستان کے حکمران بھی اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ یوگاکی مشق کرنے والے کو روحانی قوت بھی حاصل ہوتی ہے۔اکبر نے یوگاکو شاہی سرپرستی سے نوازا۔اکبرکے سوانح نگار ابوالفضل نے بھی یوگا کی مشق کرنے والوں کے جسمانی کمالات کا ذکرکیا ہے۔ 1550ء یا اس کے لگ بھگ محمدگوالیاری نے بحرالحیات کے نام سے کتاب لکھی۔ وہ ایک بڑے صوفی شیخ تھے اور اکبر کے مقربین میں شامل تھے۔ اُنہوں نے اپنے مریدوں پر زور دیاکہ وہ یوگا میں مہارت حاصل کریں۔اُنہوں نے یوگاکے 22 آسنوں کی وضاحت کی جو جسمانی مشقت کرنے والے کو دُنیاومافیہاسے بے خبرکرکے استغراق کی کیفیت حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔گوروھن کی تصاویر تہذیبی منظر نامے کی اس تبدیلی کی عکاسی کرتی ہیں۔ سترہویں صدی میں پریاگ کے مقام پر نہ صرف دو دریائوں کا ملاپ ہوا بلکہ دو مذاہب کی صوفیانہ روایات کا بھی۔ یوگا کی تاریخی جڑیں تین ہزار سال پرانی ہیں۔ سنسکرت زبان میں یوگا کا معنی ملاپ ہے جس کی کڑی لسانی اعتبار سے انگریزی کے لفظ Yoke سے جا ملتی ہے۔1931ء میں سرجان مارشل نے موئن جو دڑوکی کھدائی کی تو اُنہیں بھی ڈھائی ہزار قبل مسیح کابنایا ہوا ایک ایسا نقش ملا جس میں آلتی پالتی مارکر بیٹھے ہوئے عبادت گزار سادھوکودکھایاگیا ہے۔
باورکیا جاتا تھا کہ یوگا کرنے والے میں مافوق الفطرت خصوصیات پیدا ہوجاتی ہیں اور یوگا کی معراج یہ ہے کہ آدمی موت پر قابو پالے۔1803ء میں ناتھ نامی جوگیوں کی سماجی قوت بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ گئی کہ اُنہوں نے جودھپورکی صحرائی سلطنت کے سربراہ راجہ مان سنگھ کواپنا مریدبنالیا اورجودھپورکے سیاہ وسفیدکے مالک بن گئے۔2005ء میں یونیورسٹی آرٹ کیلی فورنیا کے پروفیسر ڈیوڈ گارڈن وائٹ نے جوگیوںکے ایک دُوسرے رُخ پرکتاب لکھی جوہمیں بتاتی ہے کہ ان کا ایک طبقہ بدترین تشدد اور یہاں تک کہ آدم خوری کو عبادت کا حصہ سمجھتا ہے اورسفلی علم کے حصول میں سرگرداں رہتا ہے۔مغلیہ سلطنت کے زوال اور برٹش راج کے قیام کے درمیانی اور بحرانی وقفہ میں شرمناک حرکات اور قاتلانہ حملے کرنے والے جوگی خوب پھلے پھولے۔
آج کل یورپ میں یوگا بہت مقبول ہے۔ جن مسلمانوں کو ایک سجدہ بہت گراں گزرتا ہے وہ یوگا میں روحانی سکون تلاش کرتے ہیں۔ پچاس سال پہلے ہالی وڈکی مشہور اداکارہ مارلن منرو نے بتایا کہ اس کی جسمانی کشش کا راز یوگا کی ورزشوں میں مضمر ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ میں دوکروڑ لوگ یوگاکے طلسم میںگرفتارہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں