پنجاب کا ایک قابل فخر سپوت

گرمیوں کے دن تھے، تپتی دوپہروں کو لُو چلتی تھی کہ سیالکوٹ کے نواح میں مقیم ایک چودھری کے گھر میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا، ایک موٹے تازے بچے کی پیدائش کی صورت میں۔ سیالکوٹ کی ایک غیرمعروف تحصیل سمبڑیال کے ایک گمنام اور گرد آلود گائوں میں پیدا ہونے والا بچہ والدین کا دوسرا بیٹا تھا۔ بچے کی خوشی میں والدہ کو مبارک سلامت کہنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ بے شمار لڈو( جو مزیدار تو یقینا تھے مگر حفظان صحت کے عالمی معیار پر غالباً پورا نہ اُترتے تھے) برادری کے علاوہ گائوں بھر میں تقسیم کئے گئے ۔ انہیں ذوق و شوق سے کھائے جانے کا کام جاری تھا کہ نوزائیدہ کا نام محمد اسلم رکھا گیا اور اُس کے ننھے منے کان میں اذان دی گئی۔ اذان بھی اتنی کمال اور اتنی غیر معمولی کہ جب یہ بچہ بڑا ہوا تو اُس نے ثابت کر دیا کہ اُسے (بقول اقبال ؒ) حکم اذاں دیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں پیدائش پر ہر بچے کے کان میں اذان دی جاتی ہے مگر بچوں کی عیاری اور دُنیا داری ملاحظہ ہو کہ وہ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اُڑا دینے کی محفوظ اور مصلحت آمیز روش اپنا لیتے ہیں۔ آپ نے رواج کے مطابق اذاں دے دی ، اُنہوں نے رواج کے مطابق سن لی کہ یہی موقع اور دستور کا تقاضا ہوتا ہے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ مذکورہ بالا بچہ مختلف ثابت ہوا۔ اُس نے اذان سنی اور پلے باندھ لی ، اسے اپنا زاد راہ ہی نہیں مشعل راہ بھی بنایا۔ اس کی ساری زندگی کو صرف دو الفاظ میں بیان کیا جائے تو وہ سمٹ کر ''حکم اذاں‘‘ بن کر دکھائی اور سنائی دیتی ہے۔ محمد اسلم نے ابتدائی تعلیم سرکار کے سکولوں میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی میں حاصل کی۔ ایم۔ ایس سی (آنرز) کی سند ملی تو محمد اسلم نے فوجی افسر بننے کی ٹھان لی ، پنجاب کے جنگجو جاٹ گھرانوں کی روایت کے مطابق۔ غالب کی طرح سو پشت سے پیشہ سپہ گری کا دعویٰ کرنا تو مبالغہ آرائی ہوگا جس کا حق صرف غالبؔ کو تھا۔ محمد اسلم نے (جو اپنے آبائو اجداد کی طرح گھمن ذات سے تعلق رکھتے تھے ) اس مرحلے پر اپنے نام کے ساتھ گھمن کا اضافہ کیا اورکاکول فوجی اکیڈیمی میں داخل ہوئے۔ کامیابی سے فوجی تربیت لے کر 19 اگست1972ء کو کمیشن حاصل کیا۔ یہ وہ برُے دن تھے جب 1971 ء میں ہماری بہادر اور قابل فخر فوج زخموں سے چور تھی۔ جرنیلوںاور سیاسی رہنمائوں کی بدتدبیری اور بے عقلی کی وجہ سے ہونے والی شکست نے اسے نڈھال کر دیا تھا۔ ہمارے نوے ہزار سپاہی بھارتی قید میں تھے۔ اس سانحہ کے بعد بڑے سے بڑے دشمن سے نہ ڈرنے والے فوجی افسروں کی جو پہلی کھیپ اُبھری ، محمد اسلم گھمن اُس میں شامل تھے۔ 31 برس کی بے داغ اور روشن کارناموں سے چمکتی ہوئی فوجی ملازمت سے31 مئی 2003 ء کو ریٹائرڈ ہوئے۔ بریگیڈیئر کے عہدہ تک پہنچے ، فوجی ملازمت کے دوران کلیدی عہدوں پر فائز کئے گئے اور ہر ذمہ داری کو بڑی عمدگی اور اعلیٰ کارکردگی سے نبھایا۔ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ ہاتھی کی وفات اُس کی قیمت کو لاکھ سے بڑھا کر سوا لاکھ کس طرح کر دیتی ہے مگر ایک بات پکی ہے کہ محمد اسلم گھمن کے اصل جوہر اُن کی فوجی ملازمت کے بعد کھلے۔ وہ چار سال (1999-2003ء) خیبر پختون خوا میں قومی احتساب بیورو سے وابستہ رہے اور اگلے پانچ سال (2003-2008 ء) پنجاب میں محکمہ اینٹی کرپشن کے سربراہ۔ دونوں بے حد مشکل کام اس طرح کئے کہ ثابت ہو گیا کہ تالاب کا پانی کتنا ہی گدلا کیوں نہ ہو، اُس میں کنول کا پھول کھل سکتا ہے۔ پرانے زمانوں کی بات ہے جب قصہ گو ہمیں دلچسپ کہانیاں سنانے کا خوشگوار فرض ادا کرتے تھے۔ (پشاور میں تو ایک پورا بازار اُن کے دم قدم سے آباد تھا) میری طرح کے کام چور اورکہانیوں کے رسیا بچے دن کوکہانی سننے کی فرمائش کرتے تواُنہیں سرزنش کی جاتی کہ یہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔ وجہ یہ بتائی جاتی کہ دن کے وقت کہانی سنائی جائے تو مسافر راستہ بھول جاتے ہیں۔ اسلم گھمن صاحب نے ہمیں آپ بیتی کی صورت میں دن کے وقت اپنی کہانی سنائی تو امکان پیدا ہوا کہ اسے سن کر راستہ بھول جانے والی قوم شاید پھر راہ راست پر آجائے۔ اِسی میں ہماری فلاح ہے اور اِسی میں ہماری بقا چونکہ اب ہمارے معاملہ میں فلاح اور بقا لازم و ملزوم ہو چکے ہیں۔
جناب مختار مسعود نے اپنی شاہکار کتاب (آوا ز دوست) میں بجا پر قحط الرجال کا رونا رویا۔ کسی بھی معاشرے کی زمین بنجر ہو جائے تو اُس میںپھول کیونکر کھلیں؟ پھول اُگنا بند ہو جائیں تو پھر پرندے اور تتلیاں بھی منہ موڑ لیتی ہیں۔ پھر وہ خوشبو کہاں سے آئے جو چار سُو تباہی و بربادی ، دل شکستگی ، بیزاری ، خوف و خلجان اور سماجی لا تعلقی کی کالی آندھیوں کے آگے دیوار بن کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ 
بہت سے فوجی افسر آئے اور چلے گئے۔ بے شمار فوجی افسروں کو ریٹائرمنٹ کے بعد قومی خدمت کا ایک اور موقع بھی ملا مگر اُنہوں نے اپنے مشاہدات اور تجربات میں دُوسروں کو حصہ دار نہ بنایا۔ یہ بھی کفران نعمت کے زمرہ میں آتا ہے۔ آپ لکھ سکتے تھے (چاہے میری طرح شکستہ اور غیر نستعلیق) تو یہ فرض کیوں ادا نہ کیا۔ جنرل شاہد عزیز نے بہادری اور بے خوفی سے سچ (اور وہ بھی بے حد کڑواسچ) لکھنے کی جو شاندار روایت قائم کی ، گھمن صاحب نے اسے آگے بڑھایا اور یہ ثابت کر دیا کہ علامہ اقبالؒ نے پنجابی مسلمانوں کے بارے میں اپنی جس (کافی خراب) رائے کو منظوم کیا تھا ، اُس کے آگے ایک چھوٹا سا سوالیہ نشان لگانے کا جواز پید اہو گیا ہے۔ محمد اسلم گھمن کی سوانح حیات کی صورت میں ہمارے ہاتھ کم از کم ایک دلیل تو آئی کہ سمبڑیال کے گرم میدانوں کا ایک جاٹ بھی فطرت کے تقاضوں کی اُس طرح نگہبانی کر سکتا ہے جس کی اقبال صرف بندۂ صحرائی اور مرد کہستانی سے توقع رکھتے تھے۔ یہی بااُصول اور باضمیر شخص اُس کتاب کا مصنف ہے ۔
تعارفی سطور ختم کرنے سے پہلے یہ مناسب ہوگا کہ سرراہے تین نکات بیان کئے جائیں۔ اوّل: ان سطور کو لکھنے والے کی مصنف سے نہ کوئی دوستی ہے اور نہ ہی کوئی رشتہ داری (اور نہ ہی اُس کا امکان ہے) ۔ دوئم : عام طور پر ایسی کتاب لکھنے والے اپنے پرانے دوستوں (خصوصاً جو اُن کے احسان مند بھی ہوں) سے فرمائش کرکے اپنا تعارف لکھواتے ہیں۔ یہاں معاملہ بالکل اُلٹ ہے۔ جناب حسن نثار کے کالموں میں گھمن صاحب کی کتاب کے اقتباسات پڑھ کر میں نے خود پیشکش کی کہ وہ اجازت دیں تو میں تعارف نامہ لکھوں کہ یہ میرے لئے باعث اعزاز ہوگا۔ سوم : مندرجہ بالا سطور تین حصوں میں لکھی گئیں۔ ایک حصہ سمبڑیال سے چھ ہزار میل دُور مغرب (لندن) میں۔ دُوسرا حصہ چھ ہزار میل دُور مشرق(کوالالمپور) میں۔ تیسرا حصہ ان دونوں جگہوں کے درمیان 14 گھنٹے لمبی پرواز کے دوران۔ بہت سی کانٹ چھانٹ کے بعد جو سطور باقی رہ گئیں اُن میں ربط اور تسلسل نہ ہو تو قابل معافی ہونا چاہئے۔ سمبڑیال کی پڑوسی تحصیل (پسرور) کے ایک غریب جاٹ کاشتکار کے پڑپوتے نے جو کچھ دیانتداری سے سوچا اور سمجھا، وہ بلا کم و کاست آپ کے سامنے رکھ دیا۔ اب آپ جانیں اور گھمن صاحب اور اُن کی آپ بیتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں