\"This is not Cricket\"

پاکستان میں کرکٹ کے شائقین کے لئے یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ برطانیہ میں اس کھیل کے باے میں عمومی رویہّ کیا ہے؟ بھارت اور پاکستان لڑ پڑیں اور جنگ چھڑ جائے تو اتنی جذباتی شدت کا مظاہرہ (سرحد کی دونوں طرف) کیا جاتا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں رہتا کہ زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ برطانیہ میں معاملہ بالکل اُلٹ اور متضاد ہے۔ انگریزوں کو کرکٹ کے اچھے کھیل سے دلچسپی اس حد تک ہوتی ہے کہ وہ اپنے خلاف کھیلنے والے اچھے کھلاڑیوں کو دل کھول کر داد دیتے ہیں۔ ایک دفعہ مجھے لارڈز کی مشہور گرائونڈ میں اُس جگہ نشست ملی جو مقامی سفید فام لوگوںٖ سے بھری ہوئی تھی۔ انگلستان کا مقابلہ پاکستان سے تھا اورظاہر ہے کہ میں اپنی ٹیم کی پرُ جوش حمایت کرنے کا بھرپور ارادہ رکھتا تھا۔ میں بہت گھبرایا کہ میں اتنے دُشمنوں میں گھرا ہوا ہوں۔ کروں تو کیا کروں۔ آخر سر پر کفن باندھ کر اور جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنی نشست پر بیٹھ گیا ۔ کھیل شروع ہوا تو آپ میری خوشگوارحیرت کا تصور کریں کہ پاکستانی بائولرز وکٹ لیتے تھے تومیں یہ دیکھ کر بے حد حیران ہوتا تھا کہ میرے اردگردبیٹھا جم غفیر اس طرح خوشی سے تالیاں بجا رہا تھا اور دادوتحسین کے ڈونگرے برسا رہا تھا کہ اگر میں آنکھیں بند کر لیتا تو یہی لگتا کہ یہ میچ لاہور ہو رہا ہے۔ یہی ماجرا بیٹنگ کے وقت دیکھنے میں آیا۔ پاکستانی بلے باز چوکا لگاتا تو ساری گرائونڈ تالیوں اور تعریفی نعروں سے گونج اُٹھتی۔ اس تمہید کے بعد میں آپ کو روزنامہ ٹیلی گراف کے نائب مدیر Peter Osborne کی نہایت دلچسپ اور معلوماتی کتاب سے متعارف کرانا چاہتا ہوں جس کا نام ہے ''زخمی شیر‘‘: پاکستان میں کرکٹ کی تاریخ۔ آپ انگریزی میں بھی نام پڑھ لیں۔ (Wounded Tiger: History of Cricket in Pakistan) 592 صفحات کی قیمت 25 پائونڈ یعنی 4125روپے ہے ،جو یقینا اتنی زیادہ ہے کہ میں اپنے پیارے قارئین کو کتاب نہ خریدنے کا مشورہ دُوں گا۔ کتاب کی رُونمائی کی تقریب میں (جس میں ہمارے عمران خان نے خلاف معمول دھیمے انداز میں ایک اچھی تقریر کی) مجھے بتایا گیا کہ کتاب کے ناشرین اس کا اُردو ترجمہ کرا کے اسے پاکستان میں شائع کرنے (یا کرانے) کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ پھر اس کی قیمت انگریز ی ایڈیشن کے مقابلہ میں ایک چوتھائی سے بھی کم ہوگی۔
روزنامہ گارڈین میں Peter Wilby نے اس کتاب پر بڑا دوستانہ تبصرہ لکھتے ہوئے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں ابھی تک کرکٹ ہر سطح پر کھیلی جاتی ہے جو کسی معجزہ سے کم نہیں۔ غیر منقسم بھارت کی کرکٹ ٹیم نے (دو بڑی جنگوں کے درمیانی وقفہ میں) برطانیہ کی سرزمین پر اپنے حاکموں کے خلاف میچ کھیلنے شروع کر دیئے تھے۔ جن پنجابی مسلمانوں نے اس ٹیم کے رُکن بن کر لازوال شہرت حاصل کی اُن میں نثار، دلاور حسین اور ڈاکٹر جہانگیر خان (ماجد خان کے والد اور عمران خان کے چچا) کے نام تو مجھ جیسے عمر رسیدہ شخص کو یاد ہیں۔ پاکستان بنا تو ملک بھر میں ٹرف کی صرف وکٹیں تھیں۔ پاکستان کو کرکٹ کے بین الاقوامی کلب کا رُکن بننے کا درجہ ( Test Status) حاصل کرنے کے لئے 1952 ء تک انتظار کرنا پڑا۔ کمال کی بات یہ ہے کہ پاکستان نے (بھارت کے خلاف کھیلا جانے والا) دُوسرا ٹیسٹ میچ جیت لیا اور 1954 ء میں لندن کی گرائونڈ (Oval)میں انگلستان کی اُس ٹیم کو (فضل محمود کی شاندار بائولنگ اور امتیاز احمد کی وکٹ کیپری کی بدولت) سنسنی خیز شکست دی جس کے کپتان Sir Len Hutton تھے۔ (وہ اس میچ کے بعد عالمی کرکٹ سے ریٹائر ہو گئے)۔ بھارت سے مقابلہ کرنا مناسب اور موزوں ہوگا جسے برطانیہ میں کرکٹ کا میچ جیتنے کے لئے 1971ء تک انتظار کرنا پڑا۔ اگلا سنگ میل 1956 ء تھا۔ جب پاکستان نے آسٹریلیا کی اُس ٹیم کو ہرا دیا جوانگلستان میں اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ کر گھر جاتے ہوئے کراچی رُکی تھی۔ 1959 ء تک کوئی ٹیم پاکستانی کرکٹ ٹیم کو پاکستان کی سرزمین پر شکست نہ دے سکی۔ پہلے آٹھ سالوں میں پاکستان نے کل 29 ٹیسٹ میچ کھیلے۔ آٹھ میں کامیابی۔ نومیں شکست اور باقی برابر رہے۔
فاضل مصنف نے تعریف کا کوئی ایسا لفظ نہیں جو حنیف محمد، فضل محمود، عمران خان، وسیم اکرم، وقار یونس، جاوید میاں داد اور ظہیر عباس کے لئے فیاضی سے استعمال نہ کیا ہو۔ میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں آپ کو بتا سکوں کہ اس کتاب میں پاکستا نی کرکٹ کے لئے محبت، عزت، احترام اور اپنائیت اور گرم جوشی کے جذبات کس حد تک رچے بسے ہیں۔ جب تک آپ یہ کتاب خود نہ پڑھ لیں گے آپ کو شاید میرے تبصرہ کی صداقت پر یقین نہ آئے۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارا مزاج قبائلی ہے۔ ہم دھڑے داراور پارٹی باز لوگ ہیں یا بن گئے ہیں۔ اقبال سے پوچھا گیا کہ غلامی کیا ہوتی ہے؟ اُنہوں نے فرمایا ''ذوقِ حسن وزیبائی سے محرومی‘‘۔ کرکٹ جیسے منفرد کھیل کے حسن اور رموز کو وہ لوگ کس طرح سمجھ سکتے ہیں جو ذوق حسن وزیبائی سے محروم اور ذہنی طور پر غلام ہوں۔ اگر آج اقبالــؔ زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ اب عوام کا ایک بڑاحصہ نہ صرف رقص و موسیقی کو بلکہ کرکٹ اور دوسری تمام کھیلوں (یہاں تک کہ پتنگ اُڑانے کو بھی) لہوو لعب قرار دے کر خلاف اسلام اور غیر شرعی قرار دیتا ہے۔
فاضل مصنف نے اپنے قارئین کو بتایا ہے کہ شعیب اختر (راولپنڈی ایکسپریس) سے زیادہ تیز گیند آج تک کسی اور بائولر نے نہیں پھینکے اور نہ ہی کسی اور کھلاڑی نے شاہد آفریدی سے زیادہ چھکے لگائے ہیں۔ 1979 ء میں پاکستان نے اپنی قومی ٹیم میں توصیف احمد کو بطور سپن بائولر شامل کیا جس نے ٹیسٹ میچ سے پہلے زندگی میں صرف ایک فرسٹ کلاس میچ کھیلا تھا مگر اُس نے آسٹریلیا کے سات کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا۔ سرفراز نواز، وسیم اکرم اور وقار یونس نے تیز بائولنگ میں ریورس سوئنگ اور ثقلین مشتاق نے ''دُوسرا‘‘ (آف بریک نظر آنے والی گیند مگر دراصل لیگ بریک) متعارف کرایا۔ کتاب میں اس افسوس ناک صورت حال پر دوستانہ انداز میں تنقید کی گئی ہے کہ ہماری کرکٹ ٹیم کی کارکردگی شاندار کامیابیوں اور ذلت آمیز شکستوں سے عبارت ہے۔ دوسال ے زیادہ کسی کھلاڑی کو کیپٹن نہیں رہنے دیا جاتا۔ کھلاڑی بمشکل ٹیم میں اپنا مقام پیدا کرتا ہے قدم جماتا ہے کہ اُسے ٹیم سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔ اور سفارشی شامل کر لئے جاتے ہیں۔ جب تک غیر جانبدار امپائر کی تقرری کا (عمران خان کے پرُ زور اصرار پر) مرحلہ نہیں آیا تھا۔پاکستان میں کھیلے جانے والے ہر میچ میںپاکستان کی کامیابی کا سہراجانبدار امپائرنگ کے سر باندھا جاتا تھا۔ ہماری کرکٹ ٹیم کے بارے میں اقبال ؔ کے یہ الفاظ بڑے موزوں ہیں۔ ''ادھر ڈوبے۔ اُدھر نکلے‘‘ ہماری کرکٹ ٹیم کی تاریخ ڈرامائی واقعات سے بھری پڑی ہے۔ جب وہ برُی طرح شکست کھا جائے تو کروڑوں مداح رو دھوکر صبر کر لیتے ہیں۔ مایوسی کے عالم میں اُن کے دل ٹوٹ جاتے ہیں۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے عین اُسی وقت خلاف توقع ہماری ٹیم ایک شاندار کامیابی حاصل کر کے ہمارے دلوں کو بے پایاں خوشی ،غرور ،خود اعتمادی اور ہمارے اُوپر اللہ تعالیٰ کی خاص نعمتوں کے نزول پر ایمان سے بھر دیتی ہے۔
اس کتاب کا لُبّ لباب یہ ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کا ڈھانچہ جن سات ستونون پر کھڑا ہے۔ اُن کے نام ہیں ڈراما۔ سازش، بے خوفی، بہادری، تھوڑی بہت بدمعاشی ،کرپشن، بے نظمی اور تشدد، سریِ لنکا کی ٹیم پر دہشت گرد حملہ کے بعد کوئی غیر ملکی ٹیم پاکستان میں میچ نہیں کھیلتی ،اس لئے پاکستان مجبوراً عرب امارات کی سرزمین کو اپنی ہوم گرائونڈ بنانے پر مجبور ہوا ۔ کتاب میں جوئے بازی کے اُس سیکنڈل کی تفصیل بتائی گئی ہے جس کا تعلق سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر سے ہے۔ میں اس کے بارے میں شاید مصنف سے زیادہ جانتا ہوں مگر اس لئے مہر لب ہوں کہ میرے بیرسٹر بیٹوں میں سے ایک (علی) سلمان بٹ کا وکیل صفائی تھا اورسارے معاملات سے اچھی طرح واقف تھا جب اس کے باپ نے راز داری کی قسم کھائی تو اُسے بھی پردے کے پیچھے جھانکنے کا موقع فراہم کیا گیا۔آج عامر کو معافی دلوا کر دوبارہ ٹیسٹ میچ کھیلنے کی اجازت دلانے کی مہم میں برطانوی کھلاڑی ،خصوصاً سابق کپتان ناصر حسین پیش پیش ہیں۔جو قوم کرکٹ کے اُصولوں کا صدق دِل سے احترام کرتی ہے وہ زندگی کے دُوسرے کام بھی سلیقہ اور نظم و ضبط سے سرانجام دیتی ہے۔ برطانیہ میں کسی بھی شعبہ زندگی میں بے اُصولی کا مظاہرہ کیا جائے تو لاٹھی چارج کی بجائے تنقید ،ان نرم الفاظ میں کی جاتی ہے:"This is not Cricket"

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں