مسیحی فرقہ اور سپین کی نوابزادی

پچھلا کالم امریکہ میں ایک مسیحی فرقہ Mormon کے ذکر پر ختم ہوا تھا۔ یہ کالم بھی اُنہی کے ذکر سے شروع ہوتا ہے۔ ایک جوڑا جو بڑی سختی سے اس فرقے پرکاربند تھا، مذہبی پابندیوں سے اتنا گھبرایا کہ (غالباً اس فرقے کی 175 سالہ تاریخ میں پہلی بار) اپنے آبائی فرقے کو چھوڑنے کا مشکل ترین فیصلہ کرلیا۔ خاوند نے تو خاموشی میں عافیت سمجھی مگر بیویCarys Bray نے قلم تھاما اوراس نازک موضوع پر ایک کتاب A song for Issy Bradley لکھی جو برطانیہ میں انگریزی ادب کی اس سال شائع ہونے والی چار بہترین کتابوں کی فہرست میں نامزدکی گئی ۔ ہر اچھے اخبار اورادبی جریدے نے اس کے محاسن کی تعریف کی۔ امریکی شہر Utah میں اس فرقے کے اثر و رسوخ کا یہ عالم ہے کہ اُس کی اپنی یونیورسٹی ہے جس میں اس باغی خاتون نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ کتاب کا موضوع وہ شدید ذہنی تکلیف اور رُوحانی کرب ہے جو کسی بھی شخص کو اپنے مذہبی عقائدکو خیر باد کہنے کے عمل میں برداشت کرنا پڑتا ہے۔ مصنفہ نے بتایا ہے کہ اُن کے لیے سب سے مشکل کام اپنے ماں باپ کو اپنے ترک عقیدہ کے فیصلے سے آگاہ کرنا تھا جو اس وحشت ناک خبرکے صدمے سے نڈھال ہو گئے اوراُنہیں سنبھلنے میں کئی سال لگے۔ ماں باپ ہوتے ہی سخت جان ہیں، واقعہ کتنا ہی پریشان کن ہو، والدین کو اپنی جان بہرحال عزیز ہوتی ہے۔ وہ اپنی اولادکی بری خبریں سن کر بے ہوش اور بے حال ہونا شروع کر دیں تو زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتے۔
20 نومبرکو سپین میں ایک بڑھیا نے وفات پائی تو یورپ کے تمام اخبارات میں تعزیتی مضامین شائع ہوئے۔ بڑھیا یقیناً کوئی عام خاتون نہ تھی۔ پہلے آپ مرحومہ کا پورا نام پڑھ لیں جو اندازاً بارہ الفاظ پر مشتمل ہے: Maria Del Rosario Cayetana Alfonsa Victoria Eugenia Fernanda Fitz James Stuart Y Silva ، وہ 28 مارچ 1926ء کوپیدا ہوئیں،اس حساب سے 88 سال عمر پائی۔ اُن کا سرکاری لقب تھا 18th Duche's of Alba یعنی ایلبا کی 18ویں نوابزادی۔ سپین میں شاید ہی کوئی دوسرا شخص اس خاتون سے زیادہ جانا پہچانا تھا۔ اُن کے سرکے بائیں طرف کے بال دھنکی ہوئی روئی جیسے تھے، چہرہ اور ہاتھوں کی جلد ایسی کہ لگتا اُس پر موم کی تہہ جمی ہو۔ تیزآوازجو لڑائی جھگڑے کے لئے بڑی مناسب تھی۔ جوں جوں عمر بڑھتی گئی، نوابزادی کے روایت شکن خیالات بڑھتے گئے اور وہ بلاخوف و خطر اپنے ان خیالات کا اظہارکرتیں تو ان کے لاکھوں چاہنے والوں کی جبینوں پر ناپسندیدگی کی کئی لکیریں نمودار ہو جاتیں۔ وہ ٹیلی ویژن کے گپ شپ اور غیر سنجیدہ پروگراموں کی جان تھیں۔ اگر وہ مرد ہوتیں تو اُن کی وفات پر یہی لکھا جاتا : حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔
خاتون تھیں تو کیا ہوا، وہ ہر لحاظ سے عجیب تھیں اورآزاد منشی میں اپنا منفرد مقام رکھتی تھیں۔ وہ بے حد دولت مند اور سپین میں سب سے زیادہ زمین کی مالکہ تھیں ۔ اُن کے محلات ، تعداد اور شان و شوکت کے لحاظ سے سپین کے شاہی خاندان کو مات کرتے تھے۔ سپین کے ایک صوبہ Smamanca جہاں اُن کا آبائی گھر (یعنی محل) تھا اُس کا نام Alba De Tormos ہے، اسی مناسبت سے 'ایلبا کی نوابزادی‘ کا لقب اُن کی پہچان بن گیا۔
ایلباکی جاگیرکی تاریخ 15ویں صدی میں شروع ہوئی مگرگزشتہ چھ سوسالوں میں وہ تیسری خاتون تھیں جو اس جاگیر کی مالکہ بن کر مذکورہ لقب کی حق دار بنیں۔ اُن کا نانا Al fonso XIII سپین کا بادشاہ تھا، نانی (یعنی ملکہ ) کا نام وکٹوریہ تھا اور وہ نسلاً انگریز تھیں۔ نوابزادی کے تمام القابات کی تعداد46 ہے۔ سکاٹ لینڈکا بادشاہ جیمزدوئم بھی اُن کے آبائو اجداد میں شامل تھا۔ اُن کے ناتواں جسم کی رگوں میں جو خون دوڑتا تھا، اُس کا رنگ (انگریزی محاورے کے مطابق) اتنا نیلا تھا کہ اُنہیں دو خصوصی مراعات کا حقدار بنا گیا۔۔۔۔۔ایسی مراعات جوسپین میں کسی بھی دوسری خاتون کو حاصل نہ تھیں۔ پوپ سے ملاقات پر اُنہیں جھک کر سلام کرنے سے معافی مل گئی اور وہ Serille کے سب سے بڑے گرجا گھرکے اندرگھوڑے پر سوار ہوکر داخل ہو سکتی تھیں۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ اگر یہ نوابزادی منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئی تو اُن کی ساری زندگی عیش و عشرت سے عبارت تھی۔
1931ء میں سپین آئینی طور پر جمہوریہ بنا تو شاہی خاندان تخت و تاج سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ غریب کسانوں اور مزارعوںکی ایک زبردست انقلابی تحریک نے زور پکڑنا شروع کیا جس کا نصب العین جاگیروں پر قبضہ کرنا تھا۔ اُن کی عمر صرف آٹھ برس تھی جب تپ دق نے اُن کی والدہ کی جان لے لی۔ اپنے والد کے ساتھ دردرکی ٹھوکریں کھانی پڑیں۔ اُن کے دن1936ء میں پھرے جب سپین کے فاشسٹ حکمران جنرل فرانکو نے اُن کے والدکو برطانیہ میں پہلے اپنا نمائندہ اور چار سال جاری رہنے والی خانہ جنگی میں کامیابی کے بعد اپنا سفیر بنا دیا۔ لندن میں قیام کے دوران مستقبل کی نوابزادی نے تعلیم حاصل کی، صرف نصابی نہیں موسیقی اور مصوری کی تعلیم بھی۔ جب اُنہوں نے وفات پائی تو ریمبران کے علاوہ یورپ کے سب بڑے مصوروں کے شاہکار اُن کے محلات کی زینت بن چکے تھے۔ 1953ء میں والدکی وفات پر اُنہیں ایلبا کی جاگیر اورنوابزادی کا لقب ورثے میں ملا۔ 1947ء میں اُن کی شادی کی تقریبات کو دُنیا میں سب سے مہنگی شادی ہونے کا اعزاز ملا۔ وہ چھ بچوں کی ماں بنیں اور ہر بچے کو بلوغت پر ایک جاگیرکے نواب کا خطاب دیاگیا۔
اُن کے پہلے شوہر نے 1972ء میں وفات پائی تو چھ سال بعد 56 سال کی عمر میں اُنہوں نے ایک سابق پادری (جو معروف دانشور تھا) سے شادی کر لی۔ شادیاں اپنی جگہ مگر نوابزادی نے سپین کے اتنے رقاصوں اور بیلوں سے لڑنے والوں کے ساتھ عشق کیے کہ اخبارات اُن کے سکینڈلزکی تفصیلات لکھتے لکھتے تھک گئے مگرنوابزادی کا دل نہ بھرا ۔
1950ء میں دنیا کے سب سے بڑے مصور پکاسونے خواہش ظاہرکی کہ وہ نوابزادی کی دو تصویریں بنانا چاہتاہے۔۔۔۔۔ایک شاہانہ پوشاک میں اور دوسری بے لباس ۔۔۔۔ جیسے افسانوی شہرت کے حامل ایک مصور نے اس کی نانی کی دو تصویریں بنائی تھیں۔ یہ تجویز نامنظورکر دی گئی۔ پکاسُوکمیونسٹ تھا اوراُس سے تصویر بنوانے کا مطلب سپین کے فسطائی حکمران فرانکوکو ناراض کرنے کے مترادف تھا۔ جب نوابزادی نے پکاسو کی تصاویر بڑی تعداد میں خریدکر اپنے ایک محل میں نمائش کے لئے رکھ دیں تو دائیں بازوکے غنڈوں نے ان کے خلاف مظاہرے کیے جنہیں نوابزادی نے نظراندازکر دیا۔ اخبارات نے ان کی کردارکشی کرتے ہوئے یہ بھی لکھ دیاکہ وہ خفیہ طور پر اشتراکی ذہن رکھتی ہیں ۔ یہ الزام اس وقت بے بنیاد ثابت ہوا جب 2006ء میں اندلس میں، جہاں نوابزادی کی جاگیر 84 ہزار ایکڑ پر پھیلی ہوئی تھی، اُن کی اپنے ہزاروں مزارعوں سے ٹھن گئی۔ مظاہرین کو پسپاکرنے کے لیے پولیس نے لاٹھی چارج کیا جس سے 14کسان زخمی ہوگئے۔ نوابزادی نے مظاہرین کے مطالبات ماننے سے انکارکر دیا اور مرتے دم تک اپنی ہٹ پر قائم رہیں ۔ اُنہوں نے مزارعین کے خلاف جوبیانات دیے وہ ہتک عزت قرار پائے؛ چنانچہ نوابزادی کو چھ ہزار یوروکا برائے نام ہرجانہ ادا کرنے کے علاوہ زندگی میں پہلی بار معافی بھی مانگنی پڑی۔
اپنے دُوسرے خاوندکی وفات پر 72 سال کی عمر میں تیسری شادی کرنا چاہتی تھیں مگر اُن کے بچوں نے سخت مزاحمت کی اور اُن کے خلاف زبردست عدالتی کارروائی شروع کر دی مگر یہ ہنگامہ اُنہیں اپنے سے 24 سال کم عمرشخص کے ساتھ شادی کرنے سے نہ روک سکا۔ نوابزادی کے سفر آخرت کی گھڑی آپہنچی تو ان کا جسد خاکی جس تابوت میں بند تھا اُسے ان کے پانچ بیٹوں اور سوگوار شوہر نے اُٹھایا اور قبر پر مٹی ڈالی۔ اس طرح سپین کے عوامی منظر نامے سے ایک رنگا رنگ شخصیت نظروں سے اوجھل ہو گئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں