جنگل کی ہوا اور دوستی کی خوشبو

آج کے کالم کا عنوان شاعر مشرق و مغرب علامہ اقبال کے ایک خوبصورت شعر سے مُستعار لیا گیا ہے ؎
ہوائے دشت سے بوئے رفاقت آتی ہے
عجب نہیں ہے کہ ہوں میرے ہم عناں پیدا
مجھے یہ لکھنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ میں برسہا برس سے جو باتیں بار بار کہتا ہوا آیا ہوں (زیادہ مناسب ہوگا کہ لکھوں کہ فریاد کرتا ہوا آیا ہوں) کہ ہمارا موجودہ سیاسی‘ معاشی‘ عدالتی اور معاشرتی نظام بوسیدہ اور فرسودہ ہے۔ بالکل گل سڑ چکا ہے۔ اگر گاڑی کا انجن ہی خراب ہو تو ڈرائیور (چاہے وہ کتنا ہی اچھا ہو) بدلنے سے گاڑی نہ چل سکتی ہے اور نہ آگے بڑھ سکتی ہے۔ ہماری نادانی قابل رحم ہوگی اگر ہم اُس گاڑی سے فراٹے بھر کر بھاگنے کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔ اس کالم نگار کو یہ فریاد کرتے ہوئے 33 سال ہو گئے۔ لگتا تھا کہ یہ صدابصحرا ہے‘ نقار خانہ میں طوطی کی آواز۔ مگر اب آپ میری خوشگوار حیرت ملاحظہ فرمایئے گا کہ مجھے کراچی سے لے کر راولپنڈی تک سے (نہ جانے پشاور اور پختون خوا کی باری کب آئے گی) میرے موقف کی حمایت کے ای‘ میل ملنا شروع ہوگئے ہیں۔ بارش کے پہلے قطروں کی طرح۔ 
جناب مختار مسعودنے (جو مجھ سے کہیں زیادہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں) نے ایک کمال کے فارسی شعر (غالباً عرفی کا ہے اور اگر وہ نہیں تو ڈاکٹر ناصر صاحب میری اصلاح پھر کر دیں گے) سے آواز دوست کی ترکیب لے کر اپنی نہایت عمدہ کتاب کا عنوان بنایا۔ دوستی کی آواز شبنم کے قطروں کی طرح ہوتی ہے کہ گریں تو نظر نہیں آتے۔ یہ آواز اتنی مدھم اور مدھر ہوتی ہے اور ایک دل سے دُوسرے دل کی طرف اتنے دبے قدموں سے سفر کرتی ہے کہ کسی غیر کو (خصوصاً رقیب رُوسیاہ کو) کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ میرے پیرو مرشد علامہ اقبال نے تین بڑے اہم سوال کئے۔ اوّل: پوشیدہ جو ہے مجھ میں وہ طوفان کدھر جائے؟۔ دوئم: اس کوہ و بیاباں سے حُدی خوان کدھر جائے۔ سوئم :آیات الٰہی کا نگہبان کدھر جائے۔تیسرا سوال تو صرف علامہ اقبال کو زیب دیتا ہے۔ میری کیا مجال کہ اسے اُٹھانے کی جرأت کر سکوں۔ مگر یہ کالم نگار غالباً اُن کے کئے ہوئے پہلے د و سوالوں کو دُہرانے کی جسارت کر سکتا ہے۔ آخر وہ مبارک وقت آیا جب اقبالؔ کو پتہ چل گیا کہ اگر ذرا سا بھی نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے۔ اُنہیں بہار کی اُمید دکھائی دی تو اُنہوں نے فصل خزاں میں شجر سے ٹوٹ جانے والی ٹہنی کو شجر سے جڑے رہنے (اقبال کی زبان میں پیوستہ رہنے) کا مشورہ دیا۔ اقبال کو ہوائے دشت سے بوئے رفاقت آئی تو وہ خوشی سے کھلِ اُٹھے کہ اب یہاں اُن کے ہم عناں یعنی ہم خیال (اور راز داں) بھی پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ اس کالم نگار نے بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھا تو انجمن میں اُس کی تنہائی ختم ہونے کے آثار پیدا ہونے لگے۔ اگر اس خوش نصیبی کا کوئی تعلق پیرانہ سالی سے ہے تو میں بصد خوشی اور بہ رضاو رغبت 33 سال پہلے ہی بوڑھا ہو جاتا۔ دوستی آواز کی صورت اختیار کرے یا خوشبو کی۔ وہی رشتوں کی معراج ہے۔ صرف انسانوں کے درمیان کی نہیں بلکہ خالق و مخلوق کے درمیان رشتہ کی بھی۔ یہی وجہ ہے کہ فرمایا : کاسب (کارکن یا محنت کش) اللہ کا حبیب (یعنی دوست ) ہے۔ 
اب آئیں ہم (اپنے مائی باپ )ا مریکہ کی طرف چلیں جہاں ان دنوں اگلے سال ہونے والے صدارتی انتخاب کے ابتدائی مراحل طے کئے جا رہے ہیں۔ کروڑوں اور اربوں ڈالر کے بے دریغ استعمال سے دنگل شروع ہو چکا ہے۔ انتخابی اکھاڑے سے دُھول اُٹھ رہی ہے۔ کشتوں کے پشتے لگ رہے ہیں۔ امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کا۔ اپنا وطن چھوڑ کر امریکہ آباد ہونے والوں کا۔ اپنی اس خوش قسمتی پر پھولے نہ سمانے والوںکا۔ سب تارکین وطن کا ۔ تمام شہری آزادیوں کا۔ ہر قسم کے انسانی حقوق کا۔ روا داری اور بقائے باہمی کا۔ ان سب کا دُشمن نمبر ایک ڈونلڈ ٹرمپ ( Donald Trump ) ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے۔ اُسے دائیں بازو کے رجعت پسندوں اور عوام دُشمنوں کی پر جوش حمایت حاصل ہے۔ وہ امریکہ جو دُنیا بھر کے لوگوں کو اُخوت اور بھائی چارہ اور اعلیٰ انسانی قدروں کے سبق سکھاتا رہتا ہے۔ اُس کی آبادی کی واضح اکثریت اس شیطان اعظم کی حامی ہے۔ وہ صدر بنتا ہے یا نہیں۔ ہر گز اہم نہیں۔ قابل غور و فکر اور باعث تشویش فی الحال اُس کی مقبولیت ہے۔ اپنے وقت کے سب سے بڑے برطانوی شاعر (W.H Auden) 1939ء میں امریکہ گئے اور وہاں جو کچھ دیکھا اور جو ذہنی صدمے اُٹھائے وہ نو شعروں کی ایک نظم میں اتنے اچھے طریقے سے سمو دیئے کہ اُن کا ترجمہ نہیں کیا جا سکتا۔ میں اپنے قارئین سے اجازت چاہوں گا کہ اُس نظم کو انگریزی میں ہی نقل کروں۔جو نہ صرف امریکہ کا نوحہ ہے بلکہ اُس کے اشاروں پر ناچنے والی کٹھ پتلیوں (جن میں ہمارے حکمران بھی شامل ہیں)کے لئے لمحہ فکریہ بھی۔ 
As the clever hopes expire 
Of a low dishonest decade 
Waves of anger and fear 
circulate Over the bright
And darkened lands of the earth 
Obsessing our private lives 
Out of the mirror they stare 
Imperialism's face 
And the international wrong 
برطانیہ کے سب سے اچھے اخبار (گارڈین) کی ایک تازہ خبر کے مطابق امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ (وزیراعظم کے ہم منصب) جان کیری نے ہالی وڈ کے تمام بڑے فلم سازوں کی خدمت میں حاضری دی اور اُنہیں اس تجویز کی حمایت پر آمادہ کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ وہ جس طرح سرد جنگ کے زمانہ میں سوویت یونین اور اشتراکی ممالک کی خلاف فن کارانہ مہارت کے ساتھ زہر یلا اور منفی پروپیگنڈاکرتے تھے (مثلاً سی آئی اے سے عطیات وُصول کر کے جیمز بانڈ ٹائپ فلمیں بنایاکرتے تھے) اب اُسی روش کو اپناتے ہوئے مشرق وُسطیٰ میں قائم ہو جانے والی اسلامی ریاست (مغربی ممالک کی زبان میں داعش) کے خلاف بھی مہم شروع کریں ۔ سادہ لوح فلم بین خواتین و حضرات فلموں کو صرف ذریعہ تفریح سمجھتے ہیں۔ دراصل ہر فلم کے پیچھے ایک ایسا بیانیہ کا ر فرما ہوتا ہے جو کھلم کھلا نظر نہیں آتا مگر وہ غیر شعوری طور پر فلم دیکھنے والے کو متاثر کرتا ہے۔
آج کا کالم معمول سے زیادہ ثقیل ہو گیا۔ اس لئے آخر میں دو چھوٹی چھوٹی دلچسپ خبریں۔ شمالی انگلستان کے ایک قصبہ میں رہنے والے ایک گھرانہ نے پولیس میں رپٹ درج کرائی کہ اُس کا ایک فرد کئی دنوں سے گھر سے غائب ہے اور اُس کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ پولیس نے تفتیش کی تو پتہ چلا کہ موصوف مقامی حکومت کے (یونین کونسل) کے دفتر کے علاوہ عوامی خدمت کے کئی اداروں میں رضاکارانہ خدمت کرنے میں اس قدر مصروف رہے کہ گھر جانے کا ہوش نہ رہا اور وہ اتنی رات گئے تک کام کرتے تھے کہ دفتر میں ہی سو جاتے تھے۔ برطانیہ میں کوئی مرکزی یاصوبائی پولیس فورس نہیں۔ پولیس نے اس گم شدہ شخص کو اس کے دفتر میں پڑے ہوئے صوفہ سے جگایا اور گھر کا راستہ دکھایا جہاں اُن کے اہل و عیال کا پریشانی سے برا حال تھا۔ آپ نوٹ فرمائیں کہ ہر کائونٹی (ڈویژن) کی اپنی پولیس فورس ہے۔ کوئی وفاقی یا صوبائی پولیس فورس نہیں۔ دُوسری خبر بھی شمالی انگلستان سے آئی ہے ۔ایک کائونٹی Northumbria میں محکمہ پولیس کے سربراہ نے 595 پائونڈ خرچ کر کے 55 تھانوں میں ایک ایک شیشہ لگوایا ہے کہ پولیس کے سپاہی آتے جاتے اپنا چہرہ اور اپنی وردی اس شیشہ میں دیکھ کر اپنے آپ کو یاد دلائیں کہ وہ کتنے اہم عہدے پر فائز ہیں ؟ اور اُن کی ذمہ داریاں کتنی زیادہ ہیں؟ شیشے میں نظر آنے والا عکس اُن کے عملہ کو یادد ہانی کا فریضہ سرانجام دے گا۔ آئینہ دیکھنے کا مطلب خود احتسابی ہے تو ہمیں بھی اقتدار کے ایوانوں میں شیشے لگوانے چاہئیں۔ مجھے اُمید ہے کہ یہ موثر ثابت ہوگا۔ ہمارے حکمران خود توشیشہ دیکھتے نہیں اور اگر اُنہیںصحافی آئینہ دکھائیں تو بہت برا منا جاتے ہیں اور یہ کہہ کر شیشہ توڑنے سے بھی باز نہیں آتے۔ ؎
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں